وزیر اعظم پر دباؤ یا جمہوریت سے مزاق

آزاد جموں و کشمیر میں بلا سوچے سمجھے مرکز کی سیاسی پارٹیاں ایک ایسا کھیل کھیل رہی ہیں، جو ایک سنگین مزاق اور آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، وفاقی جماعتیں بازی گری دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں، عوام کے جذبات اور مذاکراتی ٹیموں کے ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے فیصلوں کو جھٹلا رہی ہیں، اور پاکستان کا اکثریتی دانشور طبقہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس کا انجام مایوسی، غصے، نفرت اور عداوت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا،اگر تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس کے ذریعے آزاد جموں کشمیر کے وزیر اعظم انوارالحق پر استعفیٰ دینے کیلئے دباؤ بڑھانے کیلئے یہ ناٹک رچا رہی ہیں، تو بھی غلط ہے اور اگر ایکشن کمیٹی اور عوام کی طرف سے اتنا واضع اظہار ہو چکنے کے بعد بھی آزاد حکومت پر عدم اعتماد کا کوئی فیصلہ خود صدر آصف زرداری یا مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کرنے جا رہے ہیں تو بھی یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ پاکستان کی 78سالوں سے جاری کشمیر پالیسی کی بھی نفی ہے، رہ گئیں اقوام متحدہ کی قرار دادیں تو وہ غیر موئثر کاغذ کے ٹکڑے بھی ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں آزاد جموں کشمیر میں اپنی ”فرنچائز ز“بنا کر آزاد جموں کشمیر کے لوگوں سے حق رائے دیہی، حق حکومت چھین لیں،اور بعد میں جب ان غلطیوں کا رد عمل آئے تومحب وطن اور پاکستان سے محبت کرنے والے، پاکستان کو بڑا بھائی ماننے والے ریاستی لوگوں پر بھارت کی ”ایجنٹی“ کا الزام لگا دیں، (ویسے کہیں اورکچھ بے وفا توضرور ہیں،مگر کہاں ہیں،انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے) البتہ وزیر اعظم پاکستان کو بحیثیت چیئر مین آزاد جموں کشمیر کونسل کو انٹر وین کرنے کا حق عبوری آئین دفہ 56aمیں حاصل ہے، مگر اس سے تو 1975 کے بعد سے گریز ہے، باقی معاملات پر سیاسی پردہ ء دبیز ہے، لیکن یاد رکھیں پاکستانی سیاست کااپنی ہمنوا اور تابع سیاسی جماعتیں بنا کر عوام کی آواز کو دبانا کسی طور بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ان مرکز کی ٍفرنچائزی جماعتوں کی گذشتہ عرصہ کی عدم توجہی،لاپرواہی کے بعد بھی اور ساری فکری پولرائزیشن کے باوجود بھی آزاد علاقے کے عوام کی غالب اکثریت آج بھی پاکستان سے محبت او ر اُس کا احترام کرتی ہے، ہر اختلاف اور جھگڑے میں ثالثی اور گارنٹی کے لئے پاک فوج اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف دیکھتی ہے، ان پر مکمل اعتبار کرتی ہے، بھارت کی طرف سے کوئی بھی سرجیکل سٹرائک، کوئی سیز فائر لائن کی خلاف ورزی ہو تو پوری کشمیری ملت اسلام آباد اور افواج پاکستان کی طرف دیکھتی ہے،ان سے بھارت کومنہ توڑ جواب دینے کی فرمائش کرتی ہے، ضد کرتی ہے، ایسے میں اگر پاکستان سے چند نام نہاد سیاسی راہنما سر پرستی کے نام پر،سیاست اور اپنی جماعتوں کی فرنچایزز کے نام پر جموں و کشمیر کے فیصلے گڑھی