تباہ کن آبی ذخائر پر پیشگی حملہ

پاکستان نے بھارتی آبی جارحیت کورکوانے کیلئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کر دی ہے، یہ اپیل کافی دن پہلے کر دی جانی چاہئیے تھی لیکن پاکستان نے ہمیشہ کی طرحصبر و تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے دیکھا کہ شاید بھارت کی انسانیت جاگ جائے مگر جن کے ضمیر ہی مردہ ہو چکے ہوں اور جو انسانیت کے بجائے ہندوتوا پر یقین رکھتے ہوں ان کے جاگنے کی امید کرنا ہی غلطی ہو گی اور دنیا چاہے پھر کوئی پاگل پن کرتے ہوئے اُلٹا پاکستان کو ہی صبر کی تلقین کرے مگر اب پاکستان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ ایک مستقل تلوار اپنے سر پر لٹکتی برداشت کرنے کے بجائے جدید دنیا کے جدید اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنا کام کر جائے یوں بھی کسی مسلمان کو ایک تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال سامنے کرنے کی با لکل اجازت نہیں، بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا اس کی ملی، مذہبی،اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سوپر امریکہ نے اسرائیل کی مدد کرتے ہوئے ایرانی ایٹمی پلانٹس پر حملہ کر کے انہیں تباہ کر دیا اور پوری امن وآزادی کی دعویدار دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، حتیٰ کہ اسلامی دنیا اور او آئی سی نے بھی معترض ہونے کی جرات نہیں کی، بنیادی اس کی وجہ ایٹمی ہتھیاروں کا تباہ کن ہونا او ر ممکنہ طور پر دنیا کی بربادی کا باعث بننا ہو سکتا تھا، اسی طرح خطرات کے پیش نظر دوسرے ملکوں کے اندر تک جا کر پیشگی حملے اس بنا پر کرنا کہ وہاں کسی بھی ملک کے بارے کوئی سازش پنپ رہی ہے، اب قطر جیسے بے ضرر ملک کو بھی نشانہ بنا کر فلسطینی رہبروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، پاکستان پر بھارت کی طرف سے سر جیکل سٹرائیک کی غلطیاں بھی اسی مفروضے کی بنا پر کی گئی تھیں،دنیا نے اسے درست مانا، فرضی طور پر ہم بھی تائید میں سر ہلا دیتے ہیں اور پھر یہ سوال پوچھتے ہیں امن کے بڑے دائیوں امریکہ، برطانیہ، فرانس،جاپان،کنیڈااور وغیرہ وغیرہ کے علاوہ بغل بچہ اسرائیل سے اور پھر تائید طلب نگاہوں سے چین اور رؤس کی طرف بھی دیکھ لیتے ہیں،تو دیکھتے ہیں کہ جواب کیا ملے گا، آپ سب جانتے ہیں کہ اس کا جواب کیا ہو گا،اس نام نہاد گلوبل ویلیج میں آج تک سوائے امریکہ اور اسرائیل اور بھارت کے باقی سب کیلئے جواب صرف ”نہ“ ہے، نو نو میں سلامتی کونسل کے مستل ممبران کی بات نہیں کر رہا، وہ سب تو شیر ہیں، اب شیر چاہے انڈے دے یا بچے اس پر کوئی اعتراض یا تبصرہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں،۔۔۔ ارئین اکرام یہ ساری رام کہانی سنانے سے میرا مقصد صرف آپ سب کی بشمول گلونل ورلڈ کے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ حالیہ موسمیاتی تبدیلی، کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب کی آڑ میں بھارت نے پاکستان پر جو ہولناک اور تباہ کن آبی جار ہیت کی ہے،اور جس طرح سے اچانک بڑے بڑے ڈیموں کے ”سپل وے“ کھولنے اور پاکستان کو اکثر بے خبر رکھ کر جو دہشت گردی کی ہے اس کے بعد کیا یہ ہمارا حق نہیں بنا بلکہ کیا یہ ہم پر فرض نہیں