چوہدری ریاض کی بادشاہ گری،وزیراعظم فیصل راٹھور کے تاریخی جلسوں میں بڑھتا ہوا عوامی اعتماد
تحریر:شوکت جاوید میر

چھلکا تھا جو لہو وہ ابھی تک جما نہیں،
بھٹو تیرا قافلہ رکا نہیں تھما نہیں،
یہ خراج عقیدت شاعر نے بطور تحفہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین تیسرے دنیا کے انقلابی رہنما وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نظریاتی صبر آزما جدوجہد کوپیش کیا ہے اور یہی تاریخ کا سبق ہے جو قائد عوام نے اپنے خلاف قائم بوگس مقدمہ کی سماعت کے بعد فرمایا تھا کہ میں منوں مٹی کے نیچے عوام کے فتح مند قدموں کی چاپ سنوں گا اگرچیکہ کہنے کو یہ چند الفاظ ہیں لیکن ان کے معانی میں کوہ ہمالیہ سے بلند فکر و فلسفہ پنہاں ہے پانچ جنوری قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا جنم دن ہو یا چار اپریل یوم شہادت اکیس جولائی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ ہو یا ستائیس سمبر یوم شہادت کا المناک دن جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے جنم دن سمیت پارٹی کا یوم تاسیس منانے کا تسلسل پورے عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے جو مظبوط دلیل ہے اس فلسفہ حیات کی کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور پاکستان ہمیشہ زندہ آباد دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اوئل عمری میں اپنے والد کی عظیم نظریاتی وارثت کی حفاظت کا مقدس فریضہ سر انجام دیا اور طویل جدوجہد کے بدترین مارشلا کا مقابلہ کیا جمہوریت کی بحالی کیلئے ایم آر ڈی کی تحریک چلا کر آئین قانون کی حکمرانی کا بول بالا کیا اور بعد دو دسمبر کو اسلامی ممالک کی پہلی پاکستانی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا دہشت گردوں کے خلاف جاری قومی جنگ میں ستائیس دسمبر کو لیاقت باغ کے وسیع وعریض میدان میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ملک و ملت کیلئے جان جان آفریں کے سپرد کرنے والی بہادر باپ کی جرات مند بیٹی جام شہادت نوش کر گئی لیکن سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھنے میں ان گنت قربانیوں پیش کیں قارئین محترم عرض مدعا یہ ہے کہ آگر موازنہ کریں تو جس جنرل ضیاء الحق نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو عالمی سامراجی سازش کے ذریعے تختہ دار پر چڑھایا مگر آج تک گڑھی خدا بخش میں شہداء کے مزارات پر ایک سال میں چار سیاسی میلے سجتے ہیں اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان،خیبرپختونخواہ،بلوچستان،پنچاب،سندھ سے سیاسی نظریاتی عقیدت مندوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی سردی ہو،یا گرمی،بہار،کہ خزاں ہمیں ہے حکم آذاں کی صورتحال کسی پاکستانی کشمیری رہنما کے حصے میں نہیں آئی،قارئین کرام ایک دورتھا جب مسلم لیگ ن قائد دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب تین بار وزیراعظم پاکستان رہنے والے میاں محمد نواز شریف اپنے پورا لاؤ لشکر کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کا مشن آگے بڑھانے کے سب سے بڑے علمبردار تھے، اور پوری قوت سے اپنی ساتھیوں سے یہ نعرہ بلند کرتے تھے لیکن ہوا یہ کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دورانیہ میں ایوان وزیراعظم اسلام آباد اور فیصل مسجد تک دو سے تین کلو میٹر کا فاصلہ ہے جہاں ضیاء الحق مرحوم کی قبر پر کتبہ لگا ہوا ہے، لیکن انہیں کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ وہاں سال میں جا کر ایک بار فاتحہ خوانی ہی کر دیں، مشن تو مقدس ہوتا ہے، لیکن انہیں کسی نے بتادیا ہو گا کہ شاید یہاں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی باقیات ہیں، چوں کہ جو طیارہ فضاء میں آگ کے شعلوں کی نظر ہوا تو اس کا ملبہ ہی باقی تھا باقی تو کوئی چیز اس کی برآمد نہیں ہوئی، پاکستان اور آزاد کشمیر کا ہمیشہ نظریاتی، سیاسی گہرا تعلق رہا ہے،اور پاکستان کے سیاسی حکومتی اثرات براہ راست آزادکشمیر پر مرتب ہوتے ہیں، آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں تین قائد ایوان تبدیل ہوئے جن میں سے دو کا تعلق تحریک انصاف اور ایک ایسے بھی قائد ایوان منتخب ہوئے جو جیتے تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لیکن قائد ایوان بنتے وقت ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی، چوتھے وزیراعظم کیلئے سپیکر قانون ساز اسمبلی، سینئر پارلیمنٹرین چوہدری لطیف اکبر، پارٹی صدر چوہدری محمد یاسین، پارلیمانی لیڈر حاجی سردار محمد یعقوب خان کا نام زیر بحث رہا، لیکن جب فیصلہ سازی کا مرحلہ پہنچا تو جواں سال پارلیمنٹرین فیصل ممتاز راٹھور کے نام قرعہ فال نکلا اور یوں