کالمز

گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان

پچھلے چند برس سے پاک افغان جنگ کے سروں پر منڈلاتے بادلوں نے اب برسنا شروع کر دیا ہے۔ابھی چھاجوں مینہ برسنے والا مرحلہ تو نہیں آیا مگر ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی ہے۔المیہ یہ نہیں کہ کشیدگی کا یہ دور اس وقت شروع ہو ا ہے کہ جب افغانستان کے لئے پاکستان کی روایتی دفاعی پالیسیStrategic depth (تزویراتی گہرائی) کو عملی شکل مل چکی ہے اور پاکستان کی بوئی ہوئی اور خون جگر سے سینچی گئی فصل طالبان کی صورت میں برسرا قتدار آچکی ہے اصل المیہ یہ ہے کہ یہ افغانستان میں پاکستان کا آخری اثاثہ ہے۔اس اثاثے کی خاطر ماضی کے کئی اثاثوں برہان الدین ربانی،گل بدین حکمت یار اور نجانے کس کس کو قربان کیا گیا تھا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان اثاثوں کو کابل کے اقتدار میں لانے کے لئے امریکہ کی طرف سے ڈبل گیم کا الزام بھی سہنا پڑا اور مغربی میڈیا اور ملکوں میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کے الزام میں نیک نامی کی قربانی بھی دینا پڑی۔یہ پاکستان کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اگر ان کی پیدائش افغانستان کی بھی ہے تو تب بھی زندگی کی تیس چالیس بہاریں پاکستانی فضاؤں میں گزارچکے ہیں۔ان میں اکثر پاکستان کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔اسی لئے ان میں اکثر اُردو اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ اپنا مافی الضمیر آسانی سے بیان کرتے ہیں۔یہاں تک اب بھارت میں بھی انہیں زبان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اور افغان اہلکار بھارتی میڈیا اور عوام کا سامنا آسانی سے کرتے ہیں جیسا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت میں ہوا۔وہ دارالعلوم دیوبند سمیت پریس کانفرنسوں میں روانی سے اُردو بولتے ہوئے نظر آئے۔طالبان کا کابل میں داخل ہونا پاکستان کی اس تزویراتی گہرائی کی تکمیل تھی جس کا خواب پاکستانی جرنیلوں نے ستر اور اسی کی دہائیوں میں دیکھا تھا۔جس کا خواب جنرل ضیاء الحق اپنی تقریروں میں دکھاتے رہے۔جنرل اسلم بیگ اپنی تحریروں میں اس نئے جہان کی منظر کشی کرتے رہے اور جنرل حمید گل اپنے انٹرویو ز میں مستقبل کے کینوس پر جس کے رنگ بکھیرتے رہے۔جس کا خلاصہ یوں تھا کہ جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوگی پہلے سوویت یونین اور بعدازاں امریکہ خطے سے بھاگ جائے تو پاکستان اپنی مغربی سرحد کے دفاع سے غافل ہوجائے گا۔یوں اس کو اپنی پوری فوجی توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز کرنا ہوگی۔مغربی سرحد پر ایک پاکستان دوست حکومت ضرورت پڑنے پر مغربی سرحد پر بھارت کو سبق سکھانے میں بھی پاکستان کی معاونت کرے گی اگر عملی معاونت نہ بھی کرے تب بھی پاکستان کے لئے ڈیورنڈ لائن کو ٹھنڈا رکھ کر پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ مشرقی سرحد پر لڑنے کا موقع فراہم کرے گی۔اسی تصور کو جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ”پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع“کا ذیلی عنوان دیا گیا تھا۔اس تصور نے سقوط ڈھاکہ کے نفسیاتی اثر ات سے جنم لیا تھا۔یہ وہ سبق ہے جو افغانستان کے بارے میں مدتوں تک پڑھایا جاتا رہا اور پاکستان کا عام آدمی اس تصور تی منظر کشی کے سحر میں گم رہا۔کابل پر دوسری بار طالبان کا کنٹرول ہوگیا۔سوویت یونین کے بعد امریکہ بھی رخصت ہوگیا تو اب سٹریٹجک ڈیپتھ کے تصور کی تکمیل کے بعد اس کے عملی مظاہرے ہونے کاوقت تھا۔ہوا یوں کہ اس مرحلے پر پاکستان اور افغانستان کے راہیں جد ا ہوگئیں۔افغانیوں کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ جس امریکہ کو انہوں نے سولہ سال لڑ کر نکال باہر کیا ہے دوبارہ اسی کی شرائط پر کسی دوسرے انداز میں واپس قبول کریں۔امریکہ نے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان کی جانب دانہ ئ دام اُچھالنا شروع کیا۔