
27 دسمبر پاکستانی سیاست کا وہ سیاہ دن ہے جس دن جمہوریت کی روشن شمع، عوام کی آواز اور مظلوموں کی امید محترمہ بینظیر بھٹو شہید کر دی گئیں۔ وہ صرف ایک سیاسی رہنما نہیں تھیں بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمت اور ایک عہد تھیں جو آمریت، جبر اور ناانصافی کے خلاف سینہ سپر رہیں۔ انہوں نے قید و بند، جلاوطنی اور جان کے خطرات کے باوجود عوام کے حقِ حکمرانی سے دستبردار ہونا قبول نہ کیا۔بینظیر بھٹو شہید نے ہمیشہ محروم طبقات، خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی بات کی۔ آزاد کشمیر بھی ان خطوں میں شامل تھا جہاں پیپلز پارٹی نے قربانیوں، جدوجہد اور جمہوری شعور کی بنیاد رکھی۔ مگر آج المیہ یہ ہے کہ جس پارٹی کی بنیاد شہداء کے لہو سے مضبوط ہوئی، اسی پارٹی کے مخلص، نظریاتی اور قربانی دینے والے کارکن شدید محرومیوں کا شکار ہیں۔آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت ہو یا پارٹی کی بالائی قیادت، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مظفرآباد سمیت پورے آزاد کشمیر کے جیالوں کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ وہ کارکن جنہوں نے مشکل ترین ادوار میں پارٹی کا پرچم تھامے رکھا، آج اقتدار کے ایوانوں سے باہر کھڑے ہیں۔ یومِ شہادت پر بینظیر بھٹو کے فلسفے کی بات تو کی جاتی ہے، مگر ان کے ویژن کے امین کارکنوں کی عملی قدر نہیں کی جاتی۔مظفرآباد کے وہ جیالے جنہوں نے ہر دور میں پارٹی کا دفاع کیا، آج سوال کرتے ہیں کہ کیا یہی وہ پیپلز پارٹی ہے جس کا خواب محترمہ بینظیر بھٹو نے دیکھا تھا؟ فرید غازی، ایل بی فاروقی، شوکت خاکسار، محترمہ بلقیس رشید منہاس ایڈووکیٹ، خورشید اعوان، ملک عبدالحی، طارق خان مغل، راجا شفیق خان، شازیہ بٹ، شگفتہ نورین کاظمی، شبنم صداقت اعوان،پرویز چوہدری،سردار نصیر حیدری،تنویر قریشی،شائق الحسن گیلانی،شجاعت کاظمی،قلب عباس سبزواری،یاسر جوش اور بے شمار دیگر کارکنان ایسے نام ہیں جن کی جدوجہد، وفاداری اور قربانیوں سے انکار ممکن نہیں، مگر اقتدار کی تقسیم میں ان کا ذکر تک نہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آمریت کے دنوں میں لاٹھیاں کھائیں، دھمکیاں برداشت کیں، مالی و سماجی نقصانات سہے، مگر پارٹی سے وفا نہ توڑی۔ آج ان کی محرومیاں پیپلز پارٹی کے اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں۔ بینظیر بھٹو شہید کا فلسفہ صرف تقاریر اور بینرز تک محدود نہیں تھا بلکہ عملی انصاف، کارکن کی عزت اور میرٹ کی بالادستی ان کے مشن کا حصہ تھی۔
یومِ شہادت پر اصل خراجِ عقیدت یہی ہے کہ آزاد کشمیر میں پارٹی قیادت اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لے، مخلص کارکنوں کو دیوار سے لگانے کی روایت ختم کرے، اور مظفرآباد سمیت تمام اضلاع کے جیالوں کو وہ مقام دے جس کے وہ حق دار ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ دن صرف ایک رسمی تقریب بن کر رہ جائے گا اور بینظیر بھٹو شہید کے نظریے سے ناانصافی ہوتی رہے گی۔بینظیر بھٹو شہید کا پیغام آج بھی زندہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس پیغام کے امین بننے کو تیار ہیں؟سلام شہیدِ جمہوریت،سلام جیالوں کی ماں،
سلام محترمہ بینظیر بھٹو شہید۔




