کالمزمظفرآباد

”علم وعمل کی اہمیت اور عصر حاضر کا سماجی رویہ ”

تحریر: شمریز احمد گل مغل (طالبعلم شعبہ اردو جامعہ کشمیر)

علم کے معنی جاننے اور آگاہی حاصل کرنے کے ہیں، کسی نامعلوم چیز کو معلوم کرنا علم کہلاتا ہے۔ میرے نزدیک علم سے مراد حقیقت کا ایسا مجموعہ ہے جو حق اور باطل میں فرق واضح کرے اسے علم کہتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ پروردگار تو ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرے گا جو خونریزی کریں گے، زمین میں فساد برپا کریں گے ہم تیری تسبیح و تعریف کرتے ہیں تو ان کو کیوں کر پیدا کرے گا, اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ”جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے”(القرآن) پھر اللّٰہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سیکھائے اور فرشتوں کے سامنے پیش کیا تو آدم علیہ السلام نے نام بتائے تو فرشتوں کو حیرت ہوئی، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ”کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے”(القرآن)پھر فرشتوں نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ پروردگار ” تو پاک ہے ہم نہیں جانتے مگر جو تو نے ہمیں سیکھایا۔” (القرآن) اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو سب سجدے میں گر پڑے سوائے ابلیس کے اس نے انکار کیا اور وہ ظالموں میں شامل ہوگیا۔اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا اور فضیلت کا معیار خوبصورتی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور خوبی ہے بلکہ فضیلت علم کی وجہ سے ملی۔ ہزاروں مخلوقات میں انسان کو اشرف بنایا گیا اس کے پیچھے کیا فلسفہ ہے یہ تو اللّٰہ ہی جانتا ہے پھر یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد تخلیق بھی بتا دیا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا کہ ”ہم نے جنوں اور انسانوں کو کسی غرض سے پیدا نہیں کیا سوا عبادت کے”(القرآن) اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ باری علیم ہے اسی علم سے بہت محدود مقدار میں اس نے انسان کو عطا کیا جس قدر اس علم کو حاصل کرنے کی طلب و کوشش ہوگی اسی قدر ملے گا اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ دنیامیں بے شمار اہل علم گزرے اور ان کی علمی خدمات پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئیں اور جہاں پہ ان کے علم کا تذکرہ ہوا ہے وہاں پہ ان کے عمل یعنی ان کے افعال و کردار بھی نمایاں دکھائی دیتے ہیں علم کے ساتھ ان کا عمل بھی تھا جو کہتے تھے وہ کر کے دکھاتے تھیان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ عمل کی تصویر پیش کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی واعظ و نصیحت میں اثر ہوتا تھا۔ جس طرح علم کے بغیر آدمی جاہل ہوتا ہے بلکل اسی طرح عمل کے بغیر علم رکھنے والا بھی جاہل ہی ہوتا ہے۔ علم و عمل کی مثال جسم اور روح کی سی ہے کہ جسم علم ہے اور روح عمل ہے آپ بتائیں کہ بغیر روح کے جسم کی کیا حیثیت ہے وہ تو ایک مردہ اور جنازہ کہلاتا ہے کہ جس جسم میں روح نہیں ہوتی بلکل اسی طرح عمل کے بغیر آدمی کا علم مردہ انسان کی طرح ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کی شخصیت اور اس کے کردار کو پرکھنے کے لیے اس کی عادات کردار رویے اور افعال کو دیکھا جاتا ہے اور یہ ساری صفات ایک آدمی کی روح کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ اور یہی صفات اس کا عمل ثابت ہوتی ہیں۔۔اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا بادشاہ ہے ایک کن سے جس نے ساری کائنات کو وجود بخشا اور اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ہے اس کا علم لامحدود ہے اللّٰہ تعالیٰ صرف اپنی صفات ظاہر کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے اس نے پوری کائنات کو عملی شکل میں ہمارے سامنے پیش کیا پھر بندہ یہ کہے کہ میں نے کہا لا الہ الااللہ بس میرے لیے یہ کافی ہے اور دوسری طرف جب عمل کی بات آئے اس کے پلے کچھ بھی نہ ہو تو ایسا ہر گز ممکن نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حقدار ہو اور وہ بڑے بڑے دعوے کرے۔