ظاہر ہے کہ امریکہ کو خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ہم لاکھ چین اور امریکہ کے درمیان پل بننے اور کام بانٹنے کی بات کریں گوادر کے پہلو میں پسنی کی بندرگاہ کا خاکہ بنا کر دونوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، امریکہ چین کو اپنا کھلا دشمن قرار دے بیٹھا ہے۔ہماری اتنی سکت نہیں کہ امریکہ کا تصورِ دشمن تبدیل کراسکیں یا چین کو امریکہ کی بالادستی ماننے پر آمادہ کر سکیں۔یہ تو بڑی طاقتوں کے بڑے کھیل ہیں جن میں پاکستان جیسے ممالک جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ وہ متحارب طاقتوں کے کراس فائر میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔امریکہ پہلی بار افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور القاعدہ کے نام پر آیا تھا حقیقت میں یہ بھی چین کو محدود کرنے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے اور معدنی وسائل کا چکر تھا۔اس بار صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت میں سی آئی اے کے عزائم کو کھل کر بیان کر رہے ہیں انہوں نے چین پر نظر رکھنے کے لئے بگرام ائربیس حاصل کرنے کی بات کر کے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔اس لئے امریکہ کے نئے اور اگلے ایجنڈے کا بوجھ اُٹھانا پاکستان کے بس میں نہیں۔یہ ایک خطرناک اور پل ِ صراط کا سفر ہے۔امریکہ بگرام ائربیس ایران کے تاجکستان ترکمانستان یا واخان کے ذریعے تو حاصل نہیں کر سکتا۔لے دے کر اس خواہش کا بوجھ پاکستان کے ناتواں کندھوں پر ہی لادا جانا ہے۔چین اور امریکہ کے افغانستان میں مفادات قطعی مختلف ہیں۔چین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے امن درکار ہے جبکہ امریکہ کو واپس آنے کے لئے جنگ کا ماحول سازگار ہے۔ماسکو فورم کا حالیہ اجلاس کا ثبوت ہے جس میں روس پاکستان بھارت چین اور طالبان نے بگرام ائر بیس پر امریکی افواج کی واپسی کی مخالفت کی۔ایران بھی اس کا ہم آواز ہے۔امریکہ کابگرام میں واپسی پر اصرار علاقائی قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں تو ہضم نہیں ہوگاجبکہ اس بار امریکہ واضح طور پر چین کے ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے کے عزم وارادے کے ساتھ لوٹ آنے کا خواہش مند ہے۔ عالمی طاقتوں کے خطے میں یہی متضاد مقاصد افغانستان کے ہمسائے کے طور پر پاکستان کی مشکل بن چکے ہیں۔پاکستان کے لئے افغانستان محض ہمسایہ نہیں اس کے سماجی تانے بانے سوشل فیبرک کا حصہ ہے جو ایک اور مشکل ہے۔پاکستان مصر کی طرح یکسانیت اور یک رنگی کا حامل نہیں۔اسی لئے مصرکے فارمولے میں اس میں نہیں چل سکتے۔ اس لئے یہاں آمریت کی جڑیں مضبوط ہوتے ہی بحالی ئ جمہوریت کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے۔طالبان اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ کہتے ہیں۔اپنی حد تک اپنے نظام کانام ان کو مبارک ہو مگر وہ اپنا نظام برآمد نہیں کر سکتے۔پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے جو کئی متنوع علاقائی اکائیوں کا مرکب اور مجموعہ ہے۔ پشتون تاجک ازبک اور ہزارہ آبادیوں پر مشتمل خود افغانستان کی آبادیاتی ہیئت ترکیبی یہی ہے جب طالبان اس پر یک رنگی نافذکرتے ہیں تو جلد یا بدیر ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ پہلے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو پاکستان کے قومی مفاد میں قرار دیا جاتاتھا اب یہ تصور یوں بدل گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو پاکستان کے سماجی تانے بانے کی آبادیاتی اور ثقافتی کا توازن خراب ہونے کے خوف کے طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے۔خواجہ آصف سمیت پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی حکومتی راہنماؤں کی باتوں میں یہی خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔

Related Articles

Back to top button