
اکتوبر کا مہینہ جیسے ہی شروع ہوتا ہے ہر جمہوریت پسند اور محب وطن پریشان ہو جاتا ہے۔ 18 اکتوبر کوملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ جیسے ہی محترم بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی کے بعد کراچی میں قدم رکھا تو ملک دشمن عناصر متحرک ہو گئے۔ محترمہ کو ان دشمنوں کی سازشوں کی خبر بھی دی گئی مگر محترمہ نے عوام میں ہی جانا پسند کیا مگر جیسے ہی وہ عوام کے سمندر میں پہنچی تو خود کش حملہ آوروں سے اپنا کام شروع کر دیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جب ملک دشمن عناصر نے کراچی جیسے شہر جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے بے گناہوں کو خون سے نہلا دیا ان ملک دشمن عناصر کی سوچ انتہائی سطحی اور پست تھی ان ظالموں کا خیال تھا کہ ہم بزور طاقت محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشن کو سبوتا ڑ کر دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا ان بے گناہوں کے خون سے پیپلز پارٹی کے جوش و جذبہ میں مزید اضافہ کیا۔ لیکن دشمن باز نہ آئے وہ ہر صورت میں محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا کر جمہوریت کا سورج غروب کرنا چاہتے تھے مگر پی پی کی محبوب لیڈر نے اپنی جائنذرانہ دے کر پیپلز پارٹی کونئی زندگی بخشی۔ روز ازل سے ہی خیر اور شر کی قوتیں برسر پیکار ہیں۔ بظاہر شر اور ظلم زیادہ طاقت ور نظر آتا ہے اور بسا اوقات وہ کامیاب بھی نظر آتا ہے مگر خیر اور بھلائی کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر بار نئے جوش کے ساتھ ابھرتی ہے کے خبر کہ آج یزید کا نام لینے والا کوئی نہیں جبکہ ہر مسلمان سید نا حسین علیہ السلام کے ساتھ محبت اور مودت کا رشتہ قائم رکھنا ہی دنیا و آخرت کی کامیابی سمجھتا ہے۔ اسی طرح 18 اکتوبر 2007 کو شر کی جن قوتوں نے انسانی حقوق جمہوریت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے پاکستان آنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کیلئے سینکڑوں لوگ مار دیئے تھے آج وہ منہ چھپائے ہوئے ہیں جبکہ محترمہ کی یادگاران کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری ایک نئے ولولے اور جوش و جذبے سے ان کو للکار رہا ہے۔ اس موقع پر بلال بھٹو نے نہ صرف شہدائے 18 اکتوبر کے لواحقین کو احساس اپنائیت دیا بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کو بھی خبر دار کیا کہ عام آدمی کو حقوق دلانے کی جو جنگ اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی اور جس کیلئے اس کی ماں نے بھی اپنی جان قربان کر دی۔ وہ جنگ جاری ہے دہشت گرد اور رجعت پسند ہزار ظلم کر لیں ان کو جمہوریت کے ذریعے شکست دی جائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے 18 اکتوبر کو کراچی میں مزار قائد پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ جلسہ در اصل وہی ہے جو 18 اکتوبر 2007 کو نہ ہو سکا تھا اور دہشت گردی کے ذریعے 180 سے زائد کارکن شہید اور سینکڑوں زخمی کر کے وقتی طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کو پروگرام ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس رات محترمہ نے ایئر پورٹ سے مزار قائد اعظم پر آ کر خطاب کرنا تھا۔ یہ جلسہ اور یہ خطاب ایک قرض تھا بلکہ پیپلز پارٹی پر فرض تھا، جو شہید بی بی کے جانشین بلاول بھٹو اسی تاریخ کو پورا کرنے جارہا ہے۔ یہ دن نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان کے محروم اور مظلوم طبقوں کیلئے بھی ایک امید افزا دن ہے اور بی بی کی پارٹی کو ایک نیا جنم ملنے والا ہے سیاست میں گرما گرمی اور نئے دور کی نئی ضرورتوں کے تحت جس طرح نئے خون اور نئے جذبوں کی ضرورت ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی نوجوان قیادت کے ہاتھوں ایک نیا سفر شروع کرنے جارہی ہے۔ اگر چہ جلسہ کراچی میں ہو رہا ہے مگر پورے ملک میں جوش و خروش ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں اہل پاکستان کی افسوسناک اور خونی یادیں وابستہ ہیں۔ 15اکتوبر کے زلزلے کے زخم ہوں یا قائد ملت لیاقت علی خان کی 16 اکتوبر کو شہادت کا غم اپنی اپنی جگہ دلخراش ہیں مگر 18 اکتوبر 2007 کوال وطن نے جو قیامت دیکھی ہے اس کی یاد ایک مستقل درد بن کر دلوں میں جاگزین ہے۔ یہ وہ المناک تاریخ ہے جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا محور محترمہ بینظیر بھٹو ایک آمر وقت کے چنگل سے وطن کو آزاد کرانے کیلئے واپس آرہی تھیں۔ ان کی آمد پر خوشیوں سے سرشار لاکھوں جیالے کراچی میں موجود تھے کسی بھی سیاسی لیڈر کے استقبال کیلئے اتنے بڑے ہجوم کا یہ ایک ریکارڈ تھا۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ بھی محترمہ کا ہی تھا جو 1986 میں ان کی لاہور آمد پر قائم ہوا تھا۔ یہ عوام کی طرف سے پذیرائی اور محبت کی ایک ایسی مثال تھی جو کوئی دوسرا پیش نہیں کر سکتا۔ ایک طرف جانثاروں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر تھا تو دوسری طرف وطن اور عوام دشمن قوتیں بھی اپنی پوری خباثت کے ساتھ موجود تھیں۔ محترمہ کو پاکستان واپس آنے سے کئی بار منع کیا گیا مگر وہ اپنے وطن اور عوام کو بے رحم آمریت کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے تمام دھمکیوں اور خطرات کو پس پشت ڈال کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کو راستے سے ہٹانے کیلئے رجعت پسند قوتوں نے بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا تھا یہ ایک منظم سازش تھی جس میں حکمران اور طالبان دونوں شریک تھے۔ مقامی شہری انتظامیہ نے استقبالی جلوس کے راستے میں سٹریٹس لائٹس بند کر کے دہشت گردوں کو موقع دیا اور پھر ایک منٹ کے وقفے سے دو دھماکوں نے کراچی کو لہولہان کر دیا۔ 180 جانثار قربان ہو گئے جبکہ سینکڑوں معذور اور زخمی ہو گئے۔ یہ سانحہ ملکی تاریخ کا اندوہناک ترین سانحہ تھا اور سیاسی قربانیوں کی ایک لازوال مثال تھی۔ اگر چہ ان دھماکوں سے چند لمحے پہلے ہی محترمہ بینظیر بھٹو اپنے ٹرک کی چھت سے اتر کر نیچے آگئی تھیں جس وجہ سے وہ خود تو بیچ گئی مگر ایک طرف تو ان کا دل اپنے پیارے کارکنوں کی موت پر دکھ رہا تھا تو دوسری طرف وہ ایک نئے عزم کے ساتھ عوام کی آزادی کی جنگ لڑنے کو تیار ہوگئی تھیں اور پھر ظالموں نے کچھ ہی دنوں بعد لیاقت باغ راولپنڈی میں ان کو شہید کر دیا تھا مگر جس مقصد اور نظریے کیلئے محترمہ نے جان دی اس کی حفاظت اور جمہوریت کو بحال کرانے کیلئے جنگ ختم نہیں ہوئی۔ آج ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری کی نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی شہید ماں اور شہید نانا کا پرچم لے کر رجعت پسند قوتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑا ہے۔ 