بالاکوٹ (خورشید زمان 8اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلہ کو کل اٹھارہ برس بیت جائیں گے،سانحہ 8اکتوبر وہ دن ہے جس روز لمحہ بھر میں ہنستے بستے شہروں نے صفحہ ہستی سے مٹ کر اجڑ ے دیار کا روپ دھار ا، کئی گھروں میں بجنے والی شہنائیاں ماتم میں تبدیل ہوئیں، پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی حسین وادیاں اپنا حسن اور رعنائیاں کھو کرکسی اجڑے دیار کا منظر پیش کرنے لگیں تھیں، جھرنوں، آبشاروں اور چہچاتے پرندوں کی آوازیں آہ وبکا کے شور میں دب گئی تھیں ہر طرف اچانک سکوت مرگ طاری ہوگیاتھا۔08اکتوبر2005میں پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر میں آنے والا یہ زلزلہ دنیا کا چودہواں (14) بڑا زلزلہ تھا جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچاہی،خیبر پختونخواہ میں زلزلہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر بالاکوٹ تھا جو بالکل صفحہ ہستی سے ہی مٹ چکا تھا، اعداد وشمار کے مطابق بالاکوٹ میں 14000افراد شہید ہوئے جن میں 250سکولوں کے بچے بھی شامل ہیں،80,000افراد زخمی ہوئے اور بالاکوٹ کا95فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہوا،ماہرین کی ایک ٹیم نے بالاکوٹ وگرلاٹ کے1400ایکڑرقبہ کو ریڈزون قراردیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ 1400ایکڑ کے اس رقبہ میں سے دو فالٹ لائن گزررہی ہیں جو پٹن اور کوہ ہندوکش کے سلسلہ سے شروع ہوکر بالاکوٹ سے گزرتے ہوئے مظفرآباد تک جاتی ہیں اورمذکورہ فالٹ لائنیں کسی بھی وقت مزید حادثہ کاسبب بن سکتی ہیں،ماہرین ارضیات کی رپورٹس کے پیش نظر بالاکوٹ وگرلاٹ میں دوبارہ آبادکاری کاعمل منسوخ کرتے ہوئے حکومت نے ریڈزون قراردیئے جانے والے ایریا کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا، 2007میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حکومت نے فالٹ لائن سے دور بکریال کے مقام پرنیو بالاکوٹ سٹی کی آبادکاری کیلئے15000کینال زمین مختص کی،اس وقت کے سیاسی قائدین نے بالاکوٹ کی آبادکاری کیلئے ز
ین مفت دینے کا اعلان کیا تھا مگر بعدازاں مالکان مفت زمین دینے سے انکاری ہوگئے اور زمین نہ دینے کی وجہ سے ایرا کو سات بارمنصوبے کے بارے میں اپنا ماسٹر پلان تبدیل کرنا پڑا،بعدازاں صوبائی حکومت نے منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے مالکان کو معاوضوں کی ادائیگی شروع کی جس میں 8444کینال اراضی کیلئے1.5ارب روپے مالکان کوبطور معاوضہ دیئے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مالکان کو فی خاندان 10مرلہ کے دو پلاٹ بھی الاٹ کرنے کا وعدہ کیا گیامگر معاوضہ وصول کرنے کے بعد صوبائی حکومت کی ناقص حکمت عملی اور ضلعی انتظامیہ کی کمزور انتظامی گرفت کی بدولت معاوضہ لینے کے باوجود بھی مالکان نے قبضہ چھوڑنے سے انکار کردیا،مجموعی طو رنیوبکریال سٹی میں 5000پلاٹ کی الاٹمنٹ کرنا تھی مگر قبضہ مافیا کی جانب قبضہ نہ چھوڑنے کی صورت میں ابھی تک صرف1500پلاٹ ہی تیارکیا جاسکے ہیں۔ بکریال سٹی میں ایرا نے 15کلومیٹر سڑک تیار کر رکھی ہے جبکہ 49کلومیٹر سڑک زیر تعمیر ہے،،تعمیراتی کام بند ہونے کی وجہ سے موقع پر لائی گئی کروڑوں روپے کی مشینری اور کریش پلانٹ زنگ آلود ہوکرناکارہ ہونے کے قریب ہیں، ایرا اب تک ایک اندازے کے مطابق 4.053بلین روپے بکریال سٹی پر لگا چکا ہے جس میں 1.5ارب روپے معاوضہ کی مدمیں اور 12.5ارب روپے تعمیراتی کام کرنے والی کمپنی کو اداکئے گئے ہیں، اپریل2018میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو اس پر سوموٹو ایکشن لینا پڑا، جنہوں نے سوموٹو ایکشن لینے کے بعد خود بالاکوٹ کا دورہ کیا اور یہاں اپنی آنکھوں سے نیو بالاکوٹ سٹی منصوبہ اور تحصیل ہیڈ کوارٹرہسپتال بالاکوٹ کا دورہ بھی کیا، اپنے دورہ بالاکوٹ کے بعد انہو ں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مانسہرہ کی سربراہی میں کمیشن قائم کرتے ہوئے اسے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرنے کی ہدایت بھی کی جس کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ نیو بالاکوٹ سٹی میں 90فیصد اراضی قابضین سے واگزارکراچکی ہے،اور باقی پر بھی پیش رفت جاری ہے،چیف جسٹس آف پاکستان کی بالاکوٹ آمد کے بعد ایک بار پھر متاثرین کی امیددوبارہ جاگ اٹھی ہے کہ نیو بالاکوٹ سٹی کا منصوبہ اب پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا،دوسری جانب ایراحکام نے اولڈ بالاکوٹ سٹی میں تعمیراتی کام کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے 5102گھر،23سکول 4مراکز صحت،11سرکاری عمارتیں،3785گھرانوں کو امدادی چیک کی فراہمی اور 32سڑکیں تعمیر کیں تاہم 13 سال گزرنے کے باجود بھی کئی منصوبے ایسے ہیں جو شروع نہیں کیئے جاسکے ان میں میں ضلع مانسہرہ کے 178سکولوں اورمتعدد مراکز صحت کی عمارتوں کی تعمیر شامل ہے، سب سے اہم منصوبہ جوابھی تک زیر التوا ء ہے وہ نیو بالاکو ٹ سٹی کی آبادکاری کا ہے اس منصوبے کے ساتھ ہزاروں نفوس کا مستقبل وابستہ ہے، ایراحکام کے مطابق ایرا کی جانب سے زلزلہ 2005کے بعد بحالی کیلئے شروع کئے گئے کام اور منصوبہ بندی کو بین الاقومی سطح پر پزیرائی ملی ہے ایران جیسے ترقی یافتہ ملک نے بھی پاکستان سے بالاکوٹ کی بحالی کا نقشہ مانگتے ہوئے راہنمائی حاصل کی ہے، دوسری جانب زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بالاکوٹ کا مقدمہ ابھی تک کسی بھی عوامی نمائندے نے کسی بھی فورم پر نہیں اٹھایا،سیاسی قائدین ہر سال زلزلہ کی برسی کے موقع پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے متاثرین زلزلہ کے دکھ در د میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور فوٹو سیشن کرنے کے بعد دوبارہ ایک سال تک نہیں دکھائی دیتے،سیاسی قائدین اگر نیوبالاکوٹ سٹی کا مسئلہ لے کر آگے چلیں تو اس کے حل میں کوئی دیر نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی سیاستدان اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے میدان میں آئے گا بھی نہیں اگریہ مسئلہ حل ہوگیا تو ان کے پاس ووٹ مانگنے کیلئے کیا رہ جائے گا،نام نہاد سیاستدان 18 سالوں سے بکریال سٹی کے نام پر سیاست چمکارہے ہیں