ہوگیا، کہ اس سازش اور ہماری تباہی و بربادی کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد کے خلاف پیشگی حملہ کر کے اس کے دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ملیا میٹ اور تباہ کر دیا جائے، اور سہولت کاروں کے ساتھ ساتھ ماسٹر مائنڈ کو بھی ٹارگٹ کر کے ٹھکانے لگا دیا جائے، امریکہ،برطانیہ، فرانس،جاپان، چین اور امریکہ کی طرح ہم کو بھی جینے کا حق ہے، اور جو ہم سے یہ حق چھیننے کی سازش کرے اس کی زندگی چھین لینے کا بھی حق ہے،اور یاد رکھیں کہ اس مسلسل خطرے کو برباد کرنا بحیثیت گلوبل ویلج کے ایک پاٹنر کے ہمرا حق اور بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے، قارئین میرے مشورے کو کسی حملے یااٹیک کی نظر سے دیکھنے کے بجائے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں،دیکھیں جب کوئی سیلابی ریلا آجاتا ہے تو ہم کسی بڑے شہر یا قصبے کو بڑے نقصان سے بچانے اور پانی کو رستہ دینے کیلئے خود اپنے نہری بند نہیں توڑتے، بالکل ایسے ہی میں اپنے وطن کے پاسبانوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ ملک کو بچانے کیلئے ایسے تمام آبی ذخائر محتاط انداز میں اس حد تک توڑ ڈالیں کہ وہ کل کو پھر ہمارے کھیتوں کھلیانوں، آبادیوں،انسانوں کیلئے خطرہ نہ بن سکیں، ایسا نہ کرنا ہماری ملی کوتاہی ہوگی اور آنے والا مورخ ہمارے ذمہ داروں کو کبھی معاف نہیں کر سکے گا، میں اس وقت کسی سندھ طاس معاہدے یا کسی عالمی پالیسی کی بات نہیں کر رہا میں تو اپنے وطن کے باسیوں کی زندگیاں بچانے کی بات کر رہا ہوں، ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب 6اور7مئی کی درمیانی شب دنیا کی سب سے بڑی ”جمہوریت“ کا دعوہ کرنے اور کہلانے والوں نے صرف اس مفروضے پر کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کی کچھ مسا جد میں اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے یا وہاں پلوامہ اور پہلگا حملہ کی سازش ہوئی تھی ایک بڑی سٹرائیک کرتے ہوئے بھارت نے بلا سوچے سمجھے خطرناک میزائل داغ دیے اور عالمی دھشت گرد اسرائیل سے حاصل کئے ڈرون بھیج دیے، اور مساجد کے بعد فوجی کیمپوں کو بھی نشانہ بنانے کا جرم بلکہ گناہ کر ڈالا، پھر اس گناہ کی جو سزا میرے شاہینوں نے اسے دی وہ تو تا دیر اسے یاد رہے گی اور وہ برسوں لگنے والے جوابی زخموں کو چاٹتا رہے گا، لیکن قارئین اور عالمی دانشورو آپ سب کی آنکھوں کے سامنے یہہوا، اور دنیا نے جھوٹے منہ بھی بھارت کو سرزنش کی وارننگ تک بھی نہیں کی، کیوں؟ اس لئے کہ اس مکار کی خطرے والی بات کو درست سمجھا گیا، تو میں جس جوابی حملے کی بات کر رہا ہوں وہ تو بنتا ہے،کہ ہم صرف خطرے کا مفروضہ نہیں بنا رہے بلکہ ہم نے تو بھارت کی آبی جارحیت کی بنا پرکم از کم بھی اربوں کا نقصان اٹھایا ہے، یہ تو صرف ضائع ہو جانے والے اثاثے ہیں، 45لاکھ سے زیادہ لوگ تو صرف پنجاب میں متاثر ہوئے جن میں سے تیس لاکھ کو تو باقائدہ ہجرت کر کے محفوظ مقامات تک منتقل ہونا پڑا، ابھی طغیانیاں سندھ کی طرف بڑھ رہی ہیں،وہاں تک کتنا مزید نقصان ہو گا اس کا اندازہ تو بعد میں لگایا جا سکے گا، اسی طرح کتنے مزدور بیکار ہوئے،کتنے کاروبار ٹھپ ہوئے،کتنی خوشیاں کتنے خواب سیلابی پانی میہں بہہ گئے، کتنی فصلیں تباہ ہوئیں اور کتنا عرصہ متاثرہ زمینوں کے دوبارہ قابل کاشت بنانے میں لگے گا، اور کب چھوٹے بڑے کارخانے گھریلو دستکاریاں،دوبارہ شروع ہو سکیں گی، اور اس کیلئے کتنے سرمائے کی ضرورت ہوگی اس طرح کے نقصانوں کا تخمینہ تو میرے بھولے پاکستان میں کبھی لگایا ہی نہیں جاتا، اب تک پورے پاکستان میں اس سیلاب میں جاں بحق ہو جانے والوں کا اندازہ بھی ایک ہزار کی حدوں سے گذر رہا ہے، ان کے پیچھے جو خاندان برباد ہونگے ان کی تکالیف کا تخمینہ کون اور کون سی کرنسی میں لگا پائے گا، اور اس کے بعد جو اشیائے ضروریہ غلے اور دالوں کے سمیت امپورٹ کرنی پڑیں گیان پر جو ڈائریکٹ ڈالروں میں خرچ اٹھے گا،اس کا تخمینہ میں آج ہی کیسے لگا سکتا ہوں،اتنے بڑے ڈیزاسٹرز کے بعد ایک دنیا بدل جاتی ہے،معاش اور معیشت کی تباہی معاشرت اور اخلاقیات بلکہ پورا کلچر ہی بدل دیتی ہے اس نقصان کا تخمینہ کیسے لگے گا اور تلافی کیسے ہو سکے گی، قارئین اس دلخراش صورت حال نے ہمیں صرف بچاؤ، ریسکیو، ریلیف اور بحالی تک کی سوچ وں میں محصور کر دیا ہے اور ہم یہ بھول گئے ہیں کہ قدرت کا امتحان یا آفت سماوی تو رہی ایک طرف، اس پہ تو سر تسلیم خم ہے،ہر حال میں اس ذات کا شکر ہے وہ جیسا رکھے جس حال میں رکھے وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوقں اور انہیں دنیا کے سامنے نشان عبرت بنا دیں کیونکہ بھارت نے اس قدرتی ماحول سے جو فرعون کے جادو گروں کی طرح فائدہ اٹھاتے اور اپنے شہروں کو بچاتے ہوئے جس طرح خونی ڈیموں کے تین تین سپل وے ایک ہی دفہ کھول دیے اور پانے کے اتنے بڑے ریلے خشک دریاؤں میں بھجوائے جنہوں نے پاکستانیوں کو سمبھلنے کا موقع بھی نہ دیا، حالانکہ اگر وہ ذرا بھی انسانیت دکھاتا تو پانیوں کی آمد کو دیکھ کر دو دن پہلے سے ایک ایک سپل وے کھول سکتا تھا تاکہ پاکستان خبردار بھی ہو جاتا اور اتنا زیادہ پانی ڈیموں میں بھی اکٹھا نہ ہوتا کہ وہ یوں لاکھوں کو بے گھر کرتا چلا جاتا، اور جس طرح ان کا شیطانی میڈیا وحشیانہ ناچ کرتا رہا، کیا وہ سب بھی ہم قدرتی آفت سمجھ کر چھوڑ دیں گے، انسانوں کے مرنے اور تباہ و برباد ہونے پر ایسا ناچ تو کبھی کسی آدم خور قبیلے نے بھی نہیں کیا ہو گا، کوئی مانے نہ مانے اب اس آدم خور کا شکار ملت پاکستانیہ پر فرض ہو چکا ہے، افواج پاکستان پر فرض ہو چکا ہے ان خونی آبی ذخائر کو ناکارہ کرنا اور اپنے وطن کو ایسے خطرات سے بچان اب ہمارے لئے جہاد کا درجہ رکھتا ہے، حکومت پاکستان،وزیر اعظم اور صدر گرامی سے لے کر فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر تک میرا تو یہی مشورہ ہے کہ کل ہم نے فضاؤں میں اپنی دھاک بٹھائی اور دنیا سے تحسین بھی حاصل کی مگ آج وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے قدرتی مسکن زمین پر بھی غلبہ حاصل کرنے کو اپنا مقصد اور ٹارگٹ بنا ئیں، اپنی زمینی برتری کو بھی ممکن بنائیں، پانی کے ہولناک بم چلانے والوں کو لگام دی جائے، جیسے 7مئی کو دو دن کے وقفے سے بھارت کو جواب دیا گیا تھا بلکل ایسے ہی چند ہفتوں بعد ہی سہی اس دہشت گردی کا جواب دینا بھی بنتا ہے، اور ان ڈیموں کو اسی رخ پر نشانہ بنایا جائے جس طعف بھارت نے پانیوں کا رخ پھیر رکھا ہے، ورنہ بھارت اگلے برس یہ پاگل پن پھر دکھلا سکتا ہے، وما علینا الا لبلاغ۔