کالمز

8اکتوبر2005 ء ۔۔۔۔۔۔ہم بچ گئے ٗمگر انسانیت ملبے تلے دفن ہو گئی

یہ 8 اکتوبر 2005ء کی ایک روشن مگر پُرسکون صبح تھی۔ وقت تھا 8 بج کر 52 منٹ۔ مظفرآباد کی وادی ہمیشہ کی طرح زندگی سے بھرپور تھی۔ بچے اسکول جا چکے تھے، مائیں ناشتے کے برتن سمیٹ رہی تھیں، باپ روزی کی تلاش میں نکل چکے تھے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اگلا لمحہ ان کی زندگی کا آخری منظر بننے والا ہے۔
اچانک زمین لرزنے لگی۔ پہاڑ دہاڑنے لگے، درخت جھومنے لگے، اور عمارتیں چند سیکنڈ میں زمین بوس ہو گئیں۔ فضا گرد و غبار سے بھر گئی۔ ہر طرف چیخیں، آہیں اور ملبے تلے دبے انسانوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ قیامت کا منظر تھا۔ بچے اسکولوں کے ملبے میں دب گئے، مائیں اپنے بچوں کو پکارتی رہ گئیں۔ باپ اپنے ہی گھر کے کھنڈرات میں لختِ جگر کی لاش ڈھونڈ رہے تھے۔ کوئی ہاتھ میں ٹوٹی تختی تھامے تھا، کوئی ملبے سے بستہ نکال کر بین کر رہا تھا۔ زمین جیسے خون رو رہی تھی۔
یہ صرف زلزلہ نہیں تھا، یہ ایک قوم کے وجود پر لگنے والا ایسا زخم تھا جو آج بھی نہیں بھرا۔
سرکاری اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق اس زلزلے میں 73,000 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے، جبکہ 3.5 ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے۔ 7.6 شدت کے اس زلزلے نے نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ بالاکوٹ، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور شمالی علاقوں میں تباہی پھیلا دی۔ مظفرآباد شہر کا بیشتر حصہ ملبے میں بدل گیا، سڑکیں ٹوٹ گئیں، اسپتال گر گئے، اسکول منہدم ہو گئے، اور پوری وادی ایک اجتماعی قبرستان میں بدل گئی۔
زلزلے کے فوراً بعد پاک فوج، ریسکیو ٹیموں، مقامی نوجوانوں اور رضاکاروں نے امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔ ملبہ ہٹانے، زخمیوں کو نکالنے، اور زندہ بچ جانے والوں کو سہارا دینے کے مناظر انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال بن گئے۔ دنیا نے اس دکھ کو محسوس کیا، امداد کے دروازے کھل گئے۔ عالمی ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر سے زائد امداد کا اعلان کیا گیا۔ اسی تناظر میں ایرا (ERRA) اور سیرا (SERRA) کے ادارے قائم کیے گئے۔ بیسیوں این جی اوز نے بحالی و تعمیر نو کے دعوے کیے۔
بین الاقوامی برادری نے 6 بلین ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی۔ ہزاروں اسکول، اسپتال، اور سڑکیں دوبارہ بنانے کے منصوبے شروع ہوئے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ وعدے اور منصوبے کاغذوں میں دبنے لگے۔ ابتدا میں “نیا مظفرآباد” اور “محفوظ آزاد کشمیر” کے خواب دکھائے گئے۔ متاثرین سے کہا گیا کہ ہر گھر دوبارہ بنے گا، ہر اسکول پہلے سے مضبوط ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیس سال گزرنے کے باوجود بہت سے تعلیمی ادارے آج بھی عارضی شیلٹرز میں قائم ہیں۔ ہزاروں خاندان اب بھی نیم پختہ مکانات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ایرا اور سیرا کے متعدد منصوبے فنڈز کی کمی، بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کا شکار ہوئے۔ کہیں ٹھیکیداروں نے کم معیار کا کام کیا، کہیں منصوبے شروع ہی نہ ہو سکے۔ حکومتی رپورٹوں میں کامیابیوں کے رنگ بھرے گئے، مگر زمینی حقیقت اب بھی مایوس کن ہے۔
