ورک چارج ملازمین بارے عدالتی فیصلوں‘معاہدوں پر عملدرآمد نہ ہو سکا

مظفرآباد(خبر نگار خصوصی)محکمہ برقیات آزاد کشمیر میں گزشتہ 10 سے 25 برسوں سے بطور ورک چارج اسسٹنٹ لائن مین خدمات سرانجام دینے والے ملازمین شدید احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ محکمہ برقیات کے وہ رولز جو 2 نومبر 2010ء کو نافذ کیے گئے، ان کے تحت اسسٹنٹ لائن مین کی ٹیکنیکل پوسٹ کے لیے ورک چارج ملازمین کا 75 فیصد (بعض ریکارڈ میں 75 فیصد) کوٹہ مقرر ہے اور صرف ایک سالہ تجربہ لازمی قرار دیا گیا ہے، جب کہ بیشتر ورک چارج ملازمین دو سے ڈھائی دہائیوں پر محیط عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ملازمین کے مطابق اس کے باوجود آج تک محکمہ کے اعلیٰ افسران کی جانب سے مقررہ کوٹہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ الزام ہے کہ ہر آنے والی حکومت کے سامنے رولز کو بنیاد بنا کر ورک چارج ملازمین کے نام پر اپنے عزیز و اقارب کی تقرریاں کی جاتی رہیں، جن کے شواہد محکمہ برقیات کے اندر موجود ہیں۔ورک چارج ملازمین کا مؤقف ہے کہ جب محکمہ کے مستقل ملازمین کو رولز کے مطابق خالی آسامیوں پر پروموشن دی جا سکتی ہے تو پھر ورک چارج ملازمین کو ان کے مقررہ 75 فیصد کوٹہ کے تحت مستقل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہ امتیازی سلوک نہ صرف رولز کی خلاف ورزی ہے بلکہ انصاف کے بنیادی اصولوں کے بھی منافی ہے۔ملازمین نے مزید بتایا کہ 28 نومبر 2019ء کو ناظم برقیات سرکل مظفرآباد کی جانب سے 25 آسامیوں کا اشتہار جاری کیا گیا، جس میں رولز کے مطابق ورک چارج ملازمین کے لیے 75 فیصد کوٹہ موجود تھا۔ بعد ازاں محکمہ کی بدنیتی کے خلاف ورک چارج ملازمین نے عدالت العالیہ آزاد کشمیر سے رجوع کیا، جہاں 28 جنوری 2020ء کو معزز عدالت نے واضح فیصلہ دیتے ہوئے محکمہ کو 90 دن کے اندر کوٹہ کے مطابق نیا اشتہار جاری کرنے کا حکم دیا۔عدالتی حکم کے باوجود چار ماہ بعد 10 جون 2020ء کو جاری ہونے والے ترمیمی اشتہار میں ورک چارج ملازمین کا کوٹہ ختم کر دیا گیا، جس پر متاثرہ ملازمین نے توہین عدالت کی رٹ دائر کر دی۔ حیران کن طور پر کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کے باوجود محکمہ کے اعلیٰ افسران نے اسسٹنٹ لائن مین کی خالی آسامیوں پر ایڈہاک تقرریوں کا سلسلہ جاری رکھا۔اس ناانصافی کے خلاف تنگ آ کر ورک چارج ملازمین نے 8 نومبر 2022ء کو دفتر چیف انجینیئر کے احاطے میں دو روزہ بھوک ہڑتال کی۔ ہڑتال کے دوران چیف انجینیئر کی جانب سے تحریری معاہدہ کیا گیا، جس میں ورک چارج ملازمین کو مستقل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی اور توہین عدالت واپس لینے کی درخواست کی گئی۔ ملازمین نے افسران بالا کے وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے توہین عدالت واپس لے لی۔تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ عدالتی فیصلے اور تحریری معاہدے کے باوجود پانچ سال گزرنے کے بعد بھی ان 25 آسامیوں کا اشتہار تاحال جاری نہیں کیا جا سکا۔ ورک چارج ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ طرزِ عمل ظلم، ناانصافی اور ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کے رزق کے قتلِ عام کے مترادف ہے۔متاثرہ ملازمین نے حکومت آزاد کشمیر، چیف سیکرٹری اور اعلیٰ عدالتی و احتسابی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ برقیات کے رولز پر فوری عملدرآمد کرواتے ہوئے ورک چارج ملازمین کو ان کے جائز 75 فیصد کوٹہ کے مطابق مستقل کیا جائے، بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا جس کی تمام تر ذمہ داری محکمہ کے اعلیٰ افسران پر عائد ہو گی۔



