
سعودیہ عرب مسلم ممالک میں جدید ترقی کی جانب گامزن ہے۔اس حوالے سے سعودیہ عرب میں گوبل ہماہنگی کلچرل دن منایا گیا۔اس کلچرل ویک میں پوری دنیا کے ممالک کے درمیان رابطے کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا گیا۔اس مقصد کے لیے سعودیہ عرب کے دارلحکومت ریاض کے ایک پارک میں ہر ہفتے ایک ملک کا کلچرل ویک کا انعقاد کیا گیا۔جس میں اس ملک کے لباس رہیں سہن کے طریقے اور آپ پر بولنے جانے والی زبانوں پر مشتمل لوک فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔اس کلچرل ویک پر بنگلہ دیش۔انڈیا
۔پاکستان۔ملائیشاء۔انڈونیشا۔۔مالدیپ۔اور دیگر اسلامی ممالک نے شرکت کی۔اس کلچرل ویک پر ایک ہفتے پاکستان کے کلچرل کا ہفتہ منایا گیا۔اا کلچرل ویک کو بھر پور طریقے سے منانے کے لیے پاکستان سے بھی فنکاروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ابرار الحق کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گی تھی۔سعودیہ عرب میں رہنے والے ہزاروں پاکستانیوں نے اس کلچرل ویک میں شرکت کی۔۔اس کلچرل ویک پاکستانی کلچرل اور پاکستانی معاشرے میں استعمال رہنے والے تمام ضروریات زندگی کی اشیاء رکھی گئی تھی۔پاکستانی لباس منفرد پہچان بنا۔۔۔خواتین کے زیر استعمال زیور کی مختلف اقسام رکھی گئی تھی۔دکان میں لگے ٹرک کے ماڈل اور دکان پر پان کھانے کا مخصوص سٹائل۔۔۔چاروں صوبوں کا کلچرل۔۔۔سندھ۔۔پنجاب۔۔۔بلوچستان۔۔کے پی کے مخصوص کپڑوں میں ملبوس فنکاروں نے اپنے علاقے کے پر ڈانس اور خوشی کا اظہار کیا۔۔اس کلچرل ویک کی کوریج کے لیے مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔۔سعودی حکومت کی جانب سے اس کی کوریج کا اہتمام کیا گیا۔۔میں نے ریاض کی ترقی کا اندازہ وہاں کی ٹریفک اور بلڈنگ کے تعمیر سے لگایا۔رات بارہ بجے بھی سڑک پر ٹریفک تھی۔۔لیکن میں نے ایک ہارن کی آواز نہیں سنی۔۔۔مجھے وہاں وزارتِ انوسمنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا لیکن آپ کو ٹریفک کے بہاؤ میں کوء رکاوٹ نظر نہیں آئی۔مجھے پورے سعودیہ عرب میں پولیس نظر نہیں آء لیکن وہاں پر قانون ہر جگہ نظر ایا۔اپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں تاکہ سب کو اندازہ ہو کہ قانون کس کو کہتے ہیں۔۔۔مجھے اور میرے ساتھیوں نے واپسی پر ریاض ایئرپورٹ آنا تھا وہاں پر موجود میزبان نے ایک جگہ سے آگے جانا تھا لیکن اس کا آفس کارڈ ایک مرتبہ استعمال ہو چکا تھا اس پر ہمارا ایک ساتھی کراس کر گیا لیکن باقی افراد رک گیے۔وہاں پر موجود اہلکار نے کہا ایک کارڈ پر صرف ایک فرد ہی کراس کر سکتا ہے باقی کے ٹکٹ لیے جائیں۔اس میزبان نے بتایا کہ میں فلاں ہوں اور یہ سعودی حکومت کے مہمان ہیں لیکن اس اہلکار نے یہ بات نہیں مانی اور ہمیں دوسرے راستے سے بس کے ذریعے جانا پڑا۔سعودیہ عرب کی ترقی دیکھتے جائیں تو ریاض کے اندر عمارتوں کی نقشے دیکھیں ایک ایک عمارت دوسری سے مختلف اور بلند بالا۔۔۔۔کوء عمارت دس منزلہ سے شاہد ہی کم ہو۔کنسٹرکشن جاری ہے لیکن کسی بھی طرح سڑک پر ملبہ نہیں ہے نہ کوئی ٹریفک بند کی گی ہے۔لیکن جدید لفٹ کاسسٹم نظر آیا۔۔۔ نہ لوڈ شیڈنگ نہ ٹریفک جام۔۔۔اس موقع پر ریاض میں موجود ہمارے پرانے دوست ناصر آغا سے ملاقات ہوئی۔۔جہنوں نے اپنی میزبانی کا حق بھی ادا کیا۔۔۔ایک ہفتے جاری رہنے والے اس ویک میں پنجاب کے فنکاروں نے اپنے روایتی گانے اور رہین سہن کو پیش کیا۔۔اس پورے دورہ سعودیہ عرب میں جائیں اور عمرہ نہ کریں ایسا ممکن نہیں تھا۔۔لہزا میزبان ملک سعودیہ عرب نے اس مذہبی فریضہ کو بھی مکمل کرنے میں بھر پور تعاون کیا۔ہوٹل سے مکہ روانگی سے قبل ہی عمرے کے لیے احرام اور دیگر چیزیں میزبان کی طرف سے دے دی گیں۔ریاض سے مکہ بذریعہ ہوائی جہاز پھر وہاں سے بہترین قیام کا انتظام۔۔۔مسجد الحرام چند قدم پر تھی۔۔۔عمرہ ادا کیا اور سر منڈنے کے بعد احرام کھول دیا
گیا۔۔۔بہت کوشش کی حجراسود کو چوما جایے لیکن رش زیادہ تھا۔۔۔قیام گاہ واپس آیے۔۔۔اب آرام کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ صبح ہم۔نے مدنیہ منورہ جانا تھا۔۔۔وقت کی پابندی نہ کرنے پر افسوس بھی ہو رہا تھا۔۔اگلے صبح ہم سب اپنی گاڑیوں میں سوار تھے پھر مکہ سے مدنیہ منورہ ٹرین پر گیے
۔ٹرین۔کی سپیڈ تین سو کلومیٹر تھی۔۔۔ایک ڈیڑھ گھنٹے میں مدینہ پہنچ گیے۔۔۔نماذ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔۔سامان قیام گا ہ میں رکھ کر نماز مغرب ادا کی۔۔مئن نے بھی باقی افراد کی طرح ریاض سے ہی ریاض الجنہ میں نوفل ادا کرنے کی کوشش میں ایپ پر دراخوست کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن شاہد ممکن نہ ہو سکا۔۔۔خیر پھر نماز مغرب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادا کی اور عشاء کی نماز وہاں ادا کی۔۔۔۔۔۔نماز تہجد کی اذان کے ساتھ ہی دوبارہ مسجد نبوی چلا گیا اور نماز تہجد ادا کی نماز فجر ادا کی اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی۔۔اس کے بعد دکھے دل کے ساتھ واپس کا سفر شروع کیا گیا۔۔۔۔اس امید کے ساتھ انشاللہ زندگی رہی تو دوبارہ آئیں گیے




