
اجتماعی دانش کا لفظ سننے میں بہت بھلا لگتا ہے۔ مگر یہ بھلائی صرف نظام ”خلافت“میں ہی چل سکتی ہے،جمہوریت اجماع کا نہیں اکثریت کا نظام ہے، جس میں اختلاف اور حزب اختلاف کے بغیر نہ نظام چل سکتا ہے نہ ہی حکومت چلتی ہے، مگر جانے کیوں ہمارے دانشمندوں نے متنازعہ جموں وکشمیر میں خلافت اور جمہوریت کا مکسچر بنانے کا تجربہ کر ڈالا اور بیٹھے بٹھائے ایک ناکامی،ایک شکست اپنے ماتھے پر لکھوا ڈالی،اور آزاد جموں و کشمیر کے 45/50لاکھ لوگوں کوزیر بار،کر کے بے یعقینی، بدامنی اور انتشار کی کھائی میں دھکیل دیا گیا، یہ درست ہے کہ کئی حوالوں سے وزیراعظم انوار الحق نے سردار سکندر حیات خان کے بعد اچھا کام بھی کیا مگر مجموعی نتیجہ، ناکامی، بدنامی، بکھراؤ، انتشار اور بے وقری کی صورت میں سامنے آیا، کیونکہ نام نہاد ہی سہی مگر یہ جمہوری نظام تھاکوئی خلافت کا نظام نہیں تھا،کہ سب کا اکٹھا ہونا ایک ملی اتحاد کی علامت ہوتا،اسلئے ساری سیاسی پارٹیوں کا اتحاد کا ایک جتھا بن گیا، بھڑوں کا چھتہ بن گیا، اور روز اول سے اس ممبران کیحکومت کی عوام سے ہی ٹھن گئی، اور اس کھنچاؤ نے سیاسی جماعتوں کی غیر موجودگی کے باعث ٹکراؤ اور لڑائی کی سی صورت اختیار کر لی، ان نادانوں نے اسمبلی کے اندر سے ”اپوزیشن“ ختم کی تواس عبوری اسمبلی کے باہر کھلے میدان میں جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک عوامی اپوزیشن نے جنم لے لیا اور ان کے دلوں پر دہشت بن کر بیٹھ گئی۔۔۔ چلیں ایک معاشرتی سائنس کا بچگانہ تجربہ تھا،ناکام ہوا، تو اب اس غلط تھیوری سے توبہ تائب ہو جانا اور پرہیز کرنا ہی انسانی سمجھ بوجھ کا تقاضا تھا مگر جانے یہ کون سے ماسٹر مائنڈ ہیں، یا اس دوران ممبران اسمبلی نام کی مخلوق کا ایسا کونسا”بیڈ ٹیسٹ“بری عادت اور منفی سوچ پیداکر دئے گئے ہیں کہ ماضی کی بڑی بڑی نامی گرامی جماعتیں یہ گندی شرارت، یہ جرم،یہ گناہ اور وہ بھی بے لذت اور بدذائقہ ایک بار پھر کرنا اور اس مکروہ اور قبیح عمل میں حرام سیاسی موت مرنا چاہتی ہیں،ایسے میں ن 48یا53 کے لئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے، مگر ان انجانوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عوام ان پر اتنی بھڑکی ہوئی ہے کہ سوائے بد دعاؤں کے انہیں ایک پائی کی بھیک بھی نہیں دینا چاہتی، حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان میں سے اکثریت بحیثیت جماعت ذرہ برابر بھی خومختار نہیں ہے،اور ان کی مرکزی جماعتوں کے سربراہ انہیں بار بار صبر اور انتظار کی تلقین کرچکے ہیں، اور روز پتہ چلتا ہیکہ ”پار سے خبر آئی ہے،انوارالحق ہی بڑا بھائی ہے“ مگر ان کی آنکھوں پر حرص کی ایسی پٹی بندھی کہ یہ اپنے بڑوں سے بھی بغاوتیں کرنے پر آمادہ، بے وفائی کیلئے تیار اور ادھار کھائے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں،یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ان کا منڈیٹ جسے یہ بار بار پھلانگ چکے ہیں وہ بھی اب صرف سات /آٹھ ماہ کا