
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد مسئلہ کشمیر پر رکھی اور معاہدہ تاشقند کے دوران عالمی سامراجی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے جس اقتدار کیلئے مخصوص طبقہ زر، چمک اور عہدوں کیلئے ضمیر فروشی کی منڈیاں لگاتا ہے، اس اقتدار اہم منصب وزارت خارجہ کو تحریک آزادی کشمیر، ناقابل تسخیر دفاع، آئین، قانون کے تحفظ،جمہوریت کے استحکام پر قربان کر دیا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 30نومبر 1967ء کو پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھ کر ملک کے پسے ہوئے طبقات کو جس عزت افزائی اور خود داری سے جینے کا ڈھنگ دیا وہ آج بھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں بلکہ تاریخ عالم میں درخشندہ باب ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی، ایٹمی پروگرام کے حصول، متفقہ اسلامی آئین اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کی پاداش میں قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف عالمی سامراجی قوتوں نے سازشوں کے جال بچھانے شروع کر دیئے اور آخر کار تیسری دنیا کے انقلابی رہنما، عوام کے مسیحا،ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا، جس کے بعد مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو اور قائد انقلاب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی ورثے کو سنبھالتے ہوئے ریاستی وسائل اور حکومتی مشینری کی بدترین انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا، قید و بندکی صعوبتیں برداشت کیں، بوگس مقدمات قائم کیے گئے اور ان گنت نظریاتی پیروکاروں کو کوڑوں کی سزائیں دے کر ان کے ساتھ جو انسانیت سوز مظالم کیے گئے ان کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی انسانی وجود پررونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جب ضیاء الحق کے گیارہ سالہ مارشل لاء کے مظالم کا ذکر ہوتا ہے تو پاکستان میں قربانیاں دینے والے ان گنت رہنماؤں اور جیالوں کے صبر و استقامت اور بھٹو شہید سے عقیدت کی دانستانیں زبان زد عام و خاص ہیں، ایسے ہی پاکستان کی سیاست میں ایک جواں سال طالب علم رہنما چوہدری ریاض نے پی ایس ایف سے اپنی نظریاتی جدوجہد کا آغاز کیا اور بحالی جمہوریت کی تحریک میں ایسا بھی ایک صبر آزماء وقت آیا کہ چوہدری ریاض کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا، چوہدری ریاض طالب علمی کے دور سے ہی بہادر، جرات مند، منصوبہ سازی کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے، کرتے کرتے انہیں دیار غیر کا سفر اختیارکرناپڑا اور یوں انہیں برطانیہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربت کا اعزاز حاصل ہوا، اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے چوہدری ریاض کی خداداد صلاحیتوں کو پرکھتے ہوئے انہیں پیپلزپارٹی انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن کا انچارج بنا دیا،چوہدری ریاض نے بھی اپنی خداداد صلاحیتوں، نظریاتی وابستگی کا کما حقہ مظاہرہ کرتے ہوئے ہر مشکل وقت میں قیادت کی طرف سے دی گئی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر کے اپنے آپ کو پارٹی میں ایک مدبر، نظریاتی رہنما کے طور پر منوا لیا، چوہدری ریاض کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آزادکشمیر پیپلزپارٹی کے سیاسی اُمور سے منسلک کر دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے پارٹی کے استحکام، مضبوطی، اتحاد و اتفاق، سیاسی جمہوری قوتوں سے مضبوط رابطوں کے ذریعے ایک ایسا