کالمز

تعلیمی بورڈ کی متنازع تقسیم

آزاد کشمیر کے تعلیمی نظام میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں گہرے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے قومی یکجہتی، مساوات اور ترقی کی بنیاد سمجھا جاتا رہا ہے، مگر میرپور میں قائم واحد آزاد کشمیر کے تعلیمی بورڈ کی تقسیم کے فیصلے نے نہ صرف خطے کے تعلیمی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے بلکہ اس نے انتظامی اور سیاسی سطح پر ہونے والی سازشوں کے بھیانک پہلوؤں کو بھی عوام کے سامنے لانے کا کام کیا ہے۔ یہ عمل محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسی سوچی سمجھی اسکیم کا نتیجہ ہے جس کا مقصد خطے کے تعلیمی نظام کو سیاسی مفادات کے تابع کرنا ہے۔
میرپور کا تعلیمی بورڈ کئی دہائیوں سے آزاد کشمیر کے طلبہ و طالبات کو یکساں معیار کی تعلیم فراہم کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ اس کی تقسیم کا فیصلہ اچانک نہیں لیا گیا، بلکہ یہ ایک مرحلہ وار عمل تھا جس کی بنیاد اس دن رکھی گئی جب وفاقی وزیر طارق فضل چودھری اور امیر مقام کی آمد پر وزیراعظم پاکستان اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے باہمی طور پر کمیٹیاں تشکیل دیں۔ ان کمیٹیوں میں پانچ رکنی آزاد کشمیر کمیٹی، دو رکنی وفاقی کمیٹی اور 9رکنی عوامی ایکشن کمیٹی کی نمائندگی شامل تھی، جس کے نتیجے میں 16 رکنی مذاکراتی کمیٹی معرض وجود میں آئی۔ تاہم، اس پورے عمل میں ایک واضع سیاسی ایجنڈے کو کارفرما دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو وزیر تعلیم آزاد کشمیر ملک ظفر کو اس عمل میں شامل ہی نہیں ہونے دیا گیا، جو کہ انتہائی تعجب خیز بات تھی۔ کسی بھی تعلیمی بورڈ کی تقسیم کے حوالے سے فیصلہ سازی میں وزیر تعلیم کا شامل ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے، مگر انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک ظفر نے کچھ عرصہ قبل عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا تھا، لہٰذا ان کا اس کمیٹی سے باہر رہنا ضروری سمجھا گیا۔ تاہم، اگر یہ دلیل درست بھی مان لی جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ آخر کیوں ایک جمہوری عمل میں کسی وزیر کو اس کے بنیادی فرائض سے دور رکھا گیا؟ دوسری جانب، ضلع میرپور کے حلقہ دو چکسواری اسلام گڑھ سے منتخب وزیر حکومت قاسم مجید کا معاملہ بھی انتہائی فکر انگیز ہے۔ انہوں نے دو سالوں کے عرصے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے حوالے سے ہمیشہ غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا تھا۔ انہیں بھی کمیٹی سے باہر کر دیا گیا، جو اس بات کی واضح علامت تھی کہ بورڈ کی تقسیم کا عمل سیاسی مفادات کے تابع ہو چکا ہے۔ یہ اقدام درحقیقت تعلیمی بورڈ کی تقسیم کی پہلی کڑی ثابت ہوا اور اس نے اس سازش کی بنیاد رکھی جس کا مقصد میرپور میں قائم تعلیمی ادارے کو کمزور کرنا تھا۔ دو اکتوبر کو جب وفاقی کمیٹی مذاکراتی عمل میں شامل ہوئی تو اس میں مظفر آباد ڈویژن سے شوکت نواز میر اور راجہ امجد، جبکہ پونچھ ڈویژن سے عمر نذیر شامل تھے۔ آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے وزرائے حکومت دیوان چغتائی مظفر آباد ڈویژن اور فیصل راٹھور پونچھ ڈویژن بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔ اس موقع پر آزاد کشمیر مذاکراتی کمیٹی کی طرف سے یہ عجیب و غریب بیان سامنے آیا کہ وہ وفاقی حکومت کو ایک ”تحفہ” دینا چاہتی ہے، اور وہ تحفہ تھا آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ کی تقسیم اور اسے تین حصوں مظفر آباد ڈویژن، پونچھ ڈویژن بشمول میرپور ڈویژن میں بانٹ دینے کا فیصلہ تھا۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ جن وزراء کو عوام کی نمائندگی کا فریضہ سونپا گیا تھا، انہوں نے ہی میرپور کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے بورڈ کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ خود ہی پیش کر دیا۔ اور اپنے اپنے علاقوں میں بورڈز قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی فہرست میں بورڈ کی تقسیم کا مطالبہ شامل ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود حکومتی وزراء نے اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ فیصلہ عوامی مطالبے کی بجائے چند افراد کی ذاتی یا سیاسی خواہشات کا نتیجہ تھا۔ جب مذاکراتی عمل اختتام پذیر ہوا تو ایک وفاقی وزیر (نام نہیں لکھ رہا) نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ”اگر یہی کرنا تھا تو ہمیں پہلے ہی آگاہ کر دیتے، ہم وہاں سے ہی آرڈر جاری کر دیتے” اس پر وفاق کے دیگر نمائندگان نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ ”جناب جانے دیں، مزید کٹا نہ کھلوائیں ” یہ بات اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وفاقی سطح پر بھی اس فیصلے کو غیر منطقی اور جلد بازی میں لیا گیا اقدام سمجھا جا رہا تھا۔
اس سارے عمل کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں شفافیت کا فقدان تھا۔ اگر تینوں اطراف کے وفود اور مذاکراتی کمیٹیوں میں موجود شخصیات کی تصاویر، ان کی تعداد اور دستخطوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کس نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور کس نے نہیں۔ بورڈ کی تقسیم کے فیصلے پر کچھ افراد کے دستخطوں کی عدم موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا، بلکہ اسے چند لوگوں کی خواہشات کے تحت مسلط کیا گیا۔ تعلیمی بورڈ کی تقسیم درحقیقت معاشرے کی تقسیم کا پیش خیمہ ہے۔ جب ہم تعلیمی اداروں کو جغرافیائی یا سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں تو ہم درحقیقت نسل نو کے ذہنوں میں تقسیم کے بیج بو رہے ہوتے ہیں۔ میرپور بورڈ کی تقسیم کا فیصلہ نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرے گا، بلکہ اس سے خطے کے طلبہ و طالبات میں یکجہتی کا جذبہ بھی کمزور پڑے گا۔ مختلف بورڈز کے درمیان معیار کے فرق، نصاب کی غیر یکسانیت اور امتحانی نظام میں تفاوت طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے شدید مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر کے طلبہ و طالبات کا ہوا ہے، جنہیں ایک مستحکم اور معیاری تعلیمی نظام سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ان کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرہ ہے، بلکہ یہ خطے میں تعلیمی عدم مساوات کو بھی ہوا دے گا۔ مختلف ڈویژنز میں الگ الگ بورڈز قائم ہونے سے وسائل کی تقسیم میں بھی عدم توازن پیدا ہو گا، جس کا خمیازہ طلبہ کو بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور عوامی مفاد کو ترجیح دے۔ تعلیم کو سیاسی مفادات کا شکار ہونے سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔ اگر بورڈ کی تقسیم واقعتاً ضروری تھی تو اسے شفافیت اور مکمل عوامی مشاورت کے ساتھ انجام دینا چاہیے تھا، نہ کہ ایک بند کمرے میں ہونے والی میٹنگ میں چند افراد کی خواہشات کے مطابق۔ اس سارے عمل نے جمہوری اقدار کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے، جہاں عوامی نمائندوں کو ان کے فرائض سے دور رکھا گیا اور فیصلہ سازی کا عمل چند افراد تک محدود رہا۔
آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرپور بورڈ کی تقسیم کا فیصلہ نہ صرف تعلیمی بلکہ جمہوری اقدار کے حوالے سے بھی ایک سیاہ باب ہے۔ اس عمل نے نہ صرف خطے کے تعلیمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے، بلکہ یہ عوامی نمائندوں کے درمیان عدم اعتماد کو بھی جنم دے گا۔ مستقبل میں ایسے فیصلوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ شفافیت، مکمل عوامی مشاورت اور جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے، تاکہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو سیاسی چالبازیوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور اسے مضبوط رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ میرپور بورڈ کی تقسیم کا فیصلہ نہ صرف طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا ہے بلکہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے تعلیمی عدم مساوات کو بھی جنم دے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ تعلیم ہمارے معاشرے میں یکجہتی اور ترقی کا ذریعہ بنے نہ کہ تقسیم اور انتشار کا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس فیصلے کے پیچھے کارفرما حقیقی محرکات کو سمجھیں اور عوامی مفاد میں اس پر نظر ثانی کریں۔

Related Articles

Back to top button