کالمز

چوہدری غلام عباس مرحوم و مغفور کی یاد۔۔۔

تحریر: عدنان رشید ملک

چوہدری غلام عباس مرحوم و مغفور قائد تحریک آزادیئ کشمیر کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج 58برس ہو گئے ہیں مرحوم کی ساری زِندگی تحریک آزادی کیلئے جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اُن کا پاکیزہ کردار، پختہ سیاسی بصیرت، بدلتے ہوئے حالات و واقعات پر گہری فکر و نظر، ہمت و استقلال میں مستقل مزاجی، تحریر و تقریر میں حق گوئی و بے باقی، زبان و بیان میں شائستگی و شفتگی، دینی و مذہبی فرائض کی ادائیگی میں منظم و مستحکم، سماجی و معاشرتی زِندگی میں ہمدردی اور شفقت کا مظہر ہونا غرض کہ اُن کی زِندگی کا کوئی ایس پہلو نہیں ہے جس میں اُن کا مثالی کردار نمایاں نہ ہو۔ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اُن کی سیاسی شخصیت کا پرتو ہمارے ہاں کی موجودہ سیاسی قیادت میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اُنکی شخصیت سے متاثر ہو کر شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ ”وہ سیاست کے لق و دق صحرا میں لالہ صحرائی تھے“، وہ ہمارے قومی ترانے کے خالق ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اُن سے ملاقات پر کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی آزادی کی روح نظر آئے۔ پھر اُن پر ایک نظم بھی لکھی ”تیری یہ زِندگی عباس کتنی پُرسعادت ہے۔۔۔ جہاد فی سبیل اللہ تیرے زیرقیادت ہے۔۔ رفیع الشان جموں شہر میں پیدا کیا تجھ کو۔۔ بہار جنت کشمیر پر شیدا کیا تجھ کو“۔
ہماری ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ میں مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ بیدار رکھنے، شخصی حکمرانی اور ڈوگرہ راج سے نجات حاصل کرنے اور ریاستی تشخص کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ ھند کے ساتھ ہم آواز ہو کر ”لے کر رہینگے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان“ کی تحریک کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے میں جناب چوہدری غلام عباس مرحوم کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ ریاست جموں و کشمیر کو نئی سمت مہیا کی اور انہیں اپنی منزل تک پہنچانے میں زِندگی بھر مسلسل جدوجہد کے ساتھ گزاری وہ تحریک آزادیئ کشمیر کے روح رواں تھے۔ مسلمانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے میں اور ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرنے میں ہر اوّل دستے کے قائد کی حیثیت سے سیاست میں چھائے رہے۔ جبکہ مسلمانانِ ریاست نے بھی اپنی آزادی کی حصول منزل کے تعین کرنے میں ہمیشہ ہی اُن کی آواز پر لبیک کہا۔ چوہدری صاحب نے اپنی دُور اندیشی کے باعث سیاست کے میدان میں رہتے ہوئے اس بات کا اندازہ کر لیاتھا کہ ریاست کے مسلمانوں کیلئے پُرامن اور درخشندہ مستقبل کیلئے صرف اور صرف پاکستان کو قائم کرنے میں اور اُس کے ساتھ الحاق کرنے میں ہی مضمر ہے۔ جہاں وہ آزادی کے ساتھ سیاسی و سماجی، مذہبی و معاشرتی، معاشی و اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اوّل روز سے ہی اس تحریک کو چلانے اور زندہ رکھنے کا عزم کر لیاتھا۔
چوہدری صاحب 4فروری 1904ء کو جموں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ”پرنس آف ویلز کالج جموں“ سے حاصل کی اور لاہور سے لاء کی ڈِگری حاصل کر کے جموں میں ہی اپنی وکالت کا آغاز کر رکھا تھا۔ چوہدری صاحب جموں میں تعلیم کے دوران ”مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن“ کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ وہ 1924ء میں اس ایسوسی ایشن کے صدر بھی منتخب ہوئے کچھ عرصہ بعد تحریک پاکستان کا آغاز ہو گیا تو مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظمؒ کی مدبرانہ قیادت کے نیچے الگ وطن کی تحریک کیلئے آواز بلند کرنا ضروع کر دی۔ اس تحریک کے اثرات ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر بھی نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ حکمران کا تسلط تھا جن کے بانی مہاراجہ گلاب سنگھ نے بدنام زمانہ ”معاہدہ امرتسر“ کے تحت 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض انگریزوں سے یہ ریاست خرید لی تھی۔ شخصی ڈوگرہ راج کے خلاف ریاست کے سلطان نمبردآزما تھے۔ اس تحریک کا پہلا اندوہناک واقع 13جولائی1931ء کو سری نگر سنٹرل جیل کے سامنے رونما ہوا تھا۔ جہاں سے مسلمان ریاست کے ذہنوں نے نئی کروٹ لی اور آزادی کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک نے ریاست کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ڈوگرہ راج کے حکمرانوں کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ریاست کی تحریک کا یہ سانحہ عظیم تھا اس تحریک کے ہر اوّل دستے کا مجاہد شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس تھے۔ دونوں رہنما مسلمانوں کی امید بن کر سامنے آئے۔ دونوں نے یک جان دو قالب ہو کر تحریک آزادی کیلئے کوششوں کا آغاز کیا۔ اس تحریک کیلئے انہیں ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں سے وہ دشمن ڈوگرہ راج کے خلاف آواز بلند کرتے۔ چنانچہ 1932ء میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت ”آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس“ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے صدر شیخ عبداللہ اور سیکرٹری جنرل چوہدری غلام عباس منتخب ہوئے۔ 1938ء تک دونوں راہنما یک زبان و آواز تھے لیکن بدقسمتی سے شیخ عبداللہ ہندوستان میں کانگریس کی سیاست کے علاوہ نہرو اور گاندھی کی شخصیات کے آگے دل پھینک بیٹھے۔ اسی بناء پر انہوں نے اپنے رفیق کار شیخ محمد عبداللہ سے اپنا سیاسی راستہ تبدیل کر لیا تھا کیونکہ انہوں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ شیخ صاحب کانگریسی سیاست سے متاثر ہو چکے ہیں اور پنڈت جواہر لال نہرو کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنی الگ سیاسی حمایت ”نیشنل کانفرنس“ کو قائم کرنے کیلئے ذہن بنا رہے ہیں۔ اس طرح چوہدی صاحب نے مسلمانان جموں و کشمیر کی آواز بنتے ہوئے قائداعظم کی اصول پسند شخصیت اور دو ٹوک سیاست سے اپنے ناطے جوڑ لیے اور ”مسلم لیگ“ کے نظریہ کے مطابق اپنی سیاسی جماعت ”مسلم کانفرنس“ کا 1942ء میں دوبارہ احیاء کر کے اس کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ انہو ں نے 1947ء تک اپنی جدوجہد کو مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ہی جاری رکھی اور اپنے عزم کو استقلال میں کوئی لرزش نہ آنے دی۔
چوہدری صاحب کی ساری زِندگی سادگی، قناعت پسندی کا اعلیٰ نمونہ رہی وہ اپنی خوراک، لباس اور رہن سہن میں ہمیشہ سادگی اور پاکیزگی کو فروغ دیتے۔ وہ زِندگی بھر کھدڑ کے پاجامہ اور قمیص میں ملبوس رہنا پسند کرتے تھے شیروانی اور جناح کیپ کو بھی زیراستعمال لاتے، آزادی کے وقت وہ جیل میں نظر بند تھے۔ شیخ عبداللہ نے جب انہیں پاکستان کے قیام کے بعد رہا کیا تو وہ سیالکوٹ کے راستے پاکستان آ گئے۔ یہاں پر قائداعظمؒ نے انہیں جموں و کشمیر ریفیوجیز کونسل کا سپریم ہیڈ مقرر کیا اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس کونسل کا صدر نامزد کیا گیا۔ چوہدری صاحب نے 1947ء کے مہاجرین جموں و کشمیر کی آبادکاری کا بیڑا اُٹھایا اور لٹے پٹے قافلوں کو دوبارہ سے پاکستان کی سرزمین اور آزادکشمیر میں آباد کیا۔ لیکن ان کی سادہ دِلی اور اصول پسندی کا یہ عالم رہا ہے کہ انہیں اپنی تمام تر مراعات حاصل ہونے کے باوجود اپنے لیے یا اپنی اولاد کیلئے ایک کنال زمین کا ٹکڑا تک الاٹ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان آ کر سار ی زِندگی اپنی کوئی ذاتی رہائش گاہ تعمیر نہیں کی۔ ہمارے ایک بزرگ بشیر احمد قریشی مرحوم جو کہ نہ صرف پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر چوہدری صاحب کے ساتھ رہے بلکہ ان کے معتمد خاص ہونے کے ناطے چوہدری صاحب کے گھر کے فرد مانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”قائد کشمیر“ میں چوہدری صاحب کی زِندگی کے تمام پہلوؤں پر مفصل لکھا ہے بلکہ اس کتاب کا دیباچہ چوہدری صاحب کے سیاسی میدان کے دست راست اے آر ساغر مرحوم نے تحریر کیا تھا۔ ساغر صاحب نے چوہدری غلام عباس مرحوم کی طرزِ زِندگی اور بے شمار خوبیوں کا ذِکر کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
تھی جواک شخص کے تصور سے۔۔۔اب وہ رعنائی خیال کہاں
چوہدری صاحب فروری 1967ء میں سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں علاج معالجہ کے بعد انگلستان میں علاج کیلئے گئے وہاں سے اُن کی واپسی مئی 1967ء میں ہوئی تو آزادکشمیر کے صحت افزاء مقام دھیرکوٹ میں قیام کیا۔ چوہدری صاحب کا یہ بنگلا دھیرکوٹ کے مقام پر اب بھی موجود ہے۔ نہ معلوم کہ اب یہ عمارت کس محکمہ کے زیرانتظام ہے۔ لیکن ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ وہ اس عمارت پر توجہ دیں۔ اس کی دوبارہ سے تزئین و آرائش کر کے اسے قومی ورثہ کے طور پر محفوظ کیا جائے جیسے ”قائداعظمؒ“ کی رہائش گاہ ”زیارت“ کو بھی قومی ورثہ کے طور پر محفوظ بنایا گیا ہے۔
میرے والد صاحب کی (رشید ملک مرحوم) کی چوہدری صاحب کے ساتھ نیاز مندی کا رشتہ جموں سے قائم تھا۔ وہ زِندگی بھر اُن کے ساتھ رہے اور وہ اپنے مضامین میں چوہدری صاحب سے عقیدت کے رشتہ کا اظہار اس طرح کرتے تھے۔
”چوہدری غلام عباس دیانت، خلوص، عزم و جرأت کا پیکر تھے۔ دین کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے صاف ستھرے ذوق اور کھری سیاست کے مظہر تھے۔ اپنے ابھرتے قد، سرخ و سفید چہرے، چمکتی آنکھوں، کشادہ پیشانی، چاندی مائل سفید بالوں اور ہمیشہ دھلے ہوئے سفید کھدر کے لباس میں بیٹھے ہوئے چنبیلی کا ڈھیر نظر آتے تھے۔ حق تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے“۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button