کالمز

محافظ ادارے اچھے مشیرتلاش کریں

قارئین یہ بہت مشکل موضوع ہے،لیکن محب ِوطنی کا تقاضا ہے کہ اب یہ بات کھل کر بیان کر دی جائے، کیونکہ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ میدان میں لڑتے بڑے بڑے شاہسواروں کی نسبت دونوں مقابل کے پینتروں، وار کرنے اور بچانے کے انداز پر باہر بیٹھے مشاہدین اور تماشبین بھی زیادہ بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں، شاید اسی لئے ہمیشہ سے ہر قسم کے مقتدر، خلفا، صدور اوروزرا ء اعظم وغیرہ ہمیشہ مختلف شعبہ ہائے زنگی سے ماہرین فکروفن کو مشیر منتخب کر کے اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے، وہ چلن صدیوں سے آج تک جاری،قائم و دائم ہے مگر اس برا ہو اس موئی جمہوریت کا اسکی وجہ سے خصوصاََ ایشیا اور پھر با لخصوصَ پاکستان و مِنی ریاستِ آزاد کشمیر میں ہر طرح کے حکمرانوں نے مشورہ دینے والے مشیروں کی جگہہ ہاں میں ہاں ملانے اور ”یس سر“ کہنے والے خادم رکھ کر کر انہیں مشیر کا خطاب دے دیا، جس کی بنا پر حکومتوں سے لے کر معیشتوں، اخلاقیات،اور تہذیب تک کے اداروں میں سب کچھ انحطاط پذیری کا شکار ہو تا چلا گیا ہے،اور نتیجہ ۃََ تعمیر وترقی، تحفظ ملت اوردنیا میں ملیو ملکی مقام کا معیار گرتا ہی چلا جا رہا ہے، ان مجموعی نقصانات کو بحر حال کہیں نہ کہیں مجبوراََ شاید برداشت کر بھی لیا جا سکے،لیکن جب معاملہ قومی سلامتی، قومی بیانیے اور قومی وقار کا ہو تو وہاں پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکتا ہے نہ ہونا چاہیے، یہ الگ بات ہے کہ قومی سلامتی، فکری و نظریاتی راہنمائی، کرنے والے فیصلہ ساز ادارے پہلے ہی خالصتاََ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین،تجربہ کار وں اور مغز بیدار لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں، میرے گمان کے مطابق تو ایسے اداروں میں کوئی رنگروٹ یا ٹرینی شامل نہیں کیا جاتا ہو گا، بلکہ تربیت کا سلسلہ کہیں الگ سے جاری رہتا ہو گا اور امتحان پاس کرنے والے پھر ڈاکٹرز وغیرہ کی طرح کسی بڑے ماہر کی زیر نگرانی سال دوسال اپنا ہاؤس جاب یا انٹرن شپ مکمل کر نے کے بعد ہی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہوتے ہونگے، لیکن مجھے چونکہ سسٹم کی پوری معلومات نہیں ہیں اس لئے میں پورے وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا، اور یوں بھی میرا آج کا موضوع تھوڑا سا مختلف ہے، آج ہم کسی ایک مریض، کسی ایک بیمار،یا ایک فکری انتشار والے کے علاج کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ہمارے سامنے اس وقت پوری ملت کے روحانی علاج کا، فکری راہنمائی کا، ایک ملی بیانیے کا موضوع ہے، جس کا بنیادی طبیب آپ کا خاص قلم کار،خاص فنکار، خاص شاعر، خاص ادیب،خاص ڈرامہ نگار اور خاص تخلیق کار ہوتا ہے،جو پورے معاشرے کو خاص انداز میں ”گائڈ“ کرتا ہے، قارئین لگتا ہے یہ خاص خاص کی گردان کا مقصد آپ نہیں سمجھ پائے، سوری شاید میں آپ کو سمجھا نہیں پایا، وضاحت کرتا ہوں، میرے اور میرے ساتھیوں کے تحریک جموں کشمیر کے حوالے سے میرے اور میرے ساتھیوں کے کام کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے 1991میں وقت کے وزیر اعظم سردار محمد عبدالقیوم خان نے ہمیں اور ہم جیسے قلم کاروں اور ڈرامہ نگاروں کی سرپرستی کرنے کیلئے یوتھ کو ساتھ ملا کر ایک الگ کلچرل ڈپارٹ منٹ کھڑا کر دیا ”لیکن چونکہ چنانچہ اس میں غیر متعلق لوگوں کی بھرتی ڈال دی گئی اس لئے وہ ڈگر پر چل ہی نہیں سکا“ اس لئے ایک ہی سال کے اندر ہمیں دوبارہ وزیر اعظم سردار محمد عبدالقیوم خان کے پاس جانا پڑا، تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئے،کئی وزیروں کی میت میں بیٹھے سردار صاحب ہم پر برس پڑے کہنے لگے ”دیکھو اشتیاق میں نے تم لوگوں کیلئے پورا ڈپارٹ منٹ کھڑا کر دیا اور آج تم آزادی ء کشمیر پر نیا پروگرام کرنے کے لئے پھر میرے پاس آن پہنچے“ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ وہ ادارہ توبس ایک پیارے ڈائریکٹر کو ہی سمبھال نہیں پا رہا ہے ہمیں کیا سپورٹ کرے گا، پھر ہمارا کام توالگ نوعیت کا،فکری تربیت کا موٹیویشنل کام ہے،وہ اسے کلچرل پروموشن سمجھ رہے ہیں،فنڈز بھی ان کے پاس نہیں،تو پھر آپ ہی کے ویثرن کے مطابق فکری لام بندی کا کام کیسے چلے گا، انہوں نے ہمیں سمجھا اور ہم نے انہیں سمجھا اور کئی وزیروں کی موجودگی میں ہم نے ”ان کی سمجھ سے بالا بالا“ایک کیمو فلاج ثقافتی ادارے کا قیام طے کیا جس میں صرف مذاہمتی ڈرامہ، مزاہمتی میوزک،مذاہمتی شاعری و مزاہمتی ادب پرو موٹ ہونا تھا،انہوں نے راقم کو اس ادارے کو نوٹیفائی کرنے کیلئے ایک قانونی مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری پچھلی مرتبہ کی طرح پھر راقم کو ہی سونپ دی، اور لبریشن سیل سے منسلک ایک کلچرل ایکڈمی بنانے کا طے ہو گیا، لیکن ہائے افسوس کہ وائے افسوس، اس خبرکی بھنک بھی ایک بار پھر اس وقت کے”ڈیفیکٹیوپرائمنسٹر“ سردار عتیق احمد خان کے کانوں تک جا پہنچی اور وہ پھر ہمیں مات دے کر اس نئے ادارے کے مقاصد جانے بغیر اپنے پیاروں کے حوالے کرنے میں کامیاب ہو گئے، میں تیسرے روز فائل لے کر وزیر اعظم تک پہنچا تو ادارے کے قیام کا نو ٹیفکیشن جاری ہو چکا تھا،اور تحریک مزاہمت پھر لونڈی بن کر پانی بھرتی رہ گئی، قابل صد افسوس بات تو یہ ہے کہ کسی دانشمند نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ایک ادارے کے ہوتے ہوئے دوسرا ثقافتی ادارہ کیوں اوور لیپ کیا گیا،حتیٰ کہ جب ان دونوں اداروں کیلئے چوہدری مجید کے دور اقتدار میں قانون سازی کی جانے لگی تو کئی دن اسمبلی میں بحث چلی کہ یہ اوورلیپادارے کیوں قائم ہیں، راقم نے اس وقت بھی غصے کے باوجود تینوں دن مسلسل آزاد کشمیر کے معروف ترین اخبار میں کالم لکھے کہ ”بابیو،اس ادارے کا باپ اور ماں بھی میں ہوں،آؤ یہاں میرے پاس میرے اخبار کے دفتر میں آؤ تو میں تمہیں بتاؤں گا کہ ان دونوں اداروں کی اصل حقیقت کیا ہے“ مگر یہ سب جو آج وزارت عظمیٰ کے امید وار ہیں،کالم پڑھ پڑھ کر میری ہی اسمبلی میں بیٹھ کر ”ٹھٹھا“ کرتے رہے، میں بھی چاہتا تھا کہ یہ اوور لیپ ادارہ اپنا اصل کام تو کر نہیں پایا، اب اسے ختم ہی ہو جانا چاہیے، لیکن کہاں،جہاں درمیان میں نوکریاں انوالو ہو