24 اکتوبر ”یومِ تاسیس“

آزاد جموں و کشمیر کا یہ خطہ ایک جہاد کے ذریعہ آزاد کروایا گیا ہے اور اس حکومت کا سنگ بنیاد 24اکتوبر 1947ء کو رکھا گیا تھا۔ اس جہاد کا بگل 23اگست1947ء کو دھیرکوٹ سے تین میل کے فاصلے پر گھنے جنگلوں کے سائے میں ”نیلہ بٹ“ کے مقام سے بجایا گیا تھا اور جہاد آزادی کے اس پرجوش اجتماع کے روح رواں سردار عبدالقیوم خان تھے۔ جو کہ خود بھیی جوان تھے اور جذبہ حریت سے سرشار تھے۔ وہ اس جہادی قافلہ کی قیادت کر رہے تھے کہ جہالہ کے نزدیک ڈوگرہ فوج کے گشت پر مامور سپاہیوں سے مڈبھیڑ ہو گئی اس طرح یہیں سے جہاد کا آغاز ہو گیا۔ آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ معرکے سرزد ہوئے جس میں باغ، محمودگلی سیکٹر سردار عبدالقیوم کی کمان میں رہے۔ پلندری میں کیپٹن حسین خان نے دادِ شجاعت پائی، کیپٹن ہدایت خان نے بلوچ سیکٹر میں فتح حاصل کی۔ دلیر اور پھرتیلے کیپٹن خان محمد خان نے میرپور میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ غرض ہر علاقہ میں کشمیری نوجوانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف عَلم جہاد بلند کر دیا تھا اور ہر معرکہ میں کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے مجاہدین نے مختلف محاذوں پر اپنے جذبہ جہاد اور مجاہدانہ صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ہمارے ان بہادر اور سجیلے جوانوں نے دامے، درمے اور سخنے قربانی دیکر ہمیں آزادی دلوائی۔ آج ہم الحمد اللہ آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔ آج کی ہماری یہ نسل آزادی کی فضاؤں میں اولذکر معرکہ آرائیوں کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ سردار ابراہیم خان سری نگر سے مظفرآباد پہنچے تھے ان کی برادری کے مجاہدین اس جہاد آزادی میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ سرگرم رہے تھے۔ ان سب کی کاوشوں کی بدولت 5000مربع میل کا یہ خطہ آزاد ہو چکا تھا۔ اسے سیاسی، آئینی و انتظامی ساخت فراہم کرنے کیلئے اور دُنیا بھر میں اسے ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کی حیثیت دینے کیلئے باقاعدہ حکومت کے سانچے میں ڈھالا گیا۔
سردار ابراہیم خان کو اپنی تعلیمی، سیاسی، قانونی صلاحیتوں کے پیش نظر اس آزاد ریاست کا بانی صدر نامزد کیا گیا۔ مسلم کانفرنس جو کہ مسلمانان جموں و کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت تھی نے ان کی نامزدگی اور تقرری کی توثیق کی تھی۔ اس آزاد ریاست کے قیام سے شخصی راج قائم رکھنے والے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ابھی سری نگر میں ہی اپنا دربار سجائے بیٹھا تھا کہ اس خبر نے اس کی سلطنت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔
اسی تسلسل میں یکم نومبر 1947ء کو گلگت و سکردو کے مقامی مجاہدین نے ڈوگرہ فوج کے باغی مسلمان آفیسروں کی مدد سے وہاں پر مقیم ڈوگرہ حکومت کے گورنر بریگیڈیئر گھنارا سنگھ کو گرفتار کر لیا اور وہاں کا 27000مربع میل کا علاقہ آزاد کروا لیا تھا۔ مجاہدین کشمیر نے اپنے صوبہ سرحد سے مدد کیلئے آئے ہوئے بھائیوں کے ساتھ ملکر مظفرآباد فتح کرنے کے بعد سری نگر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ مجاہدین نے اوڑی میں ڈوگرہ فوج کو شکست سے دوچار کیا اور وہاں پر قائم مھورا پاور ہاؤس پر قبضہ کر لیا۔ تو اس طرح سری نگر میں مہاراجہ کا دربار اندھیرے میں ڈوب گیا۔ مہاراجہ نے اپنے دربار کی بساط لپیٹی رات کے اندھیرے میں سری نگر سے بھاگا اور اپنی جنم بھومی ”جموں“ میں جا کر اپنے محل میں پناہ لی۔ اسی محل میں نئی دہلی سے آئے ہوئے بھارتی وزیرخارجہ کرشنا سینن نے ہری سنگھ سے بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کی درخواست پر دستخط حاصل کر لیے اسی درخواست میں درج شرائط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کر دی تھی جو کہ غیرآئینی اور غیراخلاقی تھی۔ اسی فوج کشی کے بعد جموں کے ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور کئی لاکھ پاکستان کی جانب ہجرت کر کے آ گئے۔
بھارت خود یہ فریاد لیکر سلامتی کونسل گیا تھا کہ اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعہ کیا جائے گا لیکن بھارت اس کے نتائج کو پاکستان کے حق میں ہونے کے خوف سے آج تک رائے شماری کروانے سے کتراتا رہا ہے۔ اب عالمی منظرنامہ بدل چکا ہے۔ بھارت نے اپنی سفارتی سرگرمیوں کے ذریعہ اقوام عالم کو غلط منظر کشی کر کے انہیں اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔ عالمی قوتیں پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل رہی تھی۔ اب وہ بھی بھارت کی ہم آواز ہو چکی ہیں بھارت نے,5اگست2019ء کے اقدام سے ریاست جموں و کشمیر کا مکمل طور پر تشخص ختم کرتے ہوئے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا۔ اور اس پر بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی مہر بھی ثبت کر دی ہے۔ لیکن ہمارے کشمیری حریت بھائی جو آج تک تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ نے بھی اقوام عالم کے سامنے یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ بھارت کے اس تسلط کو قبول نہیں کریں گے۔ ہماری یہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر اسی جذبہ آزادی کی پیداوار ہے اور ہمیشہ اسی جذبہ کی ترجمان رہے گی لیکن ہماری آزادکشمیر کی قیادت کو بھی یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم آزادی کے اس بیس کیمپ میں بیٹھ کر کس حد تک پار کے مسلمان بھائیوں کی آزادی کی تڑپ کو محسوس کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہم نے کیا لائحہ عمل مرتب کر رکھا ہے۔
ہماری جو آزاد ریاست قائم ہوئی ہے یہ حق خودارادیت کی جدوجہد کا حصہ ہے اور یہ اس کی علامت بن کر ہمیشہ قائم رہے گی اور ہر حکومت پاکستان اپنی سفارتی، اخلاقی و مالی حمایت کو کشمیریوں کے حق میں جاری رکھے گی۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے جو کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کشمیر کی آزادی کے شہداء، غازیوں اور ہیروز کو کبھیَ نہیں بھلائے گا۔ پاکستان ہمیشہ ان کے حق میں حمایت کرتا رہے گا۔ کشمیری بھی پاکستان کو اپنی آزادی کا محور و مرکز سمجھتے رہینگے۔
٭٭٭٭٭




