یہ اختیارات کا ناجائز استعمال خطرے کی گھنٹی

آزادکشمیر میں آج کل ایکشن کمیٹی کے 38 مطالبات پر بحث ہو رہی ہے۔ اس سے قبل جب ایکشن کمیٹی نے آزادکشمیر میں بجلی کا 3/- روپے فی یونٹ ریٹ کروایا اور آٹے میں خصوصی سبسڈی ملنے سے آزادکشمیر کے عام لوگ ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہو گئے۔ اب 29 ستمبر کو ایکشن کمیٹی نے ہڑتال لاک ڈاؤن کی غیر معینہ مدت کی کال دی ہے۔ تو سوشل میڈیا پر قائدین کو گھٹیا قسم کی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ریاست سے مقابلے کے لئے تمبر کے ڈنڈوں کا سوشل میڈیا پر استعمال دکھایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی اچھی شروعات نہیں۔
ہم نے بھی مقدور بھر یہ کوشش کی کہ تصادم کی صورت نہ اختیار ہو۔ ایک دوسرے کا عزت اور احترام ہونا چاہیے۔ ہ مادر پدر آزاد فضا نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارا صدیوں سے قائم سیاسی، سماجی، ثقافتی رکھ رکھاؤ والا کلچر اور خاص کر ریاست جموں و کشمیر کا کلچر اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ادب اور احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ یہ نوجوانوں کے لئے خاص پیغام جو آج کل موبائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور کتابیں اور اخبارات سے دور ہوتے ہیں۔ یورپ کی فحاشی کا اطلاق اسلامی کلچر کی سوسائٹی میں کرتے ہیں اور رات بھر جاگتے ہیں کاش کہ ایسا نہ ہوتا۔
بات ہم آزادکشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کی کرتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا مطالبہ ہے کہ مہاجرین کی 12 سیٹیں ختم کی جائیں۔ جناب جموں میں 1947 میں پاکستان آنے کے لئے اڑھائی لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ جس کی یاد میں ہم 6 نومبر یوم شہدائے جموں مناتے ہیں۔ شہداء کی یاد میں پھر ویلی کے لوگوں کی بے بہا قربانیاں۔ ویلی کی سیٹ پر کے ایچ خورشید بھی الیکشن لڑتے رہے جو قائداعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری تھے۔ مہاجرین کی آبادکاری کے چیئرمین چوہدری غلام عباس کا ریاسی جیل سے رہائی پر کراچی میں قائداعظم نے استقبال کیا۔ میر واعظ یوسف شاہ جو صدر آزادکشمیر 2 مرتبہ رہے۔ ان کا تعلق ویلی سے تھا۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس جن کا تعلق جموں سے تھا اور بے شمار قائدین ان سیٹوں کے خاتمے کا بے مقصد مطالبہ مسئلہ کشمیر کو دفن کرنا اور بحران پیدا کرنے کے مترادف۔ کیا یہ کسی ایکشن کمیٹی کا مین ڈیٹ ہو سکتا ہے۔ کبھی نہیں۔ ریاستی انتشار اور بحران مسئلہ کشمیر ختم کرنا ہے۔
پھر ان کا مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے جو ممبر منتخب ہوئے ان کو پنشن دی جاتی ہے اچھی بات ہے ملنی چاہیے اگر ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے جج 5 سال سروس کرے تو اسے بھاری پنشن اور مراعات دیئے جاتے ہیں۔ اس طرف دھیان ہونا چاہیے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن کا یکساں فارمولہ ہونا چاہیے۔ اگر ایسا مطالبہ ہو تو جائز ہو سکتا ہے لیکن وہ ہے ہی نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسمبلی میں جو 53 سیٹیں ہیں انہیں جن نازیبا الفاظ سے پکارا جاتا ہے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ جو ہمارے آپ کے سب کے نمائندے ہیں۔ جو منتخب ہو کر آتے ہیں۔ ان کی تضحیک، تذلیل ناقابل برداشت ہے۔
جناب اب جو آل پارٹیز کے پلیٹ فارم سے جو کہا گیا اور وہ سائفر اور را کی بات یہ بات کرنے سے پہلے ہم افواج پاکستان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو سلیوٹ کرتے ہیں کہ انہوں نے مئی میں بھارتی مودی کا غرور خاک میں ملایا اور 7 طیارے جن میں رافیل بھی تھے گرائے دیگر تباہی اس قدر کی گئی بھارت کی کمر ٹوٹ گئی۔ ٹرمپ سمیت دنیا نے سپر پاکستان تسلیم کیا۔
یہاں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ را یا کوئی اور ایجنسی ہو وہ تو عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلنے دیتی کہ کون کام کر رہا ہے۔ لیکن یہ بھی کمال ہے کہ دیکھنے والے پس دیوار دیکھ لیتے ہیں۔ یہ خوفناک انکشاف سامنے آئے ہیں یہ جو لوگ یو کے میں بیٹھ کر اس تحریک کو ہوا دے رہے ہیں ایسی صورت میں تحریکیں خالص نہیں رہتی۔ ان کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے جو پاکستان کے جھنڈے جلا کر گئے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادکشمیر جو نیشنلسٹ کہلانے والے ہیں جو خود مختار کشمیر کے حامی ہیں لیکن آئینی طور پر کوئی آدمی جو الحاق پاکستان کا حامی نہ ہو وہ آزادکشمیر کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہمارے سرکاری ملازم بھی محتاط رہیں خ اگر وہ ایکشن کمیٹی کی مدد کرتے ہوں وہ بھی قابل مواخذہ ہوں گے جس کی سزا سروس سے برطرفی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ زیر کفالت بچوں پر بھی نظر رکھیں ریاست سے ٹکرانا مشکل بات ہے۔ ہماری اپنی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ احتیاط کریں۔ تمام سٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ تصادم اور انتشار سے بچا جائے۔
اگر فقیری چھین لی گیء تو پھر حالات معمول پر آتے دیر لگتی ہے۔ ایک زمانہ گزر گیا یہ تماشا دیکھتے ہوئے۔ اگرچہ ہمارے تحفظات موجودہ حکومت پر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تمبر کا ڈنڈا اٹھا کر مقابلے کے لئے نکل پڑیں۔ اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پس پردہ بھارت ہے تو پھر بڑی بدقسمتی ہو گی۔ کشمیریوں نے 19 جولائی 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔
اب کہیں ایسا نہ ہو کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