
میرے آزاد کشمیر کے بہادر عوام نے 6روز کی شب و روز کاوشوں کے بعد اپنے جائز مطالبات کو منوا کر تاریخ رقم کر دی۔یہاں یہ بات واضح ہے کہ ہار جیت کسی کی نہیں ہوئی بالکہ حق و سچ کی جیت ہوئی اور آزادکشمیر کے پینتالیس لاکھ عوام کے درست مطالبات (کسی حدتک)تسلیم کر لئے گئے۔ کسی حد تک سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ 100فیصد نہ بھی مانے گئے ہوں پھر بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کو درست مانا گیا۔سیکورٹی فورسز اور عوام کی شہادتوں کا قلق ہمیشہ رہے گا۔ اگر یہ اکا دکا واقعات رونما نہ ہوتے تو شائد یہ تاریخ کا پر امن ترین احتجاج تصور کیا جاتا۔آج کا اداریہ محض مبارکباد پر مبنی ہے لیکن چند ایک ضروری باتیں جو احتجاج سے پہلے اور بعد کی ہیں گوش گزار ہیں۔
حکومت پاکستان بالخصوص وزیر اعظم پاکستان اور کی ٹیم بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔راجہ پرویزاشرف، رانا ثناء اللہ،انجنئیرامیر مقام،قمرالزمان کائرہ،ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور سردار یوسف پاکستان سے مذاکراتی کمیٹی کا حصہ تھے۔ آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے راجہ فیصل راٹھور اور دیوان علی چغتائی مذاکرات میں شامل رہے۔ ایکشن کمیٹی کے شوکت نواز میر،راجہ امجد ایڈوکیٹ اور انجم زمان مذاکرات کے میز پر براجمان رہے۔جانبین یعنی کہ آزاد حکومت اور ایکشن کمیٹی کی پر خلوص کاوش کو خراج تحسین کیونکہ اس طرح کے گفت و شنید کے علم کی وجہ سے بڑے جانی و مالی نقصان سے ریاست محفوظ رہی۔
اگرچہ بعض حساس نوعیت کے معاملات جو چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کا حصہ تھے کو موضوع بحث نہیں لایا گیا لیکن اس کے باوجود یہ بات خوشی کا باعث ہے کہ کشمیر کے عوام کی بات توجہ سے سنی گئی اور یہ بڑی کامیابی ہے۔جو سیاسی راہنماء بالکل کسی بھی حیثیت میں عوامی مزاحمت کاروں کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے انہی کے مطالبات کو ہائی پروفائل وفد نے سماعت کیا اور 30 ارب روپے کی خطیر رقم بھی حکومت پاکستان کی جانب سے رکھی گئی جو مرحلہ وار مطالبات کو پورا کرنے کے لئے خرچ کی جائے گی۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آزاد کشمیر کے نامی گرامی اور بڑے سیاستدانوں کو پہلی دفعہ کارنر کر کہ حکومت پاکستان نے براہ راست کشمیر کے عام آدمی کی بات کو ترجیح دی ہے۔
آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت 36وزرائے کرام پر مشتمل ہے۔ مذاکرات کی میز پر ہر ایک فریق فی الحال اس بات پر متفق ہیں کہ وزراء اور مشیروں کی تعدا دکم کر کہ 20تک کی جائے گی۔ یعنی کہ کابینہ کا حجم گھٹانے پر اتفاق کیا گیا۔ مہاجرین مقیم جموں وکشمیر کی 12نشستوں پر عوامی ایکشن کمیٹی کے موقف کو کہ بالکل ختم کیا جائے عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ 8وزرائے کرام جن کا تعلق مہاجرین سے ہے کی مراعات اور وزارتیں واپس لئے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان وزارتوں کے خاتمے سے موجودہ حکومت بحران کا
شکار ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی 8وزارتیں انوار سرکار کو مزید ختم کرنا ہوں گی۔ اس سارے تناظر میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ چوہدری انوارالحق جو وآزاد کشمیر کی تاریخ میں 48زیادہ ترین ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے نامور سیاسی راہنماؤں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اورغازی ء ملت سردار محمد
ابراہیم خان جیسے قدآور سیاستدانوں نے بھی 48ووٹ حاصل نہیں کئے تھے۔
دیگر اہم چیزوں میں کشمیر کے لئے آئندہ چند دنوں میں ہیلتھ کارڈ کا اجراء،کشمیر بنک کی شیڈیولڈ حیثیت،پونچھ و مظفرآباد ڈویژنز میں تعلیمی بورڈزکے دفاتر،پانی کے مسائل،بجلی کے بنیادی مسائل،میرپور میں انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا قیام، متاثرین منگلہ کی بحالی،شہداء کا معاوضہ، شہداء کے ورثاء کی ملازمتیں،شاہرات اور پلوں کی تعمیر اور وزراء کے پاس صرف ایک 1300سی سی گاڑی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ سب باتیں زیادہ اہمیت کی حامل نہیں لیکن پھر بھی موجودہ وقت کے تناظر میں ان کا حصول جب کہ آزاد کشمیر کی ساری سیاسی قیادت ان سب کے بھی خلاف تھی ایک بڑی کامیابی تصور کی جا سکتی ہیں۔کیونکہ ان سب چیزوں کا حصول محض عوامی مزاحمت کے نتیجے میں ہوا۔
پھر یہ بات گوش گزار ہے کہ یہ ہار جیت نہ ایکشن کمیٹی کی ہے اور نہ سیاستدانوں کی۔ یہ عوام کی فتح ہے جہاں معاشرتی شعور اور جائز حق کے لئے عوام راست اقدام پر مجبور ہوئے۔ ایک بات مزید قابل غور ہے کہ جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ہینڈلر قوم پرست ہیں اور اداروں کے خلاف ہیں اور خدا نخواستہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔۔۔۔ ان سارے خدشات کو فی الحال ایکشن کمیٹی کی قیادت نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ مذاکرات کے فریقین کے مابین جو مطالبات تسلیم کئے گئے یا جن پر مستقبل میں بحث و تمحیص کی گنجائش موجود ہے ان پر کسی کشمیری قوم پرست یا مزاحمت کار کی معمولی پرچھائی بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
مستقبل قریب میں حالیہ عوامی احتجاج کے اثرات کشمیر میں لگتا ہے کہ اچھے مرتب ہو ن گے اور کسی حد تک ہمارے معزز ممبران اسمبلی اور مشیران کرام جو خود کو ماورائے عوام سمجھ بیٹھے تھے انشاء اللہ اب عوام کی طاقت کا احترام کریں گے۔ اور جمہوری حکومتوں کا حسن بھی اسی میں ہے کہ عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔ فی الحال وہ تمام خدشہ ہائے جات کہ ایکشن کمیٹی خدانخواستہ کسی غیر ملکی ایجنڈے (سائفر) یا ملکی اور ریاستی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے کو کشمیری مزاحمت کاروں نے صرف 6شب و روزہ کاوش سے دفن کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ریاست کے عوام، حکمرانوں اور سالمیت کو اپنی حفظ و مان میں رکھے اور کشمیری عوام کو سلامت رکھے۔آمین۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔ آزاد کشمیر پائندہ باد۔