خوش رہنے کے آسان طریقے

حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں "جن لوگوں کو ہم نے اپنی موت کا غم دے کر جانا ہے کیوں نہ ان کو زندگی میں کوئی خوشی دی جائے ” اسی طرح کے معانی ولا ایک جملہ مشہور انگریزی مصنف بیکن کا ہے کہ "چھوٹی چھوٹی باتوں سے.،،اگر تم ہنستے ہو تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہنستی ہے،اور اگر تم روتے ہو تو یہ کام تمہیں اکیلے کرنا پڑے گا،،۔ آج کے نفسا نفسی کے عالم میں خوش رہنا انتہائی کٹھن کام ہے لیکن اگر ہم چاہیں تو ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے معمولی معمولی باتوں سے خوشیوں سمیٹ کر اپنا دامن بھر سکتے ہیں۔لیکن اس کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مثبت رویہ اپنائیں اور ان کی خوشیوں کو اپنی خوشی سمجھ کر لطف اندوز ہوں تب جا کر ہماری زندگی بھی خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔
اگرچہ آج کے مصروف ترین اور مشینی دور میں خوش رہنا کافی مشکل ہے لیکن یقین کیجئے کہ کہ اگر ہم سب چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو جمع کرنا شروع کر دیں تو ہماری زندگی کا پیالہ خوشیوں سے لبا لب بھر جائے گا۔ مثال کے طور پر ہماسی پر قنا عت کریں جو اللہ نے ہمیں دیا ہے اور اس کی مہربانیوں پر اس کا شکر ادا کریں تو ہم خوشیوں کی فراونی حاصل کر سکتے ہیں۔ شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں "ایک مرتبہ میں دور کھڑا تھا تو میں نے ایک آدمی کو دیکھا،جس کے دونوں بازو نہیں تھے،لیکن وہ مسلسل اچھل اچھل کر ڈانس کے کرتب دکھا رہا تھا،میں بہت حیران ہوا کہ اے ربا ً! اس شخص کے دونوں بازو نہیں ہیں تو یہ پھر بھی رقص کر رہا ہے جب کہ ہم سارے جسم سمیت اس طرح خوش و خرم نہیں۔اسی تجسس نے شیخ کو اس شخص کے قریب جانے پر مجبور کر دیا۔ جب انہوں نے اس کے پاس جا کر رقص کرنے کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا،حضرت کیسا رقص اور کیس خوشی مجھے تو خارش لگی ہے ہاتھ اور بازو نہ ہونے کی وجہ سے کندھے اوپر نیچے کر کہ خارش کر رہا ہوں ” بحرحال یہ تو ضمنناً بات آ نکلی لیکن خوش رہنے کے لئے کوئی ارب پتی ہونا،کوٹھیوں یا کاروں کا مالک ہونا یا پھر کسی بڑے عہدے پر فائز ہونا ضروری نہیں۔
خوشیاں اور غم ہمارے اندر پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو معمولی سی بات پر خود کو مغموم و افسردہ کر کہ الگ تھلگ ہوسکتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ہم کسی کھلتے ہوئے پھول کو دیکھ کر خوشی منا سکتے ہیں۔یہ احساسات کا نام ہے۔ اور جب ہم دوسروں کو خوشی دیں گے تو نیلی چھت والا مہربان جو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ ہماری جھولیاں خوشیوں سے بھر ڈالے گا۔دنیا میں شائد ہی کسی کو خوش رہنا اچھا نہ لگتا ہو،لیکن اس کے لئے بھی خدا نے چند ضابطے مقرر کر دئیے ہیں۔ چونکہ خوشی اللہ کی نعمت ہے اس لئے اسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں بھی مقر ر کردہ حدود و قیود کا خیال رکھنا پڑے گا۔
شیخ سعدی ؓ کا ایک اور واقعہ اس ضمن میں مثال بنایا جا سکتا ہے۔ایک دفعہ شیخ کے جوتے پھٹ گئے اور ان کے پاس پہننے کے لئے کچھ نہ بچا۔ سفر کی وجہ سے ننگے پاؤں آبلہ پا ہو گئے۔انہوں نے اللہ سے شکوہ کیا کہ اے مولا مجھے جوتوں سے بھی محروم کر دیا۔تیرے خزانوں میں کس شے کی کمی ہے؟؟؟ اچانک شیخ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جس کے پاؤں ہی نہیں تھے۔ اس پر شیخ نے توبہ کی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کو پاؤں تو عطا کئے ہین،اگر وہ یہ بھی چھین لیتا تو وہ کیا کرتے۔
اسی طرح اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں اور اپنی زندگیوں کو خود سے کم حیثیت والے لوگوں سے(مالی اعتبار) موازنہ کریں تو ہمیں سمجھ آئے کہ ہم شائد دنیا کے خوش نصیب شخص ہیں۔خوش رہنے کے لئے مسکراہٹ نہایت ضروری ہے اور عمدہ اخلاق خوشیوں کی ضمانت ہوتے ہیں۔خوش نہ رہنے کی بھی بے شمار وجوہات ہیں۔ایسا آدمی جو دوسروں پر توقعات رکھتا ہے وہ خوش نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے خودی کا درد دے کر خود کو بھوک ننگ میں رہتے ہوئے بھی کسی کے آگے دامن پھیلانے سے انکار کرنے کا کہا۔کیونکہ جب آپ کسی سے توقعات رکھیں گے اور وہ آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترے گا تو آپ غنزدہ ہو جائیں گے،اس لئے self dependent رہنا خوشیوں کا باعث بنتا ہے۔