باقی رہ گیا ہے، اور یہ آج بھی آئین کے نا م کی آڑ لے کرنیا وزیر اعظم عوام پر تھوپنے کے لئے بے قرار بیٹھے ہیں،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ عدم اعتماد بھی طلاق کی طرح کا فعل ہے جسے انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، مگر وہ تو سچے مسلمانوں کے لئے ہوتا ہے،روز روز نکاح توڑنے اور غیروں کے ساتھ بھاگ جانے والوں کو اس کی کیا پرواہ، یاد رکھیں اس وقت وزیر اعظم عوام کے نکاح میں ہے، اور کیبنٹ وزیر اعظم کے نکاح میں، اور خلع کیلئے کوئی ٹھوس جواز چاہئے، اور عدالت (فیملی کورٹ) عوام کی ہے۔(کوئی شک ہو تو سابق وزیر اطلاعا ت پیر مظہرسعید سے اس اصطلاح کی تصدیق لے سکتے ہیں) جس میں جھوٹے الزامات اور گواہیاں نہیں چلتیں، اور اُلٹا بلا جواز خلع کے مقدمے اور غیروں سے ”اکھ مٹکے“ پر کڑی سزا بھی ہو سکتی ہے،جوس میں آپ کو کسی بھی نمائندگی کیلئے آپ سب کو تا حیات نااہل قرار دے سکتی ہے، پھر بقول ایکشن کمیٹی کے شوکت نواز میر کے آپ سب بھی رکشے والے وزیر کی طرح ”چھن چھنے“ہی بجائیں گے، اور گائیں گے ”اے دنیا کے رکھوالے،سُن درد بھرے میرے نالے“ لیکن شاید وہ بھی اپنی مخلوق کے باغیوں کی کوئی فریاد نہیں سنے گا،اس بُری رسم کا آغاز 2006/07میں سردار عتیق احمد خان کی حکومت سے ہوا تھا، اگر ہمارے اجتماعیدانشمندوں کے سربراہ اس وقت اس گندے کھیل کو روک لیتے تو آج شاید نادان سیاستدانوں کو یہ دیکھنا اور عوام کو بھگتنا نہ پڑتا،ہم 1947سے آج تک یہ خیال کر رہے تھے کہ آزاد کشمیر ایک ”ڈیفیکٹو“ سٹیٹ ہیمگر پھر عقدہ کھلا کہ یہ تو کوئی تجربہ گاہ ہے،اور انتہائی غیرمحفوظ بھی ہے،اگر امریکہ کی دلچسپی اس پر لاگو ہو تی تو نہ صرف اس کو رول بیک کرنے کے احکامات آچکے ہوتے بلکہ ذمہ داروں پر متعدد ”سینگشنز“ بھی لگ چکی ہوتیں، اب جب کہ ہم نے (پیارے وطن پاکستان نے) پیشگی اور ڈرون حملے کرنا سیکھ لیا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داراناور بالخصوص فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے یہ درخواست ہو گی کہ حق خودارادیت کے ملنے تک یہ آزاد علاقہ بھی آپ کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری میں ہے،پلیز ایک آدھ حملہ ان سیاسی دہشت گردوں پر بھی ہو جائے جو آئے روز عوام کا منڈیٹ خود کُش سیاسی حملوں سے تباہ و برباد کرتے رہتے ہیں،ہم آج چیئرمین جموں کشمیر کونسل سے بھی درخواست کریں گے کہ ایک آدھ آئینی ترمیم ریاستی آئین میں بھی متعارف کروا دیں جس کے تحت سیاسی دہشت گردوں کے خلاف بھی ڈرون حملے جیسی سیاسی کارروائیاں کی جا سکیں،اور آزاد علاقے میں عوام کے منڈیٹ اور سیاسی حکومتوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ اس لئے بھی چیئر مین جموں کشمیر کونسل اور وزیر اعظم پاکستان کی ذمہ داری ے کہ آزاد کشمیر کی اندرونی جنگ کی ساری تابکاری حکومت و عوام پاکستان کو بھی متاثر کرتی ہے، ان پچھلے دو سالوں میں ہونے والی فکری تابکاری کے اثرات دیکھ لیں،نقصانات