کالمز

پاکستان کہاں ہے؟

چندبرس پہلے ہمارے ہاں ایک لفظ ”گیم چینجر“ کے چرچے تھے۔میڈیا اور حکمران سب صبح وشام اس اصطلاح کی مالا جپتے تھے۔پاک چین اقتصادی راہداری دنیا کے متبادل پول بننے کی طرف ایک اہم ترین قدم تھا۔پاکستان اس بارات کا دولہا تھا۔چین نے ایک بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں نئے امکانات اور توقعات کا باعث بن رہی تھی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بے مقصد لڑائی میں پاکستان اپنا وجود گھائل اور زخم زخم کر بیٹھا تھا۔تجارتی سرگرمیوں میں تیزی امن وامان کی صورت حال میں نمایاں بہتری اور سری پیک کی تعمیراتی سرگرمیوں کے باعث بیس برس کے زخموں پر مرہم رکھے جانے لگے تھے۔پاکستان مشرق اور مغرب کو جوڑنے کے لئے ایک پُل بننے کے پنہاں پوٹینشل کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔افغانستان میں ایک موافق حکومت کے قیام کے امکانات نوشتہ ئ دیوار تھے یہ ایک بڑا اخلاقی سہارا تھا۔اس سے پاکستان کی خطے میں تزویراتی برتری اور معاشی استحکام کے منصوبے اور خواب وابستہ تھے۔خیال تھا کہ بھارت افغانستان اور وسط ایشیا سے زمینی طور پر جڑنے کے لئے پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرکے کشمیر سمیت تاریخی تنازعات کے بامعنی حل پر مجبور ہوگا۔چین پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مضبوط ثالث بننے کی تیاریاں کر رہا تھا۔چین اس خطے کا ملک تھا اور وہ امن کو ذہنی عیاشی اور وقت گزاری کے لئے استعمال نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اپنی دوہمسایوں طاقتوں کے درمیان امن او رجنگ دونوں سے وہ براہ راست متاثر ہو تا ہے افغانستان میں حقیقی امن کی بات ہو یا بھارت کے ساتھ امن کے منصوبے یا جنگ کا خدشہ خطے کی ترقی کا کوئی بھی معاملہ ہو یا مسلما ن دنیا کو درپیش مسائل کی بات ہو پاکستان واقعی ایک فعال کردار کے ساتھ اپنا تعارف کرارہا تھا۔اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے پاکستان کا اول تا آخر حوالہ دہشت گردی کے واقعات ہی تھے۔مغربی میڈیا نے پاکستان کا دوسرا نام ہی دہشت گردی رکھ چھوڑا تھا۔پاکستان کا یہ تعارف اور حوالہ بیرونی دنیا میں پاکستانیوں کو منہ چھپانے پر مجبور کرتا تھا۔بیرون ملک کام کرنے والے نوجوان بتایا کرتے تھے کہ وہ اپنی پاکستانی شناخت کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔اس شب سیاہ سے نکل کر پاکستان ایک نئے تعارف اور نئے حوالے کے ساتھ پہچانا جانے لگا تھا۔پھر یہ ہوا اس سے پہلے کہ گیم چینج ہوجاتی ہم خود ہی بدل گئے۔ہماری ٹرین کا کانٹا ہی بدل گیا۔اب بھی پاکستان کے گردوپیش میں تیز رفتار سرگرمیاں جاری ہیں مگر پاکستان ان میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان حکمرانوں کے دعوؤ ں میں بہت اوپر جارہا ہے مگر خطے کی معاشی سرگرمیوں اور ارتباط اور مواصلت جسے انگریزی میں Conectivityکہا جاتا ہے کے عمل میں پاکستان نظر نہیں آتا۔سی پیک اس کی مواصلت کی کلید تھا مگر کاشغر سے گوادر تک ایک سڑک تو موجودہے مگر وہ تجارتی سرگرمیوں سے خالی ہے۔گوادر میں ایک بھاری بھرکم انفراسٹرکچر تو کھڑا ہوگیا ہے مگر اس کے پانیوں پر عالمی مال بردار جہازوں کی آمد ایک خواب وخیال ہو کر رہ گیا ہے۔مواصلت کا افسانہ تو تکمیل کو کیا پہنچنا تھا یہاں تو پاکستان بھارت کے بعد افغانستان جیسے ہمسائے سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا۔