جو آدمی دوسروں کے معاملات میں دل چسپی نہیں رکھتا وہ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ اکیلا رہ جاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ اس طرح کا تنہا رہنے والا شخص ڈپریشن کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ دوسروں کی خوشی اور غمی میں بھرپور انداز سے سانجھے داری کی جائے تاکہ خدانخواستہ کل آپ کو کسی کی مدد کی ضورت ہو تو وہ آپ کے کام آ سکے۔دوسروں کی مشکلات اور خوشیوں میں شراکت سنت نبویﷺ میں بھی آتا ہے۔اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم لوگوں کے اندر مثبت اور ہم خیال لوگوں کا ایک سرکل بنائیں جن سے اپنے دکھ سکھ بانٹیں اور ان کے دکھ سکھ میں ان کا تعاون کریں۔
صاحبو! یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ خوشیاں صرف تمناؤں سے نہیں حاصل ہوتیں بلکہ خوشیاں بانتنے سے خوشیاں ملا کرتی ہیں۔ اگر آپ یہ خواہش لے کر بیٹھ جائیں کہ اللہ ہمیں خوشیاں ہماری خواہشات کے مطابق عطا کرے گا تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہو گی،اس کے بر عکس اگر آپ کے پاس کوئی معمولی سی خوشی کا موقع ہو اور وہ موقع آپ اکیلے اکیلے ہیں اپنے لطف کے لئے چھپا چھپا کر نہ گزاریں بلکہ اس میں اپنے دوست و احباب اور رشتہ داروں کو بھی شامل کر دیں تو یقین کریں اللہ آپ کو اس سے زیادہ خوشیاں عطا کرے گا۔ مثال کے طور پر آپ کے گھر چکن پکا ہو ا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے پڑوسی کے گھر کھانے کے لئے کوئی اچھی چیز نہیں تو آپ سالن کا ایک ڈونگہ پڑوسی کو بھیج کر وہ روحانی مسرت حاصل کریں گے کہ یقین جانئے جس کا تصور تک آپ نہیں کر سکتے۔ اس معمولی سے نسخے کو آپ اپنی روز مرہ زندگی میں ایک دفعہ لازمی استعمال میں لا کر دیکھئے گا۔
ایسے اشخاص جو چھوٹے چھوٹے معاملات کو سر پر سوار کر کہ بیٹھ جاتے ہیں وہ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتے۔کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ان لوگوں کی زندگی میں زہر گھولتی رہتی ہیں اور بالآخر ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ یہی سلو پائزن ان افراد کے لئے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے از راہ تمسخر آپ کو لوگوں کے سامنے بے عزت کر دیا یا خدا نخواستہ کسی نے آپ کو برا بھلا کہہ دیا تو آپ ایسی باتوں کی پرواہ نہ کریں،کیونکہ لوگ تو انبیائے کرام جو معصوم ہوتے ہیں ان کو بھی معاف نہیں کرتے،پھر آپ اور میں کس باغ کی مولی ہیں کہ لوگ ہمیں اذیت نہیں پہنچائیں گے۔ لھذا اس طرح کے واقعات کو سنی ان سنی کر دیں،ہو سکے تو ایسے لوگوں کی بہتری اور صحیح راستے پر لانے کی سعی کریں نہیں تو قرآن حکیم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے کہ جب جاہل لوگ تم سے الجھیں تو تم انہیں سلام کرتے ہوئے باوقار انداز سے گزر جاؤ۔
خلیل جبران کا قول ہے کہ”ہر حال میں خوش رہا جا سکتا ہیاور اگر تم نے ہر حال میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے تو تم سمجھ لو کہ تم نے زندگی کا سب سے بڑا فن سیکھ لیا ہے ” ہر کام میں غلطیاں تلاش کرنے والا اور نکتہ چینی کرنے والا کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ منفی سوچ ہے۔ بجائے اس کہ کے لوگوں کے عیب دیکھے جائیں اگر ان کی اچھائیاں پرکھی جائیں تو انسان زیادہ ہشاش بشاش رہے گا۔ چونکہ یہ دنیا ہے جب ہم دوسروں کی غلطیاں اور عیب ڈھونڈیں گے تو دوسرے لوگ ہمارے عیب بیان کریں گے،اس طرح زندگی اتھل پتھل ہو کر رہ جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ دوسروں کے عیبوں کے بجائے ان کی اچھائیوں پر نظر رکھی جائے تو ہم خود بھی اچھے بن جائیں گے۔
