حب الوطنی،جذبات نہیں، شعور کا نام ہے

ہمارے ہاں کچھ عرصے سے ایک عجیب سا سماجی و فکری تماشا جاری ہے،مصنوعی حب الوطنی کا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہاتھوں نے حب الوطن کو بھی ”پیکیج“ بنا کر مخصوص وقتوں میں لانچ کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہو۔ جذبے کی اس مصنوعی حرارت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قومی وقار اب جذباتی نعرے، وقتی واہ واہ اور پروفیشنل خوشامد کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہ سب کچھ ”نظریہ ضرورت“ کے تحت کیا جاتا ہے، یعنی ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس میں کچھ چہروں کو بڑھا چڑھا کر حب الوطنی کا نمونہ پیش کیا جائے، چند جملوں کو قومی بیانیہ قرار دیا جائے، اور ایسے دماغوں کو رائے ساز بنایا جائے جنہیں نہ شعور ہے نہ ادراک۔ بس تعریفوں کے پل باندھنے کا فن جانتے ہیں۔سب ہرا بھرا دکھانے اور دشمن کوتاثردینے کے لیے کہ ”سب اچھا“ ہے۔مگرسچ یہ ہے کہ ایسی حب الوطنی کی جڑیں نہ عوام میں ہوتی ہیں نہ ریاستی ساخت میں؛ یہ جذبات کے مصنوعی گملوں میں اگنے والی وہ گھاس ہوتی ہے جو پہلی ہی ہوا میں بکھر جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دکھاوے کی حب الوطنی کیوں بنائی جاتی ہے؟اس سوال کا جواب سیاسی، سماجی اور نفسیاتی تینوں زاویوں سے نکلتا ہے۔کچھ سیاسی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی حب الوطنی کے جھاگ میں خود کو ڈبو دینے سے شاید وہ ”لیلیٰ اقتدار“ سے ہم آغوش ہو جائیں۔کچھ صرف اپنے گرد حفاظتی دیوار بنانے کے لیے قومی وفاداری کی آڑ تلاش کرتے ہیں۔اور کچھ ایسے بھی ہیں جو چند جیبیں گرم کر کے ”فوج اور عوام“ کی ڈرامائی یکجہتی دکھانے کو حب الوطنی سمجھ بیٹھے ہیں۔حالانکہ حقیقت سب کو معلوم ہے: پاکستانی عوام اپنی فوج پر دل سے اعتماد کرتی ہے۔ یہ اعتماد کسی دکھاوے، کسی نعرے، کسی مصنوعی ماحول کا محتاج نہیں۔ مگر اس اعتماد کو دنیا کے سامنے دکھانے کا طریقہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی ہے، نہ کہ جذباتی مظاہرے اور وقتی جذباتی آگ۔
اس طرز عمل کیوجہ سے الہ کاری کو فروغ ملتا ہے،اور پھرمعاشرے کا بڑھتا ہوا ایک فکری زوال یہ بھی ہے کہ ہم نے حب الوطنی کو ”برائے فروخت“ جذبات بنا دیا ہے۔جب کوئی طرزِ فکر، کوئی خدمت یا کوئی شخص وقتی فائدے کے لیے ”خریدا“ جاتا ہے، تو وہ نظریے کا نہیں، صرف معاوضے کا ہوتا ہے۔ایسا شخص کل کو زیادہ قیمت دینے والے کے ساتھ چلا جاتا ہے، کیونکہ اس کا کوئی اصول، کوئی فلسفہ، کوئی نظریہ نہیں،صرف اپنا فائدہ۔ایسے لوگ ریاستوں کو مضبوط نہیں کرتے، انہیں عدم استحکام دیتے ہیں۔اور افسوس یہ ہے کہ ہم اس ماحول کی خود آبیاری کر رہے ہیں۔
دوسری جانب دانستہ اور نادانستہ ایک روش یہ بھی چل رہی ہے،دفاع کو صرف ”سرحد پر کھڑے بندوق بردار سپاہی“ کے گرد دکھایا گیا۔ نتیجتاً یہ تاثر بنا کہ دفاع کی ذمہ داری صرف سپاہی کے کندھوں پر ہے۔
پاکستان کے دفاع کی یہ تصویر دہائیوں تک غلط زاوئیے سے پیش کی جاتی رہی۔حالانکہ دفاع ایک پورا نظام ہے۔اس میں سپاہی کی عظمت اپنی جگہ، مگر کمانڈ کے کردارکی نفی کیوں؟سپاہی تو اس نظام کا ”عملی ہاتھ“ ہے، مگر اس کے پیچھے موجود کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اس فوج کا دماغ ہے۔وہ دماغ جو تربیت، حکمت عملی، تکنیکی ترقی، جنگی تیاری، جامع فیصلے اور دشمن کے مقابلے کی مکمل حکمت عملی تشکیل دیتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے یہ تصویر کبھی درست زاویے سے دکھائی ہی نہیں۔سپاہی کو عزت ملتی ہے، ملنی بھی چاہیے، ضرور، لیکن کمانڈ کو متنازع بنا کر ہم نے اپنے دفاعی اداروں کو خود نقصان پہنچایا۔یہ وہ پہلی غلطی تھی جس نے قوم کے ذہن میں دفاع کے اصل ڈھانچے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کیں۔