اللہ نے اگر اپنے علم کا عملی نقشہ پیش کیا جو ہمیں اتنی بڑی کائنات کی صورت میں نظر آرہا ہے تو ایک انسان کیسے عمل کے بغیر اپنے آپ کو اہل علم تصور کر سکتا ہے۔ علم ایک ایسی حقیقت ہے جو عملی زندگی میں ایک آدمی کے کردار،رویے، چال ڈھال، رہن سہن ترز زندگی، عبادات و معاملات حتیٰ کہ زنگی کے تمام امور میں اس کی جلہک نمایاں اور عملی صورت میں نظر آئے یہی علم کی حقیقی روح ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ہر اس بات کا حکم دیا جو عملی صورت میں کر کے دکھایا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اے ایمان والو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ”(القرآن) جس کا علم اس کی عملی زندگی میں نافذ نہیں ہوتا وہ اہل علم کہلانے کا حقدار ہو ہی نہیں سکتا اگر آپ کسی کو اپنے علم سے متاثر کرنا چاہتے ہیں یعنی دین کی دعوت دینا چاہتے ہیں حتیٰ کہ زندگی کے کسی بھی پہلو پر اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے خود عمل کرنا ہوگا کیونکہ لوگ آپ کے اقوال سے زیادہ افعال سے۔سیکھتے ہیں۔ علم و عمل کے لحاظ سے دنیا میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جنھیں ہم حق کا متلاشی کہتے ہیں ان کے پاس دعوت حق نہیں پہنچی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی مبلغ آیا۔ دوسرے وہ لوگ جن کے پاس دعوت حق پہنچی انھیں علم ہے کہ دین ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں برائی اور بھلائی میں نمایاں فرق سمجھتے ہوں حتیٰ کہ جتنی بھی اخلاقی برائیاں ہیں ان کے انجام اور نقصانات سے واقف ہوں اور اس علم کو عملی طور پر اپنے اپر نافذ کرنے کی کوشش بھی نہ کریں،اس سب باوجود جب عمل کا وقت آئے تو ان کے پلے کچھ نہیں ہوتا تو ایسے ہی لوگ خسارے میں ہیں اور یہ لوگ خواہ جتنا بھی علم رکھتے ہوں اس کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔۔علم وہ ہے جو آپ کے کردار میں عملی اور مثبت تبدیلی لائے اور بدلتے دن کے ساتھ ہمارے رویے ہمارے طرز عمل اخلاق و کردار میں نمایاں فرق نظر آئے اگر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما نہیں ہورہیں تو گویا ہم ناکام ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علم نافع عطا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” خسارے میں رہا وہ شخص جس کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں۔” بہتر سے مراد زندگی میں عملی اور مثبت تبدیلی ہے اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر بندہ مسلم اپنے علم کے ساتھ عمل کی صفت نہیں رکھتا تو گویا وہ خسارے (گھاٹے) میں ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی باخوبی علم ہے کہ کسی بھی شخص کی شخصیت اس کے کردار اور رویے کا پیمانہ اس کے گلے میں نہیں لٹکا ہوتا بلکہ اس کی تمام صفات اس کے ذاتی عمل سے پرکھی جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے کفار اور آپ کے مخالفین صادق و آمیں کہ کے پکارتے تھے بعثت کے وقت جب تمام کفار مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر پہنچی تو انھوں نے اپنی انا کو نہ چھڑا حالانکہ وہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو صادق و امین مانتے تھے اور یہ آپ کا عمل ہی تھا کہ کچھ ہی عرصے میں انقلاب برپا ہوگیا سارا عرب اسلامی مملکت بن گیا اس سارے کا دارومدار ان کے عمل پر تھا۔ آج بعض انگریز سائنسدان بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عمل(پریکٹیکل) کر کے دکھایا اور رہتی دنیا تک ان عملی اقدار کو اہل قلم و اہل زباں نے منتقل کیا۔ جس قوم و برادری میں قول و فعل کا تضاد ہو وہ قوم اور معاشرہ کبھی مثبت تبدیلیاں رونما نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علم نافع عطا فرمائے وہ علم جس پر عمل کر کے ہم آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔آمین

Related Articles

Back to top button