کالمز

ایک اور گیم چینجر معاہدہ

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کی ایک ہی جھلک عوام نے دیکھی ہے کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا اور دونوں ملک اس کا مقابلہ مل کے کریں گے۔معاہدے کی تفصیلات کا تو پوری طرح شاید ہی کسی کو علم ہو مگر یہ ایک سطری خلاصہ ہی دشمنوں اور شریکوں کو جلانے اور انہیں عزائم اور منصوبے بدلنے پر مجبور کرنے کے لئے کافی ہے۔سعودی عرب کے وسائل اور پاکستان کی فوجی طاقت اگر کسی تیسرے ملک کی جارحیت کے خلاف یکجا ہوتی ہے تو حالات کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے کہ جس پر اس معاہدے کو پڑھے سنے بغیر گیم چینجر کہنے کا دل کرتا ہے۔اپنی تزویراتی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ ایک سماجی اہمیت بھی رکھتا ہے۔مقامات مقدسہ کا دفاع ایک ذمہ داری ہی نہیں ایک خواب بھی سمجھا جاتا ہے۔گیم چینجر معاہدات کرنے میں پاکستان کا کوئی ثانی نہیں۔برسوں کے سفر میں پاکستان کے حکمران طبقات نے بیشتردور رس اثرات کے حامل معاہدات کئے کمی صرف ان معاہدات پر کسی ایک فریق کی طرف سے صدق ِدل سے عمل درآمد کی رہی ہے۔کبھی ہم خود معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہے تو کبھی فریق ِثانی اپنے معاہدات کو اصل روح کے ساتھ عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم ایک گیم چینجر معاہدہ کرکے فارغ ہوئے تھے۔ہمارا میڈیا ریاستی ادارے حکمران طبقات سب یہ بتا رہا تھے کہ پاکستان کو ستر برس کے سفر میں جس منزل کا انتظار تھا وہ بس دوگام پر ہے۔یہ چین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کا معاہدہ تھا جس کی حمایت جس کی فیوض وبرکات گنوانے میں پوری ریاستی مشینری رطب اللسان تھی۔ہم بھی اس لہر میں بہہ کر یہ سمجھتے تھے کہ واقعی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے ہاتھ جادوئی چھڑی یا الہٰ دین کا چراغ لگ گئے ہیں۔چراغ کو رگڑتے اور چھڑی کو گھماتے ہی پاکستان کے سارے قرض اُتر جائیں گے۔پاکستان ترقی کے ایک سفرپر روانہ ہوگا کہ جہاں بدعنوانی کا گزر نہیں ہوگا کیونکہ چین اپنے ہاں اگر کرپشن پر زیرو ٹالرنس کا رویہ اپنائے ہوئے ہے وہ اپنے قرض یا اپنی سرمایہ کاری پر بھی یہی رویہ اپنائے گا اور یوں پاکستان کا نظام اپنے مزاج میں تبدیلی لا کربدعنوانی سے پاک معاشرے کی تکمیل پر متوجہ ہوگا۔احتساب کو محض نعروں اور سیاسی انتقام کی بجائے حقیقی سماجی اور معاشی اصلاح کے لئے استعمال کیا جائے گا۔پاکستان کے شہر شنگھائی بیجنگ بنیں گے تو اس کے دیہات چینی دیہاتوں کی طرح محنت کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہوں گے۔ہماری زراعت چینی مہارت اور ٹیکنالوجی کے باعث ترقی کرے گی اور اب ہمیں بہت سی اشیاء کے لئے سرحدوں سے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔جب ہم چین سے سر پھینک کر محنت کرنے کا ہنر سیکھ لیں گے تو ہماری خودی ور خودداری بھی جاگ پڑے گی اورہم آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق قرضوں کی واپسی کی شکل میں اُتار پھینکیں گے۔چین پاکستان میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو ظاہر ہے اس کے پاس اس سرمایہ کاری کی حفاظت کا پلان بھی ہوگا سو اب امن اورچین ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر ہے اور ہم بدامنی اور کرائے کی جنگوں کا ایندھن بننے کی مجبوریوں سے دامن چھڑا چلیں گے۔سی پیک پر گیم چینجر معاہدہ ہوا۔ہماری خواہش تھی کہ افغانستان سے مقبوضہ کشمیر تک لوگ اس عظیم منصوبے کا حصہ بن کر مستفید ہوں۔مقبوضہ کشمیر سے تو آوازیں اُٹھنے لگی تھیں کہ سی پیک سے مستفید ہونا ہمارا بھی حق ہے۔کشمیر میں عوامی مزاحمت کی لہروں کے پیچھے یہ خواہش بھی مچل رہی تھی۔کابل میں اشرف غنی بگرام میں بیٹھے مہمانوں کی خشمگیں نگاہوں کے باعث اس معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے مگر طالبان اسی خواہش کی تکمیل کا دوسرا نام تھا۔پھر گیم چینجر معاہدہ لاتعد اد ارمانوں خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ ہو ا مگر پاکستان کے دن پھرنا تھے نہ پھرے۔اب یہ گیم چینجر منصوبہ وقت اور حالات کی دھند میں تاریخ کے عجائب خانے کا حصہ بن چکا ہے۔ایسا نہیں کہ منصوبہ گیم چینجر نہ تھا اگر صدق دل سے اس پر عمل ہوتا تو شاید حالات کچھ بہتر ہوتے مگر سردست ایسا نہیں ہوسکا۔پاکستان نے تاریخ میں ہر معاہدہ ہی گیم چینجر کی بتا کرکیا مگر گیم چینج ہونے سے پہلے سب کچھ ہی چینج ہوتا رہا۔1954میں امریکہ کے ساتھ پہلا دفاعی معاہدہ گیم چینجر تھا۔وقت کی سپر طاقت کے ساتھ دفاعی معاہدہ لاتعداد خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ ہوا مگر اس کے باوجود پاکستان ٹوٹ گیا اور ساتواں بحری بیڑہ مدد کو نہ آسکا۔دوحصوں میں بٹ جانے کے بعد نئے پاکستان میں ایک نئی صبح کے طلوع کا تاثر دینے اور عوام کے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو بلند کرنے کے لئے 1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقا د ہوا۔اھلاََ وسہلاََ مرحبا کے بڑے بڑے اشتہار چھپوائے گئے اور قوم کو تاثر دیا گیا کہ اب مسلم اُمہ کا اتحاد پاکستان کو عروج عطا کرے گا مگر کچھ نہ ہوا۔1979میں جنرل ضیاء الحق نے بتایا کہ ہم تاریخ کے اہم ترین موڑ پر دنیا کا سب سے اہم اور مشکل کام انجام دے رہے ہیں اور اس میں ہماری بقا اور عروج ہے۔افغان جہاد کی حمایت افغان مہاجرین کی میزبانی دنیا میں ہمیں ممتاز اور نمایاں مقام دے گی۔یہ دور ختم ہوا تو معلوم ہو ا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے بلکہ چیزیں پہلے سے زیادہ خراب ہو چکی ہیں۔1998میں ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی قوم کو یہی خواب دکھایا گیا کہ اب پاکستان دفاع کے روایتی طریقوں سے فارغ ہوکر وسائل اپنے عوام کے میعار زندگی کو بلند کرنے پر لگا ئے گا مگر آج تک آئی ایم ایف کا قرضہ ترقی کر رہا ہے۔2001میں جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی معاونت پر ایسے خواب دکھائے جو سراب ہی ثابت نہیں ہوئے بلکہ اپنے پیچھے بہت سے عذاب چھوڑ گئے۔2015میں سی پیک کا خواب دکھایا گیا۔اب مجیب الرحمان شامی صاحب فرماتے ہیں کہ پاک سعودی عرب تاریخی معاہدے سے پاکستان کا ایک سو چالیس ارب ڈالر کا قرضہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں اُڑ جائے گا۔شامی صاحب کے منہ میں گھی شکر مگر برسوں کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان بیرونی معاہدات سے نہیں اندرونی معاہدے سے ٹھیک ہوگا جب ریاست اپنے عوام سے اندرونی حالات ٹھیک کرنے کا معاہدہ کرے گی تو ہماری مٹی بھی سونا بننے لگے گی اس وقت تک ہمارا سونا بھی مٹی بنتا رہے گا۔

Related Articles

Back to top button