منفرد مقام حاصل کیا جس کی مثال چراغ کی مانند پیش کی جانے لگی، جیسے چراغ کو جس طرح سے دیکھیں روشنی ہی نظر آتی ہے، درویش منش سیاستدان چوہدری عبدالمجید کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں چوہدری ریاض نے بادشاہ گر ہونے کا عملی ثبوت دیا، انہوں نے ان کے شانہ بشانہ حکومت کو ہر طرح کے خطرات سے عہدہ برآہ ہونے کیلئے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور سیاسی مخالفین کو تحریک عدم اعتماد سے لے کر ہر فورم پر پسپا کیا، یوں پانچ سالہ دور حکومت میں وسائل کی کمی کے باوجود تین میڈیکل کالجز، وویمن یونیورسٹی، کیڈٹ کالج، تعلیمی پیکیج، صحت کے مراکز کا قیام، سڑکوں کی تعمیر، روزگار کی فراہمی، کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ، عوام کی شراکت اقتدار کا تصور عملاً پروان چڑھایا، اور ان سارے کارناموں میں جہاں چوہدری عبدالمجید کی دلچسپی، عوام دوستی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تربیت غالب رہی لیکن چوہدری ریاض نے منصوبہ سازی اور حکمت عملی میں وہ کام کر دکھایا جس کی سوچ بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھی، چوہدری عبدالمجید کی کابینہ میں چوہدری لطیف اکبر اور چوہدری یاسین جیسے سینئر پارلیمنٹرین، میاں عبدالوحید، سردار جاوید ایوب، سید بازل علی نقوی، جاوید اقبال بڈھانوی سمیت کئی جواں سال پارلیمنٹرین کی دلچسپی نے انہیں عوام میں اپنی کارکردگی کی وجہ سے مقبول ترین بنا دیا، جس کے بعد انتخابات میں چوہدری لطیف اکبر کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے مشکل ترین حالات کے باوجود 12نشستیں حاصل کیں، 6نشستوں پر پیپلزپارٹی کو ٹیکہ لگا کر اس کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں قائدایوان کی تبدیلی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہوتی رہی، اور اس خوش اخلاق، خوش مزاج، دوراندیش سیاست دان نے اپنی خفیہ حکمت عملی جاری رکھی، اوروقت آنے پر پیپلزپارٹی کو 12 سے 36 نشستوں تک پہنچانے میں وہ کردار ادا کیا جو آزادکشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں نہ پہلے کسی کے حصے میں آیا اور نہ بعد میں کسی کے بس کی بات ہے، یہ اعزاز قدرت کمال نے اعلیٰ ظرف، کارکن نواز چوہدری ریاض کے بخت میں درج کیا، کہا جاتا ہے کہ ان کی گفت گو اتنی پراثر ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی بھی سطح پر کسی بھی شخصیت سے مذاکرات کریں تو کامیابی ان کا مقدر ہوتی ہے، اسے کہتے ہیں اخلاص نیت اپنے کام سے دلچسپی، قارئین محترم جب سردار تنویر الیاس کو عدالتوں سے نااہل ہونے کے بعد چوہدری انوارالحق کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بھی اتفاق رائے کیلئے سارا ماحول بنانے کا سہرا چوہدری ریاض کے سر جاتا ہے، اگرچہ انہوں نے بعد میں اپنے آپ کو عقل کل تصور کرتے ہوئے سولو فلائیٹ شروع کی، ریاست میں افراتفری، مار دھاڑ، گھیراؤ جلاؤ، خون ریزی کی ایسی تاریخ رقم ہوئی جو مارشل لاء سے مماثلت رکھتی ہے، اور پاکستان میں ضیاء الحق نے جس طرح طرز حکمرانی میں نقوش چھوڑے اسی طرح آزاد خطہ میں بھی انوارالحق کا دور حکومت بھی اسی طرح پیچھے نہیں رہا، تاہم اس عظیم سوچ کے مالک، مدبر سیاست دان نے اپنی قیادت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر پاکستان آصف علی زرداری، سیاسی اُمور کی چیئرپرسن محترمہ فریال تالپور کے اعتماد کو برقرار رکھا، کارکنوں کی توقعات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی، سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد سازی کے