ان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا سنگھاسن سج گیا، بظاہر اس فیصلے کو سیاسی حلقوں میں آڑے ہاتھوں لیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ فیصلہ سازوں اور منصوبہ بندی کرنے والوں نے دورس فیصلے کرنے میں کڑوی گولیاں نگلیں، مستقبل کا حال تو رب العزت کو معلوم ہے، حال میں اس فیصلے کے یہ اثرات مرتب ہوئے کہ فیصل ممتاز راٹھور کے پاس اپنے والد محترم راجہ ممتاز حسین راٹھور کی عوام دوسی کی لیگیسی اور والدہ محترمہ فرحت ممتاز راٹھور کی تربیت کی وراثت تھی ہی لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اور لازوال ریاضت نے انہیں آسما ن سیاست کے عروج پر پہنچا دیا، بلاشبہ اس کا کریڈٹ پارٹی لیڈر شپ کے ساتھ پس آئینہ قوتوں کو بھی جاتا ہے، فیصل ممتاز راٹھور کے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کا جم غفیر اُمڈ آیا، سابق دور کے تین سالوں میں خلق خداکے ساتھ اختیار کیا گیا ناروا سلوک کا خاتمہ ہوا، اور عوامی دور حکمرانی کا آغاز ہوا، جس کی چند مثالیں نظر قارئین ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر پاکستان آصف علی زرداری، سیاسی اُمور کی چیئرپرسن محترمہ فریال تالپورکی مشاورت اور منظوری کے بعد پارٹی کے مرکزی سینئر رہنما چوہدری ریاض نے اپنی کمال دانشمندانہ حکمت عملی سے پیپلزپارٹی کو 16سے 36 ممبران اسمبلی پر مشتمل پارلیمانی پارٹی بنانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے، تاہم جس دن تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، اسمبلی کے چاروں اطراف عوام کا جم غفیر چشم فلک نے دیکھا، وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور کے تقریب حلف وفاداری والے دن ایوان صدر میں ہی نہیں بلکہ دارالحکومت میں عوام الناس کا اجتماع منفرد تھا، ایوان صدر کے ارد گرد کو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور نے سب سے پہلے وادی نیلم جانے کا فیصلہ کیا، تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اُمڈ آیا، اس کے بعد باغ کے جلسہ میں جو خلق خدا کا ہجوم تھا اس کے مناظر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکے ہیں، پھر راولاکوٹ، عباس پور جیسے مزاحمتی علاقوں میں وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور کا شایان شان استقبال مخالفین کی آنکھیں کھولنے کیلئے ریفرنڈم کے مترادف تھا اور سب سے بڑھ کر یہ فیصل ممتاز راٹھور کے دور اقتدار کے ایک ماہ میں پاکستان کے نظریاتی رشتوں کو استحکام ملا، پاکستان زندہ باد کی آوازوں میں بتدریج اضافہ ہوا، اور انہوں نے طلبہ یونین، صحت کارڈ کی بحالی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بنانے، چھوٹے ملازمین کی ترقیابی اور مستقلی سمیت ایسے عوام دوست فیصلے کیے جن کی قوم توقع کر رہی تھی، گزشتہ روز دارالحکومت میں دیئے جانے والا استقبالیہ بھی ایک عظیم الشان استقبالیہ عوامی اجتماع کی شکل اختیار کر گیا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مظفرآباد ڈویژن کے 9انتخابی حلقوں میں پیپلزپارٹی کو ایک تازہ آکسیجن میسر آئی، اور سیاسی مخالفین بغلیں جھاڑنے پر مجبور ہو گئے، پارٹی کے سینئر مرکزی رہنما چوہدری ریاض کا مدبرانہ کردار تاریخ کا وہ منفرد باب ہے جس میں صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، سابق وزیراعظم تنویر الیاس خان کی پارلیمانی ٹیم جب کہ دارالحکومت مظفرآباد سے مختار عباسی، ضلع جہلم ویلی سے دیوان علی خان چغتائی کو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی پلیٹ فارم پر لانے میں مہارت کا ثبوت دیا، فیصل ممتاز راٹھور تاریخ کے کامیاب ترین کم عمر وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ نرم خو، خوش اخلاق، خوش لباس، حفظ مراتب کو ملحوظ خاطر رکھ کر بدترین مخالفین کو عزت و احترام دینے کا گُر بدرجہ ہااتم رکھتے ہیں، اور یہی کسی سیاست دان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے،پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ اور اسمبلی کے اجلاس میں عوام کو بڑی خوشخبریاں ملیں گی، جس کی بناء پر آنے والے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی ایک بار پھر شاندار فتح حاصل کر کے دوبارہ حکومت سازی کرے گی اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو، دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کے انقلابی افکار و نظریات کے مطابق تحریک آزادی کشمیر، نظریہ استحکام پاکستان، ریاستی تشخص، قومی وقار، جمہوری قوتوں سے اعتماد سازی کا مشن مکمل کرے گی۔
اے قائد جمہور ہے مجھ کو یقیں اک روز ہوں گے حشر کے آثار آویدہ،
وہ لہو جو تیرے مظلوم بدن سے ٹپکا اس سے ہوں گے بھٹو کئی ہزار پیدا،