18 اکتوبر کے دن ہونے والے دھماکوں میں محترمہ بینظیر بھٹو اور پارٹی کی مرکزی قیادت اگر چہ محفوظ رہی تھی اور صرف عام ور کر اور کارکن ہی اپنی قائد پر قربان ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں یہ تاریخی روایت ہے کہ عام سیاسی ورکروں کی موت کو یا درکھا جاتا ہے نہ ہی ان کو اہمیت دی جاتی ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی روایت ہے کہ پارٹی کی اصل قوت ہی دور کر ہیں ان کو صرف انتخابی ہتھیار نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر لحہ ان کی خبر گیری رکھی جاتی ہے ان کے مسائل اور دکھ سکھ میں قیادت شامل ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر سال 18 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی ایک قومی سانحہ کے طور پر مناتی ہے۔ مرنے والوں کی مغفرت کیلئے دعا کے ساتھ ان کے لواحقین کو یاد کیا جاتا ہے زخمی اور معذور ہونے والوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد اپنی ماں کے جانثار ساتھیوں کو بڑی محبت اور اپنائیت سے پکارا ہے اور 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ رکھ کر دراصل اسی دن سے وابستہ یادوں کو تازہ کرنے اور اپنی عظیم ماں کے مشن کو مکمل کرنے کیلئے نئے جذبے کے ساتھ میدان میں اترنے کیلئے ہی منتخب کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس دن کو جمہوریت اور امن کے دشمنوں نے پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو ختم کرنے کیلئے چنا تھا اب وہ دن ایک نئی پیپلز پارٹی کی بحالی اور جمہوریت کیلئے ناقابل تسخیر قلعہ بنانے کا دن بن گیا ہے۔ بلاول بھٹو کی جوانی سے بھر پور للکار نے جہاں پاکستان اور جمہوریت کے اندرونی دشمنوں کو خوفزدہ کر دیا ہے وہاں بھارت کی جارح قیادت کو بھی بتا دیا ہے کہلا وارث ملک نہیں ہے پاکستان کی بقاء سلامتی اور جمہوریت کیلئے 18 اکتوبر کا دن ایک استعارہ ہے اور ایک نئی قیادت نئے جذبے کے ساتھ اس دن نئے پاکستان کی بنیا درکھنے جا رہی ہے۔ پاکستان مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کے قتل کا یہ سلسلہ 1300 سال پرانا ہے۔ اس فرقہ بندی اور مخالفتوں نے اسلام کی صدیوں پرانی نشاۃ ثانیہ اور روایات کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ شدت پسندی اور فرقہ پرستی نے مسلمانوں کے اس دور کی عظیم الشان روایات کو بھی تباہ کر دیا جب یورپ اندھیرے دور سے گزر رہا تھا اور مسلمانوں کے پاس بہترین یونیورسٹیاں، فلسفی، عالم، سائنسدان اور طبیب موجود تھے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کا مشاہدہ عراق، شام اور افغانستان کی صورتحال سے کیا جاسکتا ہے جہاں مختلف فرقہ پرست گروپ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ایک احمقانہ خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ موجودہ عراق کا کمزور پہلو وہ فرقہ بندی ہے جس کے ذریعے اس ملک کے قلب میں شگاف ڈالنے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس وحشیانہ جنگ کو دنیا کے دوسرے علاقوں خصوصاً پاکستان تک وسیع کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ہم اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ مغربی ریسرچ سینٹر ز طویل عرصے سے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ترکی سے پاکستان تک مسلم کمیونٹی میں مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے خلاف نفرت و حقارت میں اضافہ ہو رہا ہے، عراق کی جنگ کو بھی اس نفرت میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ فلسطین کی صورتحال بھی اس نفرت کی ایک اہم وجہ ہے۔ دوسروں پر الزام دھرنا بہت آسان ہے کہ ان کی وجہ سے ہمارے لیے مشکلات یا پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں جبکہ ہم میں کو کیسے کوئی بھی اپنی کوتاہیوں اور ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ نئی کالونیاں قائم کرنے کی مغربی خواہشات کا بھی مسلمانوں کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پر چل دینے، ان کے وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہشات اور پالیسیوں نے بھی مغرب سے متعلق مسلمانوں کے رویے اور رجحانات پر اپنا اثر چھوڑ ا ہیاس بارے میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلم اقوام کے حوالے سے مغرب کا ریکارڈ قابل ستائش ہر گز نہیں رہا۔ لیکن کیا بے بیرونی مداخلت ہی مسلم دنیا کی موجودہ حالت زار کے واحد ذمہ دار ہیں؟ اگر چہ یہ بہت آسان نسخہ ہے کہ تو آبادیاتی نظام اور بیرونی مداخلت کاروں پر اس کی ذمہ داری ڈال دی جائے لیکن مسلم دنیا کو اس بارے میں اپنے اندر جھانک کر یہ جاننا چاہیے کہ اس صورتحال کی وہ خود کس حد تک ذمہ دار ہے۔ یہ ایک مشکل لیکن ناگزیر کام ہے کہ ایک حقیقی دانشورانہ مباحثے کا اہتمام کیا جائے جس کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کی جائے کہ مسلم دنیا کو معاشی پیداوار ٹیکنیکل اختراعات اور تخلیقی صلاحیتوں کے حصول میں کیا مشکلات درپیش ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مسلم دنیا کا فخر اور طرہ امتیاز ان کی اقتصادی صلاحیتیں نئی ٹیکنیکل ایجادات یا دانشورانہ تخلیقی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ یہ تمام عناصر مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور ماضی کا ورثہ تو ضرور ہیں لیکن حال کے آئینے میں ان کا عکس نظر نہیں آتا۔ کئی صدیاں پہلے اہل فارس، اسپین اور چند سو سال پہلے تک مغل سلطنت کے عروج تک تو مسلمان اس قابل فخر ورثے کے مالک تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی شناخت زیادہ تر منفی عناصر پر منحصر ہے مثلاً دشمن کو مار گرانا اور قوم کو ویسٹ کے حملوں کے خلاف مضبوط بنانا یہ بھی حقیقت ہے کہ دو طرفہ طور پر بظاہر تصیح و بلیغ لیکن دراصل زہریلی تقریریں، باتیں اور بیانات اسلام اور مغرب کے مابین تہذیبوں کی جنگ کا باعث بن رہے ہیں دوسری طرف مغرب کی عسکری اور سیاسی پالیسیاں بھی اس تصادم کے برپا ہونے کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہیں۔ یہ مغرب پالیسیاں ہمیشہ بحیثیت قوم مسلمانوں کو بیرونی دشمنوں کی جانب سے ایک غصے کی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہیں۔ گویا مغرب کی یہ معاندانہ پالیسیاں ایک ایسا مخصوص نشہ ہے جسے پلا کر مسلم دنیا کو ہمیشہ ایک جارحانہ موڈ میں رکھا جاتا ہے اور اسی موڈ میں مسلمان اپنے اندرونی دانشورانہ تخلیقی اور اقتصادی زوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر اس پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے مسلمان رہنماؤں اور دانشوروں کی ایک خاموش اکثریت عراق اور دیگر مسلمان ممالک میں بیرونی مداخلت اور اس کے نتیجے میں مسلمان آبادی کو پیش آنے والی مشکلات پر سخت تشویش میں مبتلا ہے لیکن وہ کھل کر اس کی مذمت اس لئے نہیں کر سکتے کیونکہ خود مسلمان بھی آپس میں دست وگریباں ہیں۔ بیرونی مداخلت پر تنقید سیاسی طور پر اس صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب اس بارے میں اندرونی طور پر بھی اتحاد اور اتفاق موجود ہو بد قسمتی سے مسلمان اس حوالے سے خاصے کمزور ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ڈار فر کی صورتحال کو دیکھیں تو وہاں حقیقی طور پر مسلمان آبادی کی نسل کشانہ کارروائیاں جاری ہیں لیکن اس پر نہ تو کوئی احتجاج سامنے آتا ہے اور نہ ہی عرب یا ساؤتھ ایشین میڈیا ان مظالم کی مناسب کو ریح کرتا ہے۔ ایسی فصیح و بلیغ لیکن زہریلی یا تین اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبوں کی جنگ کا باعث بنتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح مغربی عسکری یا سیاسی پالیسیان ایسے تصادم کا باعث بنتی ہیں یہ ایک ایسا نشہ کا کام کرتی ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ غصے میں رکھتا ہے بیرونی دشمنوں کی طرف سے، جس کی وجہ سے مسلمان اپنے اندرونی دانشورانہ اور اقتصادی زوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ حقیقت اور دانشورانہ ایمانداری کا تقاصہ ہے کہ ہم سکے کے دونوں رخ دیکھیں۔ وہ جلتے ہوئے جڑواں ٹاورز اس بات کا مظہر بن چکے ہین اندرون اسلامی بحث کا سیاسی اور اقتصادی ویلیوز، جمہوریت اور روشن خیالی کے درمیان اور ایک ایسے کھلے جھگڑے کا خطرہ جس کے بعد اسلام اور مغرب کے درمیان کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو جائے گا محترمہ بنظیر بھٹو جب 1986ء میں 2 سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دار الحکومت لاہور پہنچی تو 10 لاکھ افراد پر مشتمل ایک جوشیلا ہجوم میرے خیر مقدم کیلئے موجود تھا ایک ملین عوام کا یہ ہجوم در اصل آمریت کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ایک نا قابل فراموش منظر تھا، استقبالی ہجوم میں پاکستان کے ہر حصے سے آنی والی غریب محنت کش، طلباء وکلاء اور سول سوسائٹی کے دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے یہ تمام لوگ اس دس سالہ ہولناک آمریت کے خلاف جمہوری قوتوں کا ایک مظہر تھے جس نے پاکستان کے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور اب جبکہ 21 برس بعد یہی منظر دوبارہ دوہرایا جانے والا تھا تو مجھے بخوبی اس بات کا احساس تھا کہ دبئی سے میری وطن واپسی پر میرے استقبالی ہجوم کی وسعت کا موازنہ یقینا 1986ء کے استقبال کے ساتھ کیا جائے۔ 18 اکتوبر کا قافلہ جمہوریت کا قافلہ تھا جس میں 3 ملین افراد شامل تھے 18 اکتوبر کا وہ دن جب میں نے جہاز کی سیڑھیوں سے اپنے قدم پاک سرزمین پر رکھے تو لاکھوں افراد کا ایک استقبالی ہجوم میر امنتظر تھا۔ ان میں پڑھے لکھے نا خواندہ ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے جو ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر طے کر کے یہاں پہنچے تھے ان کے بے پناہ جوش اور جذبے میں مجھے پاکستان کے اچھے مستقبل کے لیے دیکھے گئے میرے خوابوں کا عکس نظر آ رہا تھا۔ یہ ہجوم پاکستان کے ان کروڑوں لوگوں کی ان خواہشات کا مظہر تھا جو ملک کو آمریت سے جمہوریت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ واقعی ایک دم بخود کرنے والا منظر تھا اور یہ منظر بہت سے پاکستانی ٹی وی چینلوں کے ساتھ ساتھ براہ راست BBC اور CNN سے بھی پوری دنیا میں دیکھا جا رہا تھا۔ پوری دنیا اس نظارے کا مشاہدہ کر رہی تھی عوام کے جوش و خروش سے یہ ظاہر ہوتا تھا گویا انہیں ایک نئی زندگی مل گئی اس سال ملک میں سیلاب کی صورت حال ہے۔ سیلاب نے تباہی مچادی لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، ہزاروں پانی میں ڈوب گئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی۔ سیلاب سے متاثرہ پر افراد کی بحالی حکومتوں کی اولین کی ترجیح ہوتی ہے۔ اس وقت سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں میں صوبہ سندھ بھی شامل ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت اس قیامت کی گھڑی میں سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑی ہے۔ مگر وہ شہدائے 18 اکتوبر کو بھی فراموش نہیں کر پار ہیں۔