جائیں وہاں یہ سیاسی کہاں ایمانداری سے کام کرتے ہیں،سو اب وہ دونوں ادرے قائم ہیں چند لوگوں کو روز گار اور افسریاں دے رہے ہیں، اور تحریک کشمیر آج بھی اپنے فکری محاذ تک پر سسک رہی ہے، جو ادارہ سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ مل کر ہم بنا رہے تھے وہ ادارہ اس کی ذہنی،رجحانی،فکری کمزوریوں کو اپنے تخیل و تدبرسے دور کرتا ہے، اس کے اوزار الفاظ، ایکشن، ری ایکشن،ایکسپریشن، جسچر اور خوبصورت ادائیں ہوتی ہیں جو فنکاروں،اداکاروں، صداکاروں،تاثرات کاروں کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاتے ہیں اور ان میں پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اور اس سے زیادہ تھیٹر،فلم وغیرہ کا کردار اہم ہوتا ہے، جو عوام کو غیر محسوس انداز میں درست اور مثبت سوچ کی طرف موڑتے اور ایک مفید اور محب وطن شہری بناتے ہیں، اور یہ سب ڈائریکٹ ماسٹرمائنڈ خود نہیں کرتے بلکہ بالواسطہ طور پر عوام کے اندر ہی سے منتخب،قابل اور اہل لوگوں کے ذریعے انوسٹمنٹ کر کے تخلیق اور نمائش کروایا جاتا ہے، اور خود کو اس سے الگ رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی پہلے ہی سے بغض، ابہام،یا شک ذہن میں بٹھا کر نہ بیٹھ جائے، مگر جانے کیوں ہمارے ہاں وہ کام جسے جمو کشمیر کے عوامی راہنما سردار محمد عبدالقیوم خان فکری لام بندی کہا کرتے تھے جسے آج کی جدید لغت میں ففتھ جنریشن وار بھی کہا جاتا ہے، وہ کام سرے سے چھوڑ ہی دیا گیا ہے، جبکہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس کام پر کئی صد ارب روپے سالانہ فلم اور ڈرامے،شوز کے صورت میں خرچ کر رہا ہے،اور ہمارے پاکستان کے عوام کو سیکولر اور ہندوانہ و مغربی کلچر کا خوگربنا کے بیٹھا یا ہوا ہے، اب بات کو ایک نقطے پر مرکوز کرتے ہیں، آج کے کالم کا مدعا یہ ہے کہ ہمارے قومی سلامتی کے ادارے ایسے تمام علاقوں میں جہاں کوئی غم و غصہ پایا جاتا ہے، کوئی احساس محرومی ہے،شکوے یا شکایات ہیں،وہاں سے سچے،کھرے،جہاندیدہ اوردانشورانہ صلاحیتوں کے حامل ڈرامہ نگار، کالم نگار،اداکار و صدا کار چن کر ایک ایڈوائزری کونسل بنائیں، جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت،رسم ورواج،رجحانات، اور روایات سے ہم آہنگ پالیسیوں کے لئے اداروں کو ڈائریکٹ زندہ باد اور مردہ باد سے ہٹ کرمخلصانہ و بے باکانہ مشورے دیں،تکرار، کریں،غیر جانبدارانہ طرز عمل کا مشورہ دیں اور پھر ادارے مشوروں سے متفق ہونے پر اُس فکری لام بندی کا اہتمام کریں،جو سردار محمد عبدالقیوم خان کہتے اور کیا کرتے تھے، آزاد جموں و کشمیر سے کے پی کے اور بلوچستان تک بہت ہی زیادہ محب وطن موجود ہیں،ان سے مل کر جو بھی فکری لام بندی کے منصوبے بنیں گے وہ یقیناََ سو فیصد کامیاب ہونگے، لیکن اگر ہم بلوچ ایک پختون اور ایک کشمیری پر ایک ہی فارمولا اپنائیں گے تو بجائے فائدے کے نقصان کا خدشہ رہے گا، مثبت کے بجائے منفی رد عمل بھی آسکتا ہے، جو اس وقت تک ہماری اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آتا رہا ہے،ہمیں صرف مقبول مگر اقتدار کے لالچی سیاستدانوں کو ہی استمال میں لاتے اور