عمل میں شامل کیا، الیکٹرانک، پرنٹ، ڈیجیٹل سوشل میڈیا کی مشاورت کو بھی اپنی طاقت بنایا، اور یوں آزاد کشمیر اسمبلی میں اپنے معتمد خاص جواں سال پارلیمنٹرین فیصل ممتاز راٹھور کو قائد ایوان بنانے میں شطرنج کی وہ چال چلی جو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے، اور راجہ فیصل ممتاز راٹھور وہ خوش قسمت سیاسی رہنماہیں جو بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اپنی فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے ہی پہلے ہی ایک ماہ میں کامیابی کی وہ منازل حاصل کر چکے ہیں جو شاید چوہدری انوارالحق جیسے وزیراعظم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا، فیصل ممتاز راٹھور کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایک ماہ میں لگ بھگ چالیس سال بعد طلبہ یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا جرات مندانہ اقدام کر کے اہم پیش رفت کی، صحت کارڈ کی بحالی، چھوٹے ملازمین کی ترقیابی اورمستقلی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بینک بنانے، عوام کیلئے دروازے کھولنے سمیت ان گنت اقدامات کیے، اور ان سارے اقدامات کی وجہ سے نظریہ استحکام پاکستان کو استحکام حاصل ہوا اور ماضی کی غلط پالیسیوں سے جو نظریاتی رشتوں میں دراڑیں پڑی تھیں ان کو ختم کر کے عوام سے قریبی رابطوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا کہ پاکستان زندہ باد کی صداؤں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، پاکستانیت کے ساتھ عقیدت میں مضبوطی آئی، اور افواج پاکستان، قومی سلامتی کے اداروں کی لازوال قربانیوں کا برملا اعتراف کیا جانے لگا، جب کہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کیلئے خلوص نیت سے عملدرآمد ہونے جا رہا ہے، قارئین محترم اور بے شمار خوبیوں، اچھائیوں اور حکومتی کارکردگی بڑھانے، نظریاتی کارکنوں کی عزت نفس کی بحالی کیلئے چوہدری ریاض نے جز وقتی کے بجائے کل وقتی پالیسیاں ترتیب دے رکھی ہیں، چوہدری ریاض انتخابی سیاست کے وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں پارٹی کو شاندار فتح دلانے کیلئے مضبوط بنیادوں پر فلک بوس عمارت کی تعمیر کا ساماں مکمل کر لیا ہے،اور یوں کہنا بے جا نہ ہو گاکہ چوکوں، چھکوں سے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی سیاسی اننگز کی مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کرے گی، اور پارٹی کے مرکزی سینئر رہنما انچارج برائے اُمور کشمیر چوہدری ریاض مین آف دی سیریز ہوں گے،اور ایک بار پھر پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے ایوان اقتدار میں شہداء کی تصویریں آویزاں ہوں گی اور اب راج کرے گی خلق خدا، جو تم بھی اور میں بھی ہوں کا عملی مظاہرہ چشم فلک دیکھے گی، تب ہی تو یہ نعرہ دن بہ دن یہ نعرہ کراچی تک کشمیر تک کے کارکنوں کی آواز تیر اناز میرا ناز چوہدری ریاض چوہدری ریاض مقبول ہوتا جا رہا ہے۔اور عوامی حلقوں میں جو عزت اور تکریم چوہدری ریاض کو میسر آئی اس کو دیکھ کر ناقدین کے پیٹ میں مروڑ بھی اٹھتے ہیں اور وہ ذہنی اختراع پر مبنی خلاف حقائق روڑے اٹکانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تندی بادمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔۔۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑنے کیلئے
قارئین محترم!چوہدری ریاض عصر حاضر کے سیاست دان اور شجر سایہ دار کی مانند ہیں جن کی چھاؤں میں اپنے، پرائے، آشنا، ناآشنا، چھوٹے بڑے سب ہی مستفید ہوتے ہیں اور یہی اللہ کا خصوصی انعام ہوتا ہے۔