سیرا کی رپورٹس کے مطابق آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر 1300 سے زائد منصوبے تجویز ہوئے، جن میں سے تقریباً 65 فیصد مکمل ہوئے، 25 فیصد زیر تکمیل ہیں، جبکہ 10 فیصد منصوبے فنڈز یا زمین کے تنازعات کے باعث مکمل نہ ہو سکے۔ مظفرآباد، باغ اور نیلم میں سینکڑوں تعلیمی ادارے تعمیر تو ہوئے، مگر ان میں سے درجنوں اب بھی عارضی عمارتوں یا خیموں میں قائم ہیں۔ بچے آج بھی انہی خستہ حال ڈھانچوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
صحت عامہ کے منصوبے بھی کچھ بہتر تو ہوئے مگر مکمل نہیں۔ مظفرآباد اور باغ کے مرکزی اسپتال تعمیر ہوئے، مگر دیہی علاقوں کے بنیادی مراکزِ صحت میں سہولیات کا فقدان آج بھی موجود ہے۔ کئی دیہاتوں میں اب بھی خواتین کو زچگی یا معمولی علاج کے لیے گھنٹوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے مواصلات میں بہتری ضرور آئی، مگر متعدد دیہی راستے اب بھی خطرناک اور غیر ہموار ہیں۔
ایرا کی رپورٹ کے مطابق 2005 سے 2025 کے دوران مجموعی طور پر 14,700 منصوبے مکمل کیے گئے، جن میں سڑکیں، پل، تعلیمی و طبی ادارے، اور رہائشی یونٹس شامل ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ 25 فیصد منصوبے تاحال نامکمل ہیں۔ کچھ منصوبے فائلوں میں دبے ہیں، کچھ کے ٹھیکے سیاسی اثر و رسوخ کے باعث غیر شفاف طریقے سے دیے گئے، اور کچھ محض افتتاحی تختیوں تک محدود رہ گئے۔
ایرا اور سیرا کی کارکردگی میں کئی قابلِ تعریف پہلو بھی ہیں۔ باغ، نیلم اور مظفرآباد میں جدید اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر ہوئی، کمیونٹی لیڈ ڈیولپمنٹ ماڈل کے تحت مقامی آبادی کی شمولیت سے چند منصوبے پائیدار ثابت ہوئے، اور بعض سڑکوں نے تجارت و روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ مگر ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بدانتظامی، کرپشن، اور عدم شفافیت کے سائے بھی برقرار رہے۔
آج جب زلزلے کو بیس سال بیت چکے ہیں، مظفرآباد، باغ اور نیلم کی وادیاں بظاہر آباد ضرور ہیں مگر دلوں میں زخم اب بھی تازہ ہیں۔ نئی عمارتیں اور رنگین دیواریں اس دکھ کو نہیں چھپا سکتیں جو ان وادیوں کے لوگوں کے چہروں پر اب بھی لکھی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو اس زلزلے میں اپنے پیارے کھو بیٹھے، آج بھی ہر 8 اکتوبر کو ان کی یاد میں شمعیں جلاتے ہیں۔
یہ سانحہ صرف قدرتی آفت نہیں تھا، بلکہ انسانی غفلت، بدعنوانی، اور ناقص منصوبہ بندی کی ایک تلخ داستان بھی ہے۔ ہزاروں ارب کی امداد کا بڑا حصہ انتظامی الجھنوں اور غیر شفاف نظام میں ضائع ہوا۔ سیاسی قیادت نے فوٹو سیشن اور وعدوں سے زیادہ کچھ نہ کیا۔ متاثرین آج بھی سوال کرتے ہیں، کیا ان کے بچوں کی قربانیوں کا کوئی حساب لیا گیا؟ کیا جن اداروں نے تعمیر نو کے دعوے کیے، ان کا احتساب ہوا؟
آج بھی مظفرآباد، باغ اور نیلم کی پہاڑیوں میں وہ زخم تازہ ہیں، جہاں لوگ یاد کرتے ہیں کہ 8:52 منٹ پر زمین نے نہیں، انسانیت نے سانس روک لی تھی۔
زلزلہ گزر گیا، مگر اس کے ملبے تلے دفن صداقتیں اب بھی بولتی ہیں۔ ہم نے عمارتیں دوبارہ کھڑی کر لیں، مگر انصاف، شفافیت اور دیانتداری کے ستون مضبوط نہ کر سکے۔ بیس سال بعد بھی یہ سوال باقی ہے: اگر کل زمین پھر ہلی، تو کیا ہم تیار ہوں گے؟ کیا ہمارے اسکول، اسپتال اور ادارے اس امتحان میں ثابت قدم رہیں گے؟ یا پھر ہم ایک اور سانحے کے بعد صرف دعائیں، وعدے اور فائلوں کا انبار جمع کریں گے؟
8 اکتوبر 2005ء ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت کی آفات وقتی ہوتی ہیں، مگر انسان کی غفلت مستقل تباہی بن جاتی ہے۔ زمین کے زخم تو بھر جاتے ہیں، مگر ضمیر کے زخم صدیوں یاد رہتے ہیں۔ یہ دن ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ اگر ہم نے سچ میں سبق نہ سیکھا، تو شاید اگلی تباہی ہمیں یاد کرنے والا بھی نہ چھوڑے۔

Related Articles

Back to top button