انہیں عوام کے استحصال کی کھلی چھٹی دیتے رہے، یا سلامتی کے اداروں کو کسی بھی علاقے کے لوگوں کی سلف رسپکٹ کا احترام سکھائے بغیر،ایک واضع اور اعلانیہ پالیسی سے ہم آہنگ نیانیہ سیے بغیر تعینات کرتے رہے تو پھر نتیجہ وہی آئے گا جو آج ہمارے سامنے ہے، 5اگست 2019کو جو انقلابی پالیسی ہمیں اپنا کر جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنے مزید قریب کرنا چاہیے تھا،وہ ہم نہیں کر سکے کیونکہ نہ ہمارے پاس محب وطن اور حکمت کے حامل مشیر تھے نہ ہمارے اپنے اہلکاروں کو کوئی واضع پالیسی دی گئی،ہر روز غصہ بڑھتا گیا،ہمارے روایتی سیاستدان سوائے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے مصنوعی تقریریں کرتے رہے،اور ان کے سارے جماعتی ارکان ایکشن کمیٹی جیسے گروپس میں اکٹھے ہوتے رہے، جب بات حد سے آگے بڑھی تو صرف خود کو پاکستان کا حمایتی ثابت کرنے کیلئے انہوں نے عوام کو بھارتی ایجنٹ قرار دینا شروع کر دیا، جس کا رد عمل ان کے خلاف آیا مگر انہوں نے اسے پاکستان کے خلاف رد عمل قرار دے دیا، رہی سہی کسر اسلام آباد کی اتحادی حکومت کے نادان وزرا نے پوری کر دی، جنہوں نے پچھلی تحریک کے آغاز پر ہی اپنی 78سالہ کشمیر پالیسی کو بھلا کر نیشنل چینلز پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں ہمارے ہم خیال و ہمنوا ہوتے ہیں ایسے ہی آزاد کشمیر میں بھارت کا بھی اثر و رسوخ ہوتا ہے اور یہ اسی کے ایما پر ہو رہا ہے، استغفراللہ، بحر حال اسوقت بھی آزاد جموں کشمیر کے کچھ”سادہ لوح“ سیاست دان انڈائریکٹ قومی سلامتی کے اداروں کو ڈرانے اور اپنے آپ کو ناگذیر ثابت کرنے کیلئے یہ بیانیہ دے رہے ہیں کہ سارے مطالبات تسلیم اور ان پر عمل درآمد ہو جانے کے بعد بھی یہ تحریک نہیں رکنی کیونکہ کچھ لوگ سڑکوں پر ہی رہنا چاہتے ہیں، وہ کراچی معاہدہ پر احتجاج کریں گے، ایکٹ 74پر انگلی اٹھائیں گے اور کچھ تو باغی یا جلاوطن حکومت بھی قائم کریں گے، اب قومی سلامتی کے ادارے پورا ریکارڈ اٹھا لیں، کہیں بھی اس طرح کی کوئی سنجیدہ بات اب تک سامنے نہیں آئی تو کیا یہ سیاستدان اور شاہ سے زیادہ شاہ پرست بننے والیخود احتجاج کرن والوں کو نئے راستے نہیں دکھلا رہے تھے،پہلے تو یہ باتیں سوشل میڈیا پر پھیلائیں گئیں، لیکن اب تو سردار عتیق احمد خان نے قومی میڈیا پر بھی یہ کہہ دیا ہے، کوئی پوچھے کہ کیوں؟ اور ان کے ساتھ جرگہ پروگرام میں بیٹھے راجا فاروق حیدر اور تنویر الیاس نے بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں کیا، یعنی اس بیانیے پر یہ تینوں متفق ہیں،اب اس وقت اسلام آباد کی کشمیر پالیسی کیا ہے،اس پر سب کو ہی ابہام ہے،خصوصاََ ان سیاستدانوں اور اسلام آباد کے وزیروں کو متنازعہ بیان دینے کی اجازت دینا، چہ معنی دارد؟اس ہی گو ں مگوں صورت حال کیلئے ایک حقیقی ایڈوائزری کی ضرورت ہے،جو اپنے اپنے شعبے میں متذکرہ بالا میڈیم استمال کرتے ہوئے آزاد علاقے اور بلوچستان و کے پی کے میں بھی ایک مہم کے تحت لوگوں کو درست اور ملی مفاد کے بیانیے کی طرف راغب کر سکیں تاکہ حالات بہتری کا رخ اختیہار کر سکیں۔

Related Articles

Back to top button