آزاد کشمیر کا موجودہ بحران کیا آزاد کشمیر کے نظام کو خطرہ ہے؟

تحریر: حافظ محمد مقصود
آزاد جموں و کشمیر اس وقت شدید سیاسی اور انتظامی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ایک جانب حکومت میں بار بار کی تبدیلی، ہارس ٹریڈنگ، اور سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان ہے، تو دوسری جانب عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہو کر شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سیاسی عدم استحکام نے گورننس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وزرائے اعظم کی بار بار تبدیلی، اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ اور جوڑ توڑ کے کھیل نے عوام کے دلوں میں نظام سے اعتماد اٹھا دیا ہے۔ سیاسی رہنما اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں، جبکہ عوامی مسائل پسِ پشت چلے گئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی، بے روزگاری اداروں کا غیر فعال ہونا کمزور گورنس اور ریاستی رٹ کی کمزوری جیسے مسائل عوام کے لیے زندگی اجیرن بنا رہے ہیں۔ عوامی احتجاج روز کا معمول بن چکا ہے، مگر حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ ریاستی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، اور انصاف کی فراہمی ایک خواب بن چکی ہے۔ ایک اور خطرناک رجحان یہ ہے کہ عوام کو حقوق کے نام پر ایسے گروہوں کے ہاتھوں استعمال کیا جا رہا ہے جو دراصل ریاستی نظام کو کمزور کرنے کی راہ پر ہیں۔ پریشر گروپس، سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے، اور مفاد پرست سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ ایک نازک صورت حال کو جنم دے رہا ہے۔ آزاد کشمیر کی حالیہ سیاسی صورتِ حال ایک بار پھر غیر یقینی کا شکار ہو چکی ہے، جہاں وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا مرکز بننے والی پیپلز پارٹی خود اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس بار پارٹی تحریکِ عدم اعتماد میں پیش پیش نظر آ رہی ہے، لیکن نئے قائد ایوان کے چناؤ پر اتفاق نہ ہونے کے باعث سارا معاملہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں کی تعداد بڑھ کر چار ہو چکی ہے، جن میں چوہدری لطیف اکبر، چوہدری یاسین، فیصل راٹھور اور سردار یعقوب شامل ہیں۔ ہر امیدوار نے اپنی الگ لابنگ کا آغاز کر رکھا ہے، اور اپنی حمایت میں افواہوں کا سہارا لے کر سیاسی فضا کو مزید الجھا دیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات اس حد تک شدت اختیار کر چکے ہیں کہ مرکزی قیادت بھی فیصلہ سازی میں مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال نئی نہیں۔ یہی سیاسی انتشار اڑھائی سال قبل بھی دیکھنے کو ملا تھا، جب پیپلز پارٹی دو ہفتوں تک وزارتِ عظمیٰ کے لیے کوئی امیدوار فائنل نہ کر سکی تھی۔ نتیجتاً، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حمایت کی یقین دہانی کے باوجود چوہدری انوارالحق کو متفقہ طور پر وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا تھا۔ اب ایک بار پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، اور اختلافات کی دلدل میں دھنسی پیپلز پارٹی عدم اعتماد کی تحریک کو عملی شکل نہیں دے پا رہی۔یہ صورتحال نہ صرف پیپلز پارٹی کے لیے باعثِ شرمندگی ہے بلکہ آزاد کشمیر کے عوام کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ اقتدار کی کشمکش اور ذاتی مفادات کی سیاست نے ایک بار پھر ریاستی نظام کو مفلوج کر دیا ہے، جہاں عوامی مسائل پسِ پشت اور اقتدار کی رسہ کشی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتحاد اور سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہ کریں، تو یہ بحران مزید طول پکڑتا جائے گا، جس کا خمیازہ پورا نظام بھگتے گا۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی آزاد کشمیر میں نئے قائد ایوان سے متعلق خبر پر سخت برہمی ظاہر کی چوہدری یاسین پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری تردید کا حکم دیا ہیبلاول بھٹو اور فریال تالپور نے متعلقہ رہنما سے بازپرس کرتے ہوئے سوال کیا کہ“قائد ایوان کی خبر کیوں چلائی گئی؟