
پاکستان کی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دو بڑی اور پرانی جماعتیں کئی دہائیوں سے طاقت کی کشمکش کا مرکز رہی ہیں۔ ایک وقت تھا جب ان دونوں جماعتوں کے درمیان سیاست ایک ”سفید و سیاہ” جنگ کی صورت اختیار کر چکی تھی اور ہر ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف محاذ کھولے ہوئے تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ منظرنامہ بدلتا گیا۔ آج اگر دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں کا رویہ کبھی ”شدید مخالفت” کی حد تک چلا جاتا ہے، تو کبھی ”مفاہمت” کا راگ الاپنے لگتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پی اور نون لیگ کے درمیان حالیہ تنازعات واقعی حقیقی ہیں؟ یا یہ سب کچھ عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کسی ”نورا کشتی” کا حصہ ہے؟اگر ہم 1980 اور 1990 کی دہائیوں پر نظر ڈالیں تو پی پی پی
اور ن لیگ کے درمیان تعلقات کسی بھی طور دوستانہ نہیں تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی قیادت میں دونوں جماعتوں کے مابین سخت لفظی گولہ باری اور انتقامی سیاست عروج پر تھی۔ ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانا، مقدمات قائم کرنااور ایک دوسرے کو غدار و کرپٹ کہنا معمول بن چکا تھا۔پھر ایک موڑ 2006 میں آیا، جب ”میثاقِ جمہوریت” کے ذریعے دونوں جماعتوں نے ایک نیا باب کھولا
،جس کا مقصد جمہوریت کی بالادستی اور آمریت کا خاتمہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عوام کو پہلی بار محسوس ہوا کہ شاید سیاسی بالغ نظری کا دور شروع ہو رہا ہے۔2022 اور 2023 میں پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے تحت دونوں جماعتیں ایک بار پھر اکٹھی ہوئیں اور عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنائی۔ تاہم، 2024 اور 2025 کے انتخابی ماحول میں دونوں جماعتیں ایک مرتبہ پھر تنقید کے نشتر لے کر میدان میں نکل آئیں۔پی پی پی کی قیادت خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری نے ن لیگ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے فائدہ اٹھایااور انہیں پنجاب میں دیوار سے لگایا گیا۔ دوسری جانب ن لیگ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے پی پی پی کو وفاق میں حصہ دیا لیکن بدلے میں صرف الزام تراشی سننے کو ملی۔یہ بیانات بظاہر ایک ”سیاسی جنگ” کا عندیہ دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر دونوں جماعتیں اتنی مخالف ہیں تو ہر نازک موقع پر کیسے ایک دوسرے کا ساتھ دے دیتی ہیں؟کیا یہ سب نورا کشتی یا سیاسی چالاکی ہے؟پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان جاری تنازع دراصل ایک ”نورا کشتی” ہے یعنی ایک طے شدہ لڑائی جس کا مقصد صرف عوام کو مصروف رکھنا اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔اس سوچ کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب دونوں جماعتیں پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں یا کسی آئینی ترمیم پر یک زبان ہو جاتی ہیں جبکہ اسٹیج پر دونوں ایک دوسرے پر طنز و تنقید کے تیر برساتے ہیں۔سیاسی تجزیہ کار بھی اس بات پر منقسم ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سب ”اقتدار کی
باریاں ” لینے کا ایک منظم طریقہ ہے جس میں ایک جماعت اپوزیشن میں بیٹھ کر عوامی ہمدردی حاصل کرتی ہے اور دوسری اقتدار کے مزے لوٹتی ہے۔ جب وقت بدلتا ہے تو کردار بھی بدل جاتے ہیں لیکن کھیل وہی رہتا ہے۔اس پوری بحث میں سب سے اہم کردار عوام کا ہے جنہیں اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب وہ شخصیت پرستی کے خول سے باہر نکل کر پالیسی اور کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔پی پی پی ہو یا ن لیگ یا کوئی تیسری جماعت، جب تک عوام خود اپنی سیاسی
بصیرت کو بلند نہیں کریں گے، تب تک سیاسی جماعتیں ایسے ہی ”مفاہمت و مخالفت” کے کھیل سے عوام کو الجھائے رکھیں گی۔پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان موجودہ سیاسی تنازعہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے جس میں حقیقت، افسانہ اور نورا کشتی تینوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ کبھی یہ اختلافات واقعی نظریاتی ہوتے ہیں اور کبھی محض سیاسی چالاکی کا مظہر۔ اصل سچ تو شاید عوام سے ہی چھپا رہتا ہے۔لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھولیں اور ان بیانیوں کے پیچھے چھپے مفادات کو سمجھنے کی کوشش کریں،ورنہ یہ سیاسی تماشے یونہی چلتے رہیں گے اور تبدیلی صرف نعرے تک محدود رہے گی۔