ایران سے پہلے ہی واجبی سا جائز تجارتی تعلق ہے اور یوں دوقریب ترین ہمسایوں سے جن کی سرحدیں ہزاروں میل بنتی ہیں مکمل طور پر کٹ جانا معاشی مستقبل کے حوالے سے قطعی اچھا نہیں۔ایسے میں مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لے کر بیرونی دنیا کا رخ کر رہا ہے چہ جائکہ کہ باہر سے کوئی سرمایہ کار یہاں آنے کا فیصلہ کرے۔اب گیم یوں چینج ہو گئی ہے کہ عالمی اور علاقائی مواصلت یا کنیکٹیوٹی خود محصوری یاقرنطینہ میں بدل گئی ہے اور آج پاکستان کا حوالہ یا تو یہاں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں یا پھر اس ملک کا نام معاشی منصوبوں اور ترقی کی بجائے جنگوں کے ساتھ جڑ گیا ہے۔قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی دہشت گردی،بھارت سے جنگ،یوکرین کی جنگ اور اسلحہ کی فراہمی کی کہانیاں،غزہ میں سٹیبلائزیشن فورس کے نام پر ڈی سٹیبلائزیشن کے عمل میں حماس کو غیر مسلح کرنے کا کردار آج پاکستان ان حوالوں سے مشہور ہے۔حماس کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ نیا نہیں یہ اوسلو معاہدے کے وقت کا منصوبہ ہے۔یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کی سربراہی دے کر حقیقت میں اسرائیل کی ایک ایسی پولیس فورس کا سربراہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جو اسرائیل کی راہ کے کانٹوں کو پلکوں سے چنے گا۔یاسر عرفات ایک زمانہ شناس شخص تھے انہوں نے اسرائیل کا پولیس مین بن کر حماس کوکچلنے یا غیر مسلح کرنے سے انکار کیا تو یہی ان کی پراسرار موت کا باعث بنا۔علاقائی اتباط اور تجارتی ترقی کے حوالے سے دو اہم خبروں نے ہر پاکستانی کو متحیر اور اُداس کیا ہوگا۔ان میں پہلی خبر یہ تھی کہ چین اور افغانستان نے اتفاق کیا ہے کہ دونوں کو فیض آباد بدخشان تا شکر گس سنکیانگ تک براستہ واخان ملانے کے لئے ایک ہمہ موسمی جدید موٹر وے تعمیر کی جائے گی۔اس منصوبے پر پانچ سو بلین ڈالر کی لاگت متوقع ہے۔چین اس منصوبے کی تکنیکی معاونت اور سرمایہ فراہم کرے گا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوا کر ے گا۔یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سے معاشی روابط مستحکم ہونے کے علاوہ تجارت بھی ہوگی اور انفراسٹرکچر کا ایک انقلاب آئے گا۔دوسری خبر ایران آبزور نے دی ہے جس کے مطابق خطے کے پانچ ملکوں کو تجارتی سرگرمیوں کی خاطر ملانے کے لئے چھ سو ستاون کلومیٹر طویل ہرات مزار شریف کوری ڈور کام کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔اس منصوبے کے حوالے سے ایران افغانستان اور ترکی میں معاہدہ ہوچکا ہے۔یہ شاہراہ وسط ایشیا،افغانستان اورچین کے درمیان ہونے والی تجارت کے لئے ایران کو اہم ٹرانزٹ حب بنا دے گی اور ایران کو علاقائی منڈیوں تک رسائی ملے گی۔یوں ان دو منصوبوں میں ہمارا ہمہ موسمی اور ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی کا حامل چین تو نظر آرہا ہے اور ہم کہیں نہیں۔ہمارے دوست نے بھی شاید ہی یہ تصور کیا ہے کہ کبھی اسے مواصلت اور ترقی کے اہم علاقائی منصوبوں میں ہمارے بغیر آگے بڑھنا پڑے گا۔ہم نے بھی چند برس پہلے تک یہ سوچا نہ تھا کہ ایک بار پھر ہمارا راستہ اور ہمارا حوالہ سب کچھ بدل جائے گا۔مجبوریاں شوق ہی نہیں کھاتیں افراد یا قوموں کے خواب بھی چھین لیتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button