،جواب میں کہا گیا کہ“یہ خبر میں نے نہیں بلکہ نامعلوم لوگوں نے چلائی ہے،بلاول بھٹو نے سخت لہجے میں کہا کہ آپ اتنے غیر سنجیدہ ہیں اور خود کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کر رہے ہیں،بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ“اس معاملے کا انچارج میں ہوں، اور قائد ایوان سے متعلق کوئی حتمی خبر یا اعلان صرف میری ہدایت پر ہوگا، بلاول بھٹو کی ہدایت کے مطابق پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر نے سوشل میڈیا پر فوری تردید جاری کر دی ہے آزاد کشمیر میں جاری سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کی ذمہ داری صرف حکمران طبقے یا صرف احتجاجی گروہوں پر ڈال دینا حقیقت کا ادھورا بیان ہوگا۔ درحقیقت، موجودہ نظام کی خرابی میں دونوں سیاستدان اور عوامی ایکشن کمیٹی جیسے پریشر گروپس کا کردار نمایاں اور یکساں طور پر قابلِ غور ہے۔ سیاستدان برسوں سے ذاتی مفادات، مراعات اور اقتدار کی ہوس میں مصروف ہیں۔ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتیں عوامی خدمت کے بجائے ذاتی وابستگیوں، سفارشات، کرپشن اور غیر ضروری بھرتیوں کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ اسمبلیاں سیاسی وفاداریوں کی منڈی بن چکی ہیں جہاں ضمیر کا سودا ایک معمول ہے۔ عوامی فلاح کے منصوبے کاغذوں تک محدود ہیں، جبکہ بجٹ کا بڑا حصہ مخصوص طبقات کے مفاد میں استعمال ہوتا ہے۔وزیر اعظم آزاد چودھری انوار الحق نے حکومتی خزانہ اگلے وزیر اعظم کے ہتھے چڑھنے سے قبل محکموں میں تقسیم کرنے کے نوٹیفیکیشن جاری کر دیئے تھے لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد سے قبل اربوں کے فنڈز کی تقسیم کو روک دیا گیا۔محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے ترقیاتی فنڈز کی تمام ریلیز روک دیں،بیوروکریسی نے مالی بے ضابطگیوں کے خدشات پر فنڈز کے اجرا پر پابندی عائد کر دی جس سے اگلے وزیر اعظم کے لیے پیسہ بچانے کی کاؤنٹر منصوبہ بندی بھی کے دی گئی ہے وزیر اعظم آزاد کشمیر ابھی تک پر اعتماد ہیں اور ڈٹے نظر آرہے ہیں دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی اور اس جیسے دیگر پریشر گروپس بھی خالص عوامی نمائندگی کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر اکثر غیر سنجیدہ، غیر تربیت یافتہ اور وقتی جذباتی ردعمل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں۔ احتجاجی تحریکیں بعض اوقات ریاستی اداروں کو مفلوج کر دیتی ہیں، جس کا فائدہ نہ عوام کو ہوتا ہے نہ نظام کو۔ عوامی ایکشن کمیٹی میں تقسیم بھی کھل کے سامنے آرہی ہے میرپور تعلیمی بورڈ کے پونچھ اور مظفرآباد تقسیم کے معاملے پر میرپور میں مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے میرپور کی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ تعلیمی بورڈ کی تقسیم سے بورڈ کا معیار گر جائے گا ایکشن کمیٹی میں گھسے قوم پرست بھی ایکشن کمیٹی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور بہت سے عناصر قوم پرستوں کی وجہ سے ایکشن کمیٹی پر لعن طعن کرتے نظر آرہے ہیں ایسے گروپس کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، شروع میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کے بیانیے کو لیکر نکلنے والی ایکشن کمیٹی پر الزام تھا کہ اسے وزیر اعظم کی درپردہ حمایت حاصل ہے جبکہ سب یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ ایکشن کمیٹی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہی ہے جس سے ان کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ عوام ان دونوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ ایک طرف وہ سیاستدانوں کی نااہلی اور بدعنوانی سے تنگ ہیں، تو دوسری جانب احتجاجی سیاست نے روزمرہ زندگی اور ریاستی اداروں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ نتیجتاً، نہ کوئی دیرپا پالیسی بن پا رہی ہے، نہ کوئی ادارہ اپنی خودمختاری سے کام کر رہا ہے۔ اگر اس بگڑتے ہوئے نظام کو بچانا ہے تو لازم ہے کہ سیاستدان خود احتسابی اور اصلاح کی طرف آئیں، اور عوامی تحریکیں سنجیدہ، با مقصد اور غیر سیاسی ہوں۔ ورنہ، ریاست ایک مستقل انارکی کی طرف بڑھے گی، جہاں نہ جمہوریت بچے گی، نہ عوام کا اعتماد۔