جس شخص کے اندر لفظ”میں "ہو اور لچک نہ وہ ساری عمر اندر ہی اندر جلتا سڑتا رہتا ہے اور خوشی کے قریب بھی نہیں پھتک پاتا،کیونکہ دوسروں کے ساتھ مقابلے کے لئے یہ زندگی خدا نے نہیں دی بلکہ اس زندگی کو پیار اور محبتیں بانٹنے کے لئے اللہ نے ہمیں اس سے نوازا ہے۔ جب ہمارے اندر لچک نہیں ہو گی
اور سب کچھ خود کو سمجھنا شروع کر دیں گے تو خوشیاں کسی نئی راہ کی متلاشی ہوجائیں گی۔اس کے لئے "ویلا”شخص اور نکما انسان کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ایسے شخص کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ یہ دوسروں کی برائی،غیبت اور ان کے مثبت کام کو بھی غلط رنگ دینے میں کاریگر ہو گا اور جو شخص ایسا ہو اسے خوشی ملنا محال ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ کام کیا جائے۔ اسی لئے سیانے کہہ گئے کہ بیکار سے بیگار بھلی۔
اگر ہم دنیاوی اعتبار سے دیکھیں تو ایک شخص جو خوش مزاج ہے وہ بھی کاروبار کر رہا ہے اور دوسرا ہر وقت منہ لٹکائے رہتا ہے وہ بھی کاروبار کرتا ہے تو خوش مزاج شخص کا کاروبار افسردہ رہنے والے شخص کے کاروبار کی نسبت دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گا۔فرض کرتے ہیں کہ ہمارے پاس خوشی کی کوئی ایک وجہ بھی نہیں تو ہم یہ تصور کر لیں کہ ساری کائنات میں شائد آج کے دن کسی کا ارب روپے کا انعام نکل آیا ہے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر ہم اس انجانے شخص کی خوشیوں میں شامل ہو کر خود کو بھی خوش رکھ سکتے ہیں۔لیکن اس سب کے لئے ہمیں اپنے دلوں سے حسد،کینہ اور بغض جیسی خرافات کو باہر نکال کر پھینکنا ہو گا۔
جو لوگ بہت زیادہ مغموم ہیں وہ چند ایک گزارشات پر عمل کریں یقینی طور پر آپ کے لئے یہ خوشیوں کا باعث بنیں گی۔یہ کہ خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں۔اور مفت کی روٹیاں مت توڑیں۔دوسروں کی غلطیوں کو بالکل نظر انداز کر کہ انہیں قوت کے باوجود معاف کر دیں۔دوسروں کا ہر اچھائی پر شکریہ ادا کریں اور ان کے ممنون احسان رہیں لیکن دوسروں سے احسان مندی اور شکریے کے توقع ہر گز ہر گز نہ رکھیں۔آپ کی اور میری ساری خواہشات پوری نہیں ہو سکتی لھذا ساری خواہشات کی تکمیل کا تصور ہی ذہن سے نکال دیں۔کیونکہ آپ کو اور مجھے صرف اپنی ذات نظر آتی ہے جب کہ اللہ نے بہت سارے جہان چلانے ہوتے ہیں،لحذا اس کے دیے پر قناعت کو اپنا شعار بنا ڈالیں۔
ہم میں سے اکثر حضرات یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں کن کن نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ہم اکثر اپنی پریشانیوں کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔روزانہ صرف دو منٹ۔۔۔صرف دو منٹ نکال کر یہ تجزیہ کریں کہ اللہ نے کتنے لوگوں سے زیادہ ہم کو نواز رکھا ہے۔بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔اللہ کی مہربانیوں کا شمار رکھیں اور محرومیوں کو بھول جائیں،خوشیاں آپ کے گھر کا پتہ ڈھونڈ کر آ کہ دستک دیں گی۔اللہ پاک کا دل کی گہرائی سے شکر ادا کریں اور وہ تمام باتیں سامنے رکھ کر اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے کن کن صلاحیتوں سے ہمیں نواز رکھا ہے۔کسی بھی چیز کو بر امت سمجھیں۔ کوئی بھی شے پیدائشی بری نہیں ہوتی۔یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پھول اور کانٹے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی طرح برائی کے پردے میں شائد کوئی گلاب بھی چھپا ہو۔
صاحبو! خوش رہنے کے لئے جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ محض احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اس احساس کو بیدار کریں۔یقین جانیں کہ بغیر کسی روپے پیسے کے آپ خوش رہ سکتے ہیں،لیکن اگر احساس نہیں تو قارون کا خزانہ بھی آپ کو دے دیا جائے تو خوشی آپ کے قریب سے نہیں گزرے گی۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے،آپ کو اور ساری انسانیت کو ہر حال اور ہر کیفیت میں خوشی کے پہلو ڈھونڈ نکالنے کا فن عطا کر دے۔صاحبو! آخری بات کہ اگر آپ اپنی زندگی سے بالکل بھی مطمئن اور ناخوش ہیں تو پھر دوسروں کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوا کریں۔ یہ عادت یقیننا آپ کو بھی ایک دن خوش رہنا سکھا دے گی۔