خدا بخش یا جاتی امراء کی دیواروں کے پیچھے بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں، تو یہ درست نہیں ہے،بھارت کو پراپیگنڈے کا موقع دینا چاہتے ہیں تو پھر ان کے عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، دیکھنا چاہیے کہ وہ کس کے بیانیے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور ریاست کے لوگوں کو کیوں شکوے، شکایت اور احتجاج پر مجبور کر رہے ہیں، گذشتہ دنوں کی آزاد جمو و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں دنیا نے یہ دیکھ لیا ہے کہ عوام پیپلز پارٹی یا،ن لیگ کے حصار سے بالکل باہر نکل چکی ہے اور سارا احتجاج صرف ایک انوارالحق کی وزارت عظمیٰ کے خلاف نہیں تھا،بلکہ حکومت میں شامل ان دونوں پارٹیوں کے ممبران اسمبلی اور مقامی قیادتوں کے خلاف تھا، انوارالحق تو صرف حکومت کا ایک سمبل تھا، استعارہ تھا، عوام کا کھلا اشارہ تو ان تاش کے باون پتوں کی طرف تھااور پھر جا کے ترپنویں وزیر اعظم کا نمبر آتا تھا،بیڈ گورنس اور بُری حکومت تو یہ دونوپارٹیاں اور ان کے ایم ایل اے /وزیر، بشمول 12مہاجر سیٹوں کے نیارے پیارے ان ہی سے لے کر اشارے کر رہے تھے، اپنا اور فائلوں کا پیٹ بھر رہے تھے، اور ان سب نے ہی تو خود رات کے سیاہ اندھیرے میں نید کے خمار میں بڑے چاؤ سے 48ووٹ دے کر انوارالحق کو وزیر اعظم بنایا تھا، آج جناب قمر زمان کائرہ اور رانا ثنا اللہ کیسے کہتے ہیں کہ انوارالحق گڈ گورنس دینے میں ناکام رہے ہیں، ناکام تو آپ کے کارندے اور آپ خود رہے ہیں جناب، اور مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کئے رہے ہیں، کیا پچلے دو ڈھائی سالوں میں انہی دو پارٹیوں کے کسی وزیر یا ممبر اسمبلی نے وزیر اعظم کی طرف کبھی ایک بار بھی انگلی اٹھائی ہے، نہیں اٹھائی، کبھی آپ کی زبان پھڑ پھڑائی، نہیں پھڑ پھڑائی، اس لئے کہ وہ اور آپ سب وزیر اعظم کے ہر عمل کا حصہ بھی تھے،حصہ دار بھی تھے(بشکل مرکز میں دونوں کا اتحاد اور مک مکا) اور آپ کے ممبران اسمبلی حلقہ وائز بھاری فنڈز بھی حاصل کر رہے تھے، اب جب پورا آزاد کشمیر ایک بڑے اور مؤثر احتجاج کے بعد حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کی کاوشوں سے آزاد علاقہ پرامن اور پر سکون ہوا ہے، تو آپ کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھنے لگے ہیں آپ ہی کی دونوں جماعتوں نے نیا ناٹک شروع کردیا ہے، اس پر طرح یہ کہ ن لیگ شریف یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ووٹ دے کر پی پی پی کا وزیراعظم تو بنوا دیں گے لیکن بیٹھیں گے اپوزیشن بنچوں پر،(تیری پُر پیچ سادگی پہ کون نہ مر جائے)اور بھر جناب ن اپوزیشن کا بھرپور کردار بھی ادا کرے گی، نہ بابا نہ،جمہوریت کو اس طرح سرعام ننگی گالی تو نہ دو، جمہوریت اور خود اپنی سیاسی بلوغت کی تو ہین تو مت کرو، کیا ایکشن کمیٹی کا سکون سے بیٹھنا تمہیں منظور نہیں ہے، کیا عوام کی خاموشی تمہیں اچھی نہیں لگتی، کیا آپ آزاد علاقے میں صرف انتشار دیکھنا اور پھیلانا چاہتے ہیں، اب تو اسٹیبلشمنٹ کو بلکہ خود فیلڈ مارشل کوآپ میں سے ہر ایک کا سٹی سکین ضرور کروا لینا چاہیے،،، واہ جی واہ، کیا دقیانوسی اور عوام کو دھوکہ دینے والا فیصلہ ہے، اور پھر فیصلے بھی آپ کی اپنی ادا وراثت پر بیٹھ کر ہو رہے ہیں،پھر آپ خود کو کشمیریوں سے بڑا پاکستانی بھی کہتے ہیں، اپنی باری تو یہ فرنچائزی کہتے تھے کہ انوارالحق مظفرآباد بیٹھتا نہیں ہے اور اب اپنی مصنوعی سی باری حاصل کرنے کی کوشش میں آپ جاتی امراء یا لاڑکانہ سے جا کر فیصلوں کی بھیک مانگ رہے ہو، یا د رکھیں آزاد کشمیر ابھی تک عبوری صوبہ نہیں بنا ہے، (بنا ہوتا تو کم از کم یہ ذلت اوریہ دن تو نہ دیکھنا پڑتے) صرفمیں نہیں کہہ رہا،پاکستان خود کہتا ہے اس کا سرکاری مؤقف ہے کہ آزاد جمو کشمیر ایک متنازع خطہ ہے، اور اس کے عوام کا ابھی ووٹ دے کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا کا حق باقی ہے،، توپھر یہ ”سادھ دل“ پاکستانی زُعما اس کی مخالف سمت کیوں دوڑ رہے ہیں،؟قول و فعل میں یہ تضاد کیسا ہے؟ اور یہ تضاد صرف مظفرآباد تک ہی موجود نہیں ہے آپ پورے [پاکستان میں اسی طرح کی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں، چین اور امریکہ میں پاکستانی سفیر اور اذاد علاقے کے صدر رہنے والے سردار مسعود حالات کا درست اندازہ کرتے ہوئے آجکل زور دے رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے اہل قلم اور فنکار دو قومی نظریہ اور جموں کشمیر کے درست بیانیہ کی ترویج و تشہیر کریں، ان سے اتفاق کرتے ہوئے میں صرف اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اس مہم کا دائرہ پورے پاکستان تک بڑھایا جائے اور ابتدا پورے ملک کے سیاستدانوں سے کی جائے، دوسری طرف جماعت اسلامی آزاد کشمیرکے سربراہ ڈاکٹر مشتاق کئی روز سے خبردار کر رہے ہیں کہ جموں کشمیر کے عوام غزہ طرز کا کوئی معاہدہ،کوئی حل قبول نہیں کریں گے، اس کا سادہ زبان میں مطلب کیا ہے اور ایسا کوئی حل کون کر رہا ہے یا تجویز کر رہا ہے اس کی ابھی تک انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی ہے،مگر یہ بات کتنی تشویشناک ہے،اس بارے میں سب کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے، اگر تو ان کا اشارہ آزاد علاقے کو عبوری صوبہ بنانے کی طرف ہے تو اس پر سوچ بچار اور ”برین سٹارمنگ“ ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی مستقل دو ریاستی فارمولے کا سوچ رہا ہے تو پھر اس کو رب ہی سمجھے گا اور عوام ہی سمجھا پائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ماحول میں یہ سیاسی ”بڑی“ جماعتیں کیا ڈرامے رچا رہی ہیں، اچھا آپ سب بڑے آزاد جمو کشمیر کو بھول جائیں اور صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ سب حرکتیں یہ اقتدار کی ہوس پاکستان کے حق میں ہے؟ کیا پاکستان اور کشمیر کے رشتوں کے حق میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر آپ کون لوگ ہیں آپ خود ہی طے کریں یا پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر ان سب کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے احکامات جاری کریں، تاکہ کماز کمیہ لوگ ریاست کے لوگوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکالنے کا آپریشن ترک کر دیں۔




