
بے پناہ مراعات، پروٹوکول، سرکاری سہولیات، خصوصی سکیورٹی اور بے شمار اضافی اختیارات کے باوجود،نظامِ عدل کی ناقص اورمایوس کن کارکردگی، آج بھی پاکستان کے عام شہری کے لیے سب سے بڑی تکالیف میں سے ایک ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ریاست ججز کو ہر ممکن آسائش فراہم کرتی ہے تو پھر وہ بدلے میں عوام کو بروقت انصاف کیوں نہیں دے پاتے؟عدالتی نظام کی سست روی کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط طبقے کو ہوتا ہے۔ سالوں تک تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے، ججزکی عدم توجہ اورلاپرواہی کے سبب مقدمات لٹکائے جاتے ہیں۔اس کے برعکس اشرافیہ، سیاسی خاندان، بااثر تاجر، بڑے ادارے اور طاقتور گروہ،چند دنوں میں ریلیف لے لیتے ہیں۔ ان کے مقدمات،ہائی پروفائل، کہہ کر خصوصی بینچ بنائے جاتے ہیں، راتوں رات سماعتیں ہوتی ہیں،سٹے آرڈر جاری ہوتے ہیں، اور چند گھنٹوں میں فیصلے بھی آجاتے ہیں۔ یہ امتیازی رویہ عدلیہ کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ یہ نظام صرف طاقتوروں کے لیے ہے۔پاکستانی عدلیہ کی کارکردگی کاکوئی ایساپہلونہیں جسے دیکھ کر عوام کے دلوں میں ججز کی ہمدردی جاگے۔ ججز نے مراعات کے بدلے میں کارکردگی دکھائی ہوتی،اپنے حلف کی پاسداری کی ہوتی، مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹاکر ہر شہری کے لیے،بلاامتیاز،انصاف کی فراہمی یقینی بنائی ہوتی توممکن تھاکہ عوام ججزکے ساتھ اظہاریکجہتی یااظہارہمدردی کرتے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے دو ججز،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ،نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ میڈیا میں شور برپا ہے، سیاسی جماعتیں بیانات جاری کر رہی ہیں، دانشور تجزیے کر رہے ہیں کہ، عدلیہ کی تاریخ کا بڑا موڑ قراردیاجارہاہے،یہ بھی کہاجارہاہے کہ یہ استعفے جمہوری مستقبل کی سمت طے کریں گے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان استعفوں سے عام پاکستانی کی زندگی پر کوئی فرق پڑنے والا ہے؟اور اس کا سیدھا جواب ہے،،نہیں۔ بالکل نہیں۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے 13 صفحات کے استعفے میں لکھتے ہیں کہ 27ویں ترمیم کے نفاظ کے بعد انصاف عام آدمی سے دور ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ،کیا انصاف کبھی عام آدمی کے قریب بھی تھا؟کیا اس ملک کے کروڑوں شہری آج تک عدلیہ کے دروازے پر دھکے نہیں کھاتے رہے؟ کیا انصاف کی قیمت ہمیشہ طاقت، دولت، سفارش اور ادارہ جاتی تعلقات میں نہیں تولی گئی؟ آج انہیں محسوس ہوا ہے کہ،انصاف دور گیا،تو عوام حیران ہیں، کیونکہ عوام کی نظر میں انصاف تو کبھی قریب آیا ہی نہیں تھا۔یہ وہی عدلیہ ہے جس کے فیصلوں نے پاکستان کی سیاست، جمہوریت، دستور اور عوامی اعتماد پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔آج ججز صاحب فرما رہے ہیں کہ نظام ٹوٹ گیا، ادارے بکھر گئے، ترمیم نے عدالت کی آزادی سلب کرلی۔کیاہمیں یادنہیں؟ کہ عدلیہ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے منتخب عوامی نمائندے کو ایسے کمزور اور تاریخی طور پر متنازع فیصلے کے ذریعے پھانسی دے دی، جسے بعدمیں خود سپریم کورٹ اپنے الفاظ میں،،غلط،، اور،،غیر منصفانہ،، قرار دے چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک غلط فیصلے نے صرف منتخب وزیراعظم کی جان نہیں لی بلکہ قوم کی نسلوں سے امید چھین لی۔کیا اس وقت غلط فیصلے پر کوئی جج استعفیٰ دے کر گھر گیا؟کیا کسی نے کہا کہ،ہم انصاف عام آدمی سے دور لے گئے؟جواب ہے ایسا کچھ نہیں ہوا،خاموشی رہی،کئی دہائیوں تک خاموشی رہی۔عدالتی تاریخ نے خود کو دہرایا اورسابق منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف فیصلے سامنے آئے،گالیوں کے مترادف جملے،گاڈ فادر،سسلین مافیا،یعنی اعلیٰ ترین عدالت کے جج سیاسی کارکنوں کی زبان بولتے دکھائی دیے۔بیٹے سے لی گئی تنخواہ کو ظاہرنہ کرنے کے جرم میں نااہل کرکے منتخب وزیراعظم کوگھر بھیج دیا گیا۔سالوں بعد وہی مقدمات انہی عدالتوں نے اسی ملک کے نظام نے دوبارہ کھول کر متضاد انداز میں ختم کر دیے۔کئی بار پھر عدلیہ کا وقار زمین بوس ہوا۔کئی بار پھر عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کے وقت ججزپردباؤ تھا تو کیا ججز دباؤ قبول کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مجرم نہیں ٹھہرتے؟کیا یہ سچ نہیں کہ غلط فیصلہ کرنے والا جج بھی ذمہ دار ہے اور دباؤ قبول کرنے والا جج بھی؟کیا یہ جرم کم ہے کہ ریاست کی سب سے بڑی عدالتوں میں بیٹھے ججز جانتے بوجھتے غلط فیصلے کریں اور پھر برسوں بعد اعتراف کر کے کہیں کہ ان پردباؤ تھا؟
عدلیہ کا حقیقی بحران یہ نہیں کہ دو جج استعفیٰ دے گئے۔اصل بحران یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر اختلافات، سیاسی ترجیحات، گروہ بندیاں بہت شدید ہیں۔27ویں آئینی ترمیم اچھی ہے یا بری، اس کے اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے پر ایک عام پاکستانی جانتا ہے کہ اس کے مقدر میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔کیونکہ عام آدمی کے لیے انصاف کی راہ میں ترمیم رکاوٹ نہیں بلکہ نظام کی وہ جڑیں رکاوٹ ہیں جو دہائیوں سے طاقتوروں کو تحفظ اور کمزوروں کو تاخیر دیتی رہی ہیں۔
آج معززججزکہہ رہے ہیں کہ انصاف عام آدمی سے دورہوگیاتوانہیں ان سولات کے جوابات بھی دینے ہوں گے کہ،منتخب وزیراعظموں کوسخت سزائیں دیتے اورپھران سزاؤں کو غلط تسلیم کرتے وقت جس دباؤکوقبول کیاوہ کہاں سے اورکس نے ڈالا؟ججزنے کسی بھی قسم کادباؤقبول کرکے غلط فیصلے دئیے توکیااُن حلف قائم رہا؟انصاف کیوں بیچا گیا؟دہری سیاست کیوں کھیلی گئی؟ عوام کو بار بار دھوکہ کیوں دیا گیا؟سچ تویہ ہے کہ معززججز کے استعفوں سے کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔انقلاب تب آئے گا جب ادارے اپنی غلطیوں کا حساب قوم کے سامنے رکھیں گے۔جب فیصلے کمزوروں کے حق میں آئیں گے، طاقتوروں کے خلاف آئیں گے، اور ہر شہر ی کو یقین ہوجائے گاکہ عدالت ایک ہی ترازو سے تولتی ہے۔




