
پاکستان کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں احتساب ہمیشہ ایک حساس اور باریک نکتہ رہا ہے۔ مختلف سیاسی حکومتیں احتساب کے نعرے لگاتی رہیں، عدلیہ بھی اپنے فیصلوں میں گاہے بگاہے احتساب کے اصول کو بنیاد بناتی رہی، اور عوام ہمیشہ اس خواہش کے ساتھ زندہ رہے کہ طاقتور بھی کبھی قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ مگر شاید پاکستانی ریاست کے کسی بھی ادارے میں احتساب اتنی عملی شکل میں موجود نہیں جتنا کہ مسلح افواج کے اندر۔ حالیہ فیصلہ، جس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر رہنے والے جنرل فیض حمید کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، اسی مسلسل جاری اصولی روایت کی ایک تازہ مثال ہے۔
جنرل فیض حمید گزشتہ برسوں میں سیاست، بیوروکریسی، عدلیہ، داخلی سلامتی اور حساس ریاستی امور پر اپنے غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے متنازع رہے۔ بعض فیصلوں نے سیاسی تقسیم کو جنم دیا، بعض کارروائیوں نے ریاستی توازن کو متاثر کیا، اور بعض اقدامات نے ادارہ جاتی اصولوں کو چیلنج کیا۔ عوامی رائے میں یہ تاثر جڑ پکڑ چکا تھا کہ شاید طاقت کے اس درجے سے اوپر قانون کی پہنچ کمزور پڑ جاتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ ریاستی ادارہ کسی فرد کو اپنی طاقت اور رتبے کے باوجود جواب دہی سے بالا تر نہیں سمجھتا۔
یہ سزا اُس وسیع تر تبدیلی کا حصہ ہے جو پاک فوج کی موجودہ قیادت کے مالیاتی، آپریشنل، اخلاقی اور آئینی وژن میں نمایاں ہے۔ کمانڈر اِن چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے عہدے کے آغاز ہی میں یہ اصولی بات ملک کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کے سامنے رکھی کہ“ریاست، آئین اور ادارہ سب سے اہم ہیں۔ کوئی فرد، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، ان اصولوں سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔”انہوں نے کئی مواقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ فوج کا کردار صرف قومی دفاع ہے، اور سیاست یا ذاتی گروہ بندیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی اسی سوچ کا عملی اظہار ہے—ایک ایسا فیصلہ جس نے یہ واضح کیا کہ فوج خود اپنی صفوں میں اصلاح کے لیے تیار ہے، اور اب آئندہ کسی ایسے شخص یا گروہ کو ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستانی فوج کے اندر احتساب کی روایت نئی نہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد 1951 کے راولپنڈی سازش کیس میں میجر جنرل اکبر خان سمیت متعدد سینئر افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں بھی کئی حاضر اور ریٹائرڈ افسران کو بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات پر سزا دی گئی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں برگیڈیئرز اور کرنلز تک کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں جنرل مشرف کے دور میں بھی بعض افسران کا احتساب ہوا، جبکہ سب سے نمایاں دور وہ تھا جب جنرل راحیل شریف نے 2015 میں تین سینئر جرنیلوں سمیت کئی افسران کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر اعلیٰ رتبے کے افسران کو کرپشن اور سنگین بدانتظامی کے الزامات پر سزا دی گئی۔
احتساب صرف بری فوج تک محدود نہیں رہا۔ پاک بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل منصورُالحق نے 1990 کی دہائی میں دفاعی معاہدوں میں کمیشن لینے کے الزامات کے تحت سزا اور پلی بارگین کے ذریعے قومی خزانے میں بھاری رقم واپس کرائی۔ اسی طرح پاک فضائیہ میں بھی اعلیٰ افسران احتساب کے دائرے میں آئے۔ مثال کے طور پر ایئر مارشل (ر) جواد سعید پر حساس فوجی معلومات کی غیر قانونی افشا کے الزامات ثابت ہوئے اور ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔ یہ دونوں مثالیں اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج میں تینوں شاخیں —بری، بحریہ اور فضائیہ—اپنے افسران کے احتساب میں یکساں اور اصولی رہیں۔
جنرل فیض حمید کے معاملے کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس کا تعلق براہِ راست قومی سیاست، ادارہ جاتی تقسیم اور ریاستی نظم کے بنیادی ڈھانچے سے تھا۔ ان کے دور میں بعض حساس فیصلوں نے نہ صرف وفاقی طاقت کا توازن متاثر کیا بلکہ عدالتی اور سیاسی انجینئرنگ کے الزامات نے اداروں کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔ اس لیے ان کے خلاف فیصلہ ریاستی ڈھانچے کو اپنی اصل جمہوری سمت میں لانے کا ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔
فوج کے اس بے لاگ احتساب نے جہاں ایک طاقتور پیغام قوم تک پہنچایا ہے، وہیں اب ضروری ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بھی اسی معیار کو اپنائے۔ عوامی اعتماد عدالتوں سے بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ وہ طاقتور، بااثر، سیاسی اشرافیہ اور ادارہ جاتی شخصیات کو قانون کے تابع لائیں۔ جب عدالتوں کے فیصلوں میں تضاد، تاخیر یا امتیاز محسوس ہوتا ہے تو عوام کے ذہنوں میں وہی سوال جنم لیتا ہے جو کئی سال سے گردش میں ہے—کیا قانون واقعی سب کے لیے برابر ہے؟ اگر فوج اپنے اندر چار ستاروں والے افسر تک کو احتساب کی سخت زد میں لا سکتی ہے، تو پھر ہماری آئینی عدالتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسی اخلاقی معیار کو برقرار رکھیں۔
پاکستان اس وقت داخلی اور بیرونی سطح پر متعدد چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ معاشی عدم استحکام، سیاسی انتشار، بیرونی دباؤ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنی انتشار کے اس دور میں ریاست صرف اسی صورت مستحکم ہو سکتی ہے جب احتساب کا عمل ہر سطح پر غیر جانبدار ہو۔ فوج نے اپنے حصے کا کام کر دکھایا ہے، اور ادارہ جاتی دراڑ کو بھرنے کی کوشش کی ہے۔ اب باری سول اداروں، عدلیہ اور سیاسی قیادت کی ہے کہ وہ بھی اصلاحات کی اس سمت میں عملی قدم بڑھائیں۔
جنرل فیض حمید کی سزا ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک پوری سوچ کی شکست ہے—وہ سوچ جس میں ادارے شخصیات کے تابع ہو جاتے ہیں، اصول مصلحت میں بدل جاتے ہیں، اور ریاست چند افراد کے مذموم عزائم کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ ریاست اپنی اصلاح کے سفر پر روانہ ہے، اور یہ سفر اس وقت مکمل ہو گا جب تمام ادارے قانون کی مکمل بالادستی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔



