
قارئین کرام! ان دنوں جناب وزیراعظم نے ہنگامی بلکہ جنگی بنیادوں پر عملی اقدامات شروع کر کے آزاد کشمیر میں حکومت کے چھٹی سے واپس آنے کا تاثر قائم کر دیا ہے۔ اور اپنے بیان کے مطابق فلحال ایک منٹ بھی ضائع کیے بغیر مصروف عمل ہیں۔ اس دوران تعلیمی میدان میں بھی بہتری کی نوید سنائی ہے۔ اسی ضمن میں چند تجاویز پیش کر رہا ہوں۔ اس سے پہلے ایک نقطے پر اپنی رائے حکومت کے ذمہ داران کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں۔ یہ راقم کی رائے ہے۔ اردو زبان سمندر کی مانند ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ میری رائے درست ہو کابینہ کے ایک ممبر کے لیے سینئر موسٹ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ وزراء میں سے ایک کا عہدہ سینیئر وزیر کا ہوتا ہے سینیئر موسٹ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب سینیئر وزیر زیادہ ہوں تو ان میں سے ایک سینیئر موسٹ ہو سکتا ہے جب سینیئر ایک رہے تو سینیئر موسٹ کیسے؟ نیز اگر وہ باقی وزراء سے سینیئر ہو ایسا بھی نہیں کیونکہ شاید اس سے سینیئر کوئی اور بھی ہو۔ لہذا سینیئر موسٹ نہیں لکھنا چاہیے۔ عہدہ سینیئر وزیر ہی ہے۔
قارئین کرام! امید قوی ہے کہ محکمہ تعلیم میں اصلاحات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ محض تعلیمی اداروں کے درجہ بڑھانے تک محدود نہ رکھا جائے۔ بہت عرصے پہلے آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ نئے اداروں کے قیام اور اور درجہ بڑھانے کا کام محکمانہ تجاویز پر ہوتا تھا۔ جو معقول جواز کے بغیر ممکن نہ تھا۔ جواز سے مراد آبادی، ادارہ کا ابتدائی قیام، دوسرے اداروں سے فاصلہ اور عمارت کی صورتحال وغیرہ کو زیر غور لایا جاتا تھا۔ لیکن جب سے سیاسی مداخلت سے متعلقہ نمائندوں کی فہرست کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تو انتخابی وعدوں اور اعلانات کے مطابق ہوتا ہے اور کسی جواز کی ضرورت نہیں رہی۔ جس کے نتائج سامنے ہیں کسی دور میں بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ہائی سکول 12،12 اساتذہ مہ صدر معلم پر مشتمل تھے۔ ان میں سے بعض ابھی تک اسی سٹاف کے ساتھ چل رہے ہیں۔ سٹاف کی کمی پوری ہونی چاہیے اسی طرح ہائی کلاسز کے لیے ایک سائنس ٹیچر میتھ اور فزکس کے لیے اور ایک بیالوجی ٹیچر (بیالوجی کیمسٹری) کے لیے ضروری ہے مگر بعض سکولوں میں ایک سائنس ٹیچر کی اسامی ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق 25 طلبہ کے لیے ایک ٹیچر کی تجویز زیر کار ہے۔ وضاحت نہیں کے 25 طلبہ کس کلاس کے ہوں گے۔ اگر پورے سکول کے ہیں تو یہ مد نظر رہے کہ کس کلاس کے بچے کم ہوں تب مضامین سارے پڑھانے ہوتے ہیں۔ صرف پرائمری پانچ کلاسز کے کل مضامین 25 سے زیادہ سنتے ہیں۔ کیا ایک ٹیچر پڑھا سکتا ہے؟ قطعا نہیں۔
ایک تجویز یہ ہے کہ اداروں کا درجہ بڑھانے کے لیے کل تعداد اور جماعتوار تعداد کی رپورٹ ضرور لی جائے۔ مڈل اور ہائی سکول میں عربی ٹیچر کی اسامی ضرور رکھی جائے۔ کیونکہ لازمی مضمون ہے۔ اس طرح قاری کی اسامی بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بعض پرائمری سکولوں میں معمولی تنخواہ پر امام مدرس کا تجربہ شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت مستند عربی ٹیچر نہیں ملتے تھے۔ اب بے شمار اعلی دینی تعلیم کے حامل اساتذہ مل سکتے ہیں۔ ان کا سکیل بہتر کرکے مرحلہ وار ہر ایلیمنٹری پرائمری سکول میں ان کی اسامی دی جائے۔ تعلیم جسمانی باقاعدہ مضمون اور ضرورت ہے۔ اس کا مقصد صرف ڈرل اور اسمبلی کروانا نہیں۔ یہ اسامی ہر ہائی سکول میں ضرور ہونی چاہیے۔ اس طرح ٹیکنیکل ایجوکیشن وقت کی ضرورت ہے مگر جن اداروں میں ٹیکنیکل اساتذہ زراعت، برقیات، کامرس وغیرہ موجود بھی ہیں۔ وہ دیگر جنرل لائن کے مضامین پڑھا رہے ہیں۔ ٹیچر اور بعض اداروں میں سامان ہونے کے باوجود بچوں کو ایک بلب تک لگانا نہیں آتا۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ مڈل اور ہائی سکولوں کے ساتھ ممکنہ حد تک چھوٹا سہی لیکن کھیل کا میدان ضرور ہونا چاہیے۔ امارات کی کمی اور معیار کا ایشو مرحلہ وار حل ہونا چاہیے۔
قارئین کرام! راکم نے گزشتہ ایک کالم میں ٹھیکے پر چلنے والے سسٹم کا لکھا تو نیلم ویلی اور جیلم ویلی سمیت بہت سے احباب کے فون آئے کہ یہ بڑی کام کی بات ہے ہر طرف کچھ نہ کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اصل ٹیچر ایک لاکھ کے قریب تنخواہ گھر بیٹھے لے رہی ہے اور پانچ دس ہزار پر متبادل ٹیچر کا انتظام کر رکھا ہے۔ مزید معلومات ہوئی ہیں کہ رجسٹر حاضری پر اصلی ٹیچر کے نام سے متبادل ٹیچر حاضر یاں لگاتی ہے ایسے منظم دھندھے میں بائیومیٹرک سسٹم کیا کرے گا۔ میں نے تجویز دی تھی کہ جناب وزیر تعلیم سکولز انتظامی متعلقہ افسران سے رپورٹ نہ مانگیں۔ ہفتہ 10 دن کا مارجن دے کر بیان حلفی لیں کہ ان کے ماتحت اداروں میں کوئی سکول ٹھیکے پر نہیں چل رہا۔ تمام اصل معلمات خود حاضر ڈیوٹی ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق یہ مسئلہ موجودہ وزیر تعلیم کے دور کا ہی نہیں۔ یہ پریکٹس کافی عرصہ سے ہے۔ اکا دکا شاید نہیں بھی ہو۔ میری تجویز ہے کہ بااثر شخصیات کی بہو بیٹیوں کو حرام خوری سے بچانا کار خیر ہے۔ اگر کوئی عالم یہ فتوی دے دے کہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لینا حلال ہے تو میں نشاندہی پر معذرت کر لوں گا۔ رزق حرام سے بچانا صدقہ جاریہ ہے۔ اس لیے دیگر اچھے اور نیک نامی کے کاموں میں جناب وزیراعظم اور وزیر تعلیم سکولز یہ کار خیر بھی کر جائیں زمانہ یاد رکھیے گا۔ دعائیں بھی دے گا۔
غور طلب بات ہے کہ جن بچوں کو پتہ ہے کہ ان کی اصل ٹیچر کون ہے اور وہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہی ہے ان کی کیا تربیت ہو رہی ہے۔ ایک اور تجویز حکومتی فیصلہ کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہ کا بھی ہے۔ رجسٹریشن کے وقت ان اداروں نے لکھ کر دیا ہوتا ہے کہ تنخواہ سرکاری اساتذہ کے برابر دیں گے۔ لیکن عمل اس کے الٹ ہوتا ہے۔ لہذا کم از کم حکومت کی طرف سے مقرر کردہ شرح 37000 روپے تنخواہ دی جانی چاہیے۔ اسی طرح ایک اور پرانی خرابی دور کرنے کے لیے تجویز ہے کہ سکولز افسران کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے کچھ اداروں کی اسامیاں اپ گریڈ کی گئی تھیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ شاید ذمہ دار افسران کی غفلت یا نااہلی کے باعث دفتری عمل نے عملے نے بیگار ٹالنے کے لیے خانہ پری کر کے دے دی۔ ایک دو مثالیں سامنے لاؤں گا ہٹیاں بالا کا سب سے پہلا بڑا اور زیادہ سٹاف اور شعبہ جات والا مرکزی ہائی سکول ہے۔ اس کے سربراہ کی اسامی معلوم ہوا ہے شاید سکیل بی-17 کی ہے اور بعد میں دور دراز دیہاتوں کے بعض اداروں کے سربراہوں کی اسامی بی-19 اور بی-18 کی ہے۔ اس تفافت کو دور رکھنے کے لیے از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ یہی حال بعض مرکزی زنانہ مدرس کی اسامیوں کا بھی ہے۔ تفصیل مناسب نہیں۔
امید ہے موجودہ حکومت سیاسی بے جا مداخلت بند کرنے کے لیے اساتذہ کے ٹرانسورز پالیسی پر حسب ضرورت ترامیم کے ساتھ عمل درآمد کرے گی۔ پسند اور ناپسند کے تبادلوں نے تعلیمی معیار کو متاثر کیا ہے۔ آخر میں میں جناب وزیراعظم اور اس کی ٹیم کو کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بلکہ یہ تعریفی کلمات ہر ایک کی زبان پر ہیں۔ تبدیلی نظر آرہی ہے۔ بہتری کی توقعات بڑھ رہی ہیں۔ بہتر تعلیمی معیار کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ لہذا تمام محکمے بجا طور پر عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ مگر تعلیم اور صحت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بجا طور پر جناب فیصل راٹھور صاحب نے آزاد کشمیر کی تاریخ سیاسی شخصیت جناب ممتاز حسین راٹھور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اللہ انہیں مزید کامیابیاں نصیب کرے۔