آج اسی غلطی کیوجہ سے پیدا حالات کا نتیجہ ہے کہ فوج کی چین آف کمانڈکیخلاف ہرزسرائی ہوتی ہے۔ادارے کی ساکھ اور وقار پردشمن اور دوست نما دشمن وار کرتے ہیں۔چونکہ بنیادی طور پر مسلح افواج سے میرا خونی رشتہ ہے اور شہید کا وارث ہونے کی نسبت سے میرا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی فوج کی حمایت، احترام اور یکجہتی میں پیش پیش رہوں اور اس کی گواہی دنیا دیتی ہے کہ میں کبھی اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ لیکن جب میں ایک صحافی کی حیثیت سے کسی معاملے پر رائے کا اظہار کرتا ہوں تو اسے اسی تناظر میں لیا جانا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اپنے لوگ، دوست، خیرخواہ اور دلسوز افراد کسی مسئلے کی نشان دہی کریں تو ان کی بات پر توجہ دینے سے کئی معاملات زیادہ بہتر، زیادہ مضبوط اور زیادہ مستحکم بنائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ جب بروقت اور خیرخواہی پر مبنی بات نظرانداز ہو جائے تو پھر انہی معاملات کو جب بدخواہ اور منفی قوتیں اپنے انداز میں اچھالتی ہیں تو اس سے ایک ایسا تاثر بنتا ہے جو نہ صرف حقیقت سے دور ہوتا ہے بلکہ کسی بھی طور مناسب بھی نہیں۔
جو لوگ دفاعِ وطن کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں، انہیں صرف ایک فرد سمجھ لینا کسی طور بھی انصاف نہیں۔ ایک شہید کے ساتھ صرف ایک جان نہیں جاتی بلکہ ایک پورے گھرانے کی خوشیاں، امیدیں، توقعات اور زندگی بھر کے خواب بھی اس کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ ایسے گھرانوں کے دکھ، ان کا وقار، ان کی عظمت اور ان کے زخم صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ قربانی قریب سے دیکھی ہو۔ اس لیے اگر کوئی بناوٹی جذبات رکھنے والا، سطحی سوچ کا حامل شخص شہید کے خاندان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ انہیں کیا محسوس کرنا چاہیے یا کیا کہنا چاہیے، تو یہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شہید کی قربانی اور اس کے ورثا کے جذبات کی صریح توہین ہے۔
یاد رکھیں! حقیقی حب الوطنی کا تعلق نہ جذباتی نعروں سے ہے، نہ خوشامدی پوسٹوں سے، نہ سیاسی موقع پرستی سے۔یہ سچائی ہمیں جس قدر ممکن ہو سمجھ لینی چاہیے،حقیقی حب الوطنی اس وقت جنم لیتی ہے جب ریاست اپنے فیصلوں کو جزوی وقتی مقاصد کے بجائے طویل المدتی اہداف سے جوڑتی ہے۔جب تعلیم، شعور، انصاف، میرٹ، تربیت، معاشی استحکام اور ادارہ جاتی مضبوطی کو ترجیح دی جاتی ہے۔جب ایک قوم کو اعتماد، وقار اور سچائی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے، تب حب الوطنی جذبات کا نہیں بلکہ کردار کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر یہ حب الوطنی نہ فروخت ہوتی ہے نہ ریاست کو فروخت کر دیتی ہے۔
قومیں مصنوعی جذبات سے نہیں بنتیں، دوررس فیصلوں، مضبوط اداروں اور سچ پر مبنی بیانیے سے بنتی ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم جذباتی تماشا چھوڑ کر حقیقی قومی شعور کے سفر پر واپس آئیں۔ کیونکہ مصنوعی حب الوطنی کی بتی کے گرد جتنی دیر تک ہم ناچتے رہیں گے، اتنا ہی اصل قومی وقار دھندلا ہوتا جائے گا۔