آج کل پی پی پی اور ن لیگ میں سیاسی گولہ باری ایک بار پھر عروج پرہے مگر اس میں بھی کتنا سچ، کتنا افسانہ ہے؟ غور سے ملاحظہ فرمائیں تو تصویر دھندلی دھندلی نظر آتی ہے ویسے بھی پاکستان کی سیاست میں اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری بیان بازی اور الزامات کی سیاست نے سیاسی منظرنامے کو نئی جہت دے دی ہے۔ دونوں جماعتیں ماضی میں نہ صرف سخت حریف رہ چکی ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں ”جمہوری تسلسل” کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کا بوجھ بھی اٹھا چکی ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ اس بار کی سیاسی گولہ باری کہاں تک حقیقت پر مبنی ہے اور کہاں افسانہ گھڑا جا رہا ہے؟پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے بارہا یہ تاثر دیا گیا کہ ن لیگ وفاق میں اپنی مرضی سے فیصلے کر رہی ہے اور اتحادی جماعتوں کو محض“شو پیس”کے طور پر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کے قائدین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابی نتائج کے بعد حکومت کا حصہ بننے سے گریزاں رہی لہٰذا مکمل اختیار کا تقاضا کرنا غیر منطقی ہے۔یہ الزامات اور جوابی بیانات دراصل سیاسی مفادات کے تصادم کا اظہار ہیں نہ کہ اصولی اختلافات کا۔ اصولوں کی سیاست وہ ہوتی ہے جس میں جماعتیں اپنے بیانیے پر ثابت قدم رہیں، چاہے اقتدار ملے یا نہ ملے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔سیاسی گولہ باری کا ایک بڑا مرکز صوبائی حکومتیں بھی ہیں۔ ن لیگ پنجاب میں اقتدار کی کرسی پر ہے جبکہ سندھ میں پی پی پی برسراقتدار ہے۔ دونوں جماعتوں کے طرز حکمرانی، بیوروکریسی پر کنٹرول اور اختیارات کے استعمال پر ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ن لیگ کو شکایت ہے کہ سندھ میں وفاقی حکومت کے منصوبوں کو بلاوجہ روکا جا رہا ہے جبکہ پی پی پی کو اعتراض ہے کہ پنجاب کو وفاقی ترقیاتی فنڈز میں ترجیح دی جا رہی ہے۔ ان بیانات میں کتنی حقیقت ہے۔یہ تو اعداد و شمار اور شفاف آڈٹ ہی بتا سکتے ہیں۔
مگر تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ ہر جماعت دوسرے کو“ظالم حکمران”اور خود کو“مظلوم اتحادی”بنا کر پیش کر رہی ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس تمام گولہ باری میں عوام کا کیا کردار ہے؟ کیا یہ سیاسی بیان بازی مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں؟ عوام الناس کو بارہا یہی تجربہ ہوا ہے کہ جب بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور اقتدار کی جنگ مرکزِ نگاہ بن جاتی ہے۔ عوام کی مایوسی اس وقت عروج پر ہے کیونکہ ایک طرف سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہی ہے تو دوسری طرف روزمرہ زندگی کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ کسی بھی جماعت نے عوام کو یہ واضح پلان نہیں دیا کہ وہ اگلے پانچ سال میں کس طرح مہنگائی، توانائی بحران، تعلیم اور صحت جیسے مسائل کا حل نکالے گی۔کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، یہ سب کچھ 2027 کے عام انتخابات کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ دونوں جماعتیں جانتی ہیں کہ اگلا انتخابی معرکہ اکیلے لڑنا پڑ سکتا ہے لہٰذا اپنی اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر تنقید ضروری ہو چکی ہے۔پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے جبکہ ن لیگ پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے۔ اس تناظر میں یہ سیاسی گولہ باری دراصل عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ بن چکی ہے۔اس وقت پی پی پی اور ن لیگ کی سیاسی لڑائی میں سچ اور افسانہ دونوں کا امتزاج موجود ہے۔ کچھ شکایات حقیقی ہیں جیسے اتحادی جماعتوں کو برابر کا سٹریٹیجک پارٹنر نہ سمجھنا یا وسائل کی غیر مساوی تقسیم لیکن بیشتر بیانات محض سیاسی فائدے کے لیے دئیے جا رہے ہیں۔ایسے ماحول میں عوام اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ پس پردہ عوامل اور اعداد و شمار کا تجزیہ کریں۔ سیاست میں شفافیت صرف اسی وقت ممکن ہے جب سوالات حقائق کی بنیاد پر پوچھے جائیں نہ کہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر۔سیاسی گولہ باری چاہے جتنی بھی شدید ہو اگر اس کا مقصد عوامی فلاح نہ ہو تو یہ محض اقتدار کی ایک اور جنگ ہے۔جس میں ہار جیت سے زیادہ نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