دیکھ لیں،اس کے ذمہ دار یہ اجتماعی دانش کے ٹھیکیدار یہی ممبران اسمبلی تھے اور ہیں، اس ساری طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ سارے ذمہ داران جان لیں، آزاد جموں و کشمیر کے زمینی،معاشی و اقتصادی اور فکری بگاڑ کی مکمل ذمہ داری فیصلہ سازوں ان کو غلط انفارمیشن دینے والوں اور لاپرواہی سے منتخب کئے ہوئے آزاد علاقے کے حکمرانوں پر ہے،ہم کسی ایک شخص، انوارالحق، یا فاروق حیدر، یا چوہدری لطیف اکبر،یا کرنل وقار نور، یا شاہ غلام قادر، یا چوہدری یا سین، یا سردار یعقوب،یا فیصل راٹھور، یا سردار عتیق۔ یا حسن خالد ابرہیم،یا سردار عبدالقیوم نیازی کو قرار دینا نہیں چاہتے، مگر یا د رکھیں یہ سب کے سب پاکستان کے مجرم ہیں، ان کے اعمال کی وجہ سے پاکستان اور جمو کشمیر کے رشتوں کو ٹھیس پنہچی، اس میں دراڑیں پڑھنے کے خطرات لاحق ہوئے، دلوں میں قدورتیں پلنے کی بنیادیں بنائی گئیں، یہ جو ایکشن کمیٹی کو مودی کے بیانیہ کا ترجمان کہتے ہیں کیا ان سب نے پنی بیڈ گورنس اور عوامی استحصال سے بھارت کے بیانیہ کیلئے ماحول نہیں بنایا،زمین تیار نہیں کی، خداکا شکر ہے کہ مرکز کے بعض نادان وزرا کی تلخ بیانی کے برعکس ریاست کا ہر بیٹا بھارت اور مودی کو اپنا ازلی دشمن قرار دیتا ہے، کچھ جذباتی سردار امان جیسے نوجوان تھرڈ آپشن یا کسی خود اختیاری کی بات کرتے بھی ہیں،تو وہ بھارت نواز کیسے ہوگئے، حق خود ارادیت اور رائے شماری کا سبق تو پچھلے 78سالوں سے ہمارا پاکستان ہی تو ہمیں یا د رکھوائے ہوئے ہے، آج بھی ہر پاکستانی کشمیر کو متنازعہ علاقہ نہیں کہتا، کیا حکومت پاکستان نہیں کہتی، کیا اقوام متحدہ کی قراردادیں جن کی ہر روز حکومت پاکستان تکرار کرتی ہے وہ نہیں کہتیں، جب وہی سب جو آپ کہتے ہیں وہ ہمارا کوئی بھائی کہے تو اس پر مودی کی ترجمانی کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے، اور قارئین آپ جانتے ہیں کہ ایسے گھناؤنے بہتان سب سے پہلے ہمارے وہ اپنے ہی اپنے اقتدار کیلئے لگاتے ہیں جنہیں ہم نے بڑے چاؤ سے منتخب کر کے اپنی پارلیمنٹ میں بھجوایا ہوتا ہے، ان میں سے بھی کوئی کسی دشمن کا ترجمان نہیں ہو سکتا، ہاں البتہ اقتدار کی ہوس ان کے دماغ ماؤف کر دیتی ہے، اور وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑیاں چلانے لگتے ہیں، یا د رکھیں کوئی بھی جموں کشمیر کا باسی کبھی پاکستان کے خلاف نہیں ہو سکتا، ہاں وہ اپنے گھر کی بات کر سکتا ہے بالکل؛ ایسے ہی جیسے بھائی اوربچے اپنا علیحدہ مکان تعمیر کیا کرتے ہیں، اس بات کو جانے انجانے میں بڑے بھائی یا باپ کی دشمنی قرار دینا خاندانوں کو توڑنے اور برباد کرنے کی سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا، اب اجتماعی ادانش کا چان ماند پڑ چکا ہے ایسے میں میرا مشورہ ہے کہ خودکشمیری حکمران اور دیگر دوسر وں پر بے وفائی کا الزام لگانے سے خود پاکستان اور جموں کشمیر کے وفادار اور قابل اعتماد بننے کا راستہ اپنائیں، دعا ہے رب سبکو اسکی توفیق عطا فرمائے۔