کالمز

اَسو۔۔۔۔ گھاس کٹائی کے دِن

اَسو کا مہینہ بکرمی کیلنڈر(شمسی) سال کا چھٹا ماہ اور قمری سال کا ساتواں ماہ ہوتا ہے۔ اَسو کا لفظ آسی سے نکلا ہے جس کا معنی معتدل یعنی اِس مہینے میں موسم خوشگوار ہوتا ہے نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے اور نہ زیادہ سردی۔ یہ مہینہ فصلوں کے پکنے کا موسم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ ہم اَسو کے دوران صرف گھاس کی کٹائی کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً اِن میں چاول مکئی کی فصلیں بھی کاٹی جاتی ہیں۔ اِس مہینے میں ہم موسم گرما کو خیرباد کہتے ہیں اور سردیوں کی دہلیز پر قدم رکھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ موسم دن کو گرمی کا احساس ضرور دلاتا ہے مگر شام ڈھلتے ہی اور رات کے وقت کسی حد تک خنکی محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ”اَسو دے دِن سوہنے۔۔ راتاں ہوئیاں ٹھنڈیاں“ اِس میں ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کا احساس بھی ہوتا ہے۔ساون بھادوں کی بارشوں کے بعد فضا صاف اور معطر جبکہ سبزہ شاداب نظرآتا ہے۔ ہمارے ہاں کھیت کھلیان دیکھنے کو کم ملتے ہیں ماسوائے جنوبی علاقہ میرپور اور بھمبر کے جہاں پنجاب کا رنگ کسی حد تک زمینداروں کسانوں نے اپنا رکھا ہے۔ انہوں نے بھی اِس موسم کیلئے چاول اور مکئی کی فصل کاشت کی ہوتی ہے جس کی کٹائی وہ اَسو میں کرتے ہیں جبکہ ہمارے شمالی علاقے مظفرآباد، راولاکوٹ، باغ، نیلم و لیپہ وادی بڑے چھوٹے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے اِن کی اونچی نیچی ڈھلوانوں پر خودروگھاس نکل آتی ہے جسکی کٹائی بھی اِسی ماہ میں مکمل کی جاتی ہے۔ اِن علاقوں میں اگرچہ مکئی کی کاشت ضرور ہوتی ہے لیکن یہاں چاول یا دھان کی فصل نا پید ہے اِسکی ایک بڑی وجہ زمین کا میسرنہ آنا اور دوسرا آب وہوا کا اِس فصل کیلئے سازگار نہ ہونا بھی ہے۔ چند علاقوں میں چاول ضرور دیکھنے کو ملتا ہے جیسا کہ وادی لیپہ میں ایک خاص قسم کا سرخ رنگ کا موٹا چاول پیدا کیا جاتا ہے لیکن یہ اُسی علاقے تک محدود ہوتا ہے اِسے ”سگداس“ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چاول اور مکئی کی فصلیں پنجاب کی نسبت تھوڑا دیر سے تیار ہوتی ہیں اِن میں چند ایام کا ہی فرق رہ جاتا ہے۔ آج کل گھاس کٹائی بڑے زوروشور سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ہمارے چھوٹے زمیندار اور خاص طور پر مزدور بھائی جواپنے روزگار کے متلاشی ہوتے ہیں شہر میں سرگرداں نظرآتے ہیں۔ اُنہیں بھی آج کل گھاس کٹائی کی وجہ سے باآسانی روزگار دستیاب ہو جاتا ہے۔ہمارے مزدور بھائی جو دوسرے شہروں سے رزق کی تلاش میں یہاں آئے ہوتے ہیں اُنہیں ہمارے خوشحال زمیندار اچھے خاصے داموں میں گھاس کٹائی پر مامور کر لیتے ہیں۔ یہ باتیں اَب زبان زدِعام ہو گئی ہیں کہ ہمارے زمیندار سہل پسند ہو گئے ہیں۔ اَب وہ کام کاج سے کتراتے ہیں اب یہ لوگ دیہاتوں میں کھیتی باڑی کے کاموں سے دُور بھاگتے ہیں اَب یہ اشیائے خورودونوش بازار سے لانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِنکے ہاں اَب دیسی انڈہ، دودھ، گوشت، سبزیاں، پھل سبھی کچھ ناپید نظر آتا ہے۔ نئی نسل نے اب شاید تعلیم کے میدان میں کامیابیاں حاصل کر لی ہیں وہ روزگار کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرتے ہیں لہٰذا اپنی قدیمی اور آبائی روایات سے رفتہ رفتہ دُورہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگوں نے اِس شوق کو ابھی بھی زندہ رکھا ہوا ہے وہ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اِن روایات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کے ہاں ابھی تک دیسی مرغ پالے جاتے ہیں اور سبزیاں اُگائی جا رہی ہیں۔ وہ اچھی نسل کے مویشی پالنے کو نہ صرف شوق سمجھتے ہیں بلکہ خوشحال زِندگی کا ضامن بھی تصور کرتے ہیں۔ گھاس کٹائی کیلئے ہمارے ہاں ایک مخصوص لفظ ”لیتری“ کا استعمال ہوتا ہے۔ گھاس کٹائی کے دوران لیتری میں ڈھول بجائے جاتے ہیں، ڈھول کی تھاپ پر ہمارا دیہاتی بھائی بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ ہا تھوں میں درانتی تھامے کٹائی کا سلسلہ دن بھر جاری رکھتے ہیں۔اِس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کیلئے اچھے کھانے سے تواضح بھی کی جاتی ہے۔ مجھے دیہاتی زِندگی بے حد پسند ہے مگر میری آنکھ اِس ماحول میں نہیں کھلی لیکن میں اِن کی شاندار سماجی ومعاشرتی روایات میں بہت دلچسپی لیتا ہوں اگرچہ میں اِس میں تہی دامن ہوں لیکن میری صحبت میں بہت سارے ایسے دوست و احباب ہیں جو اِس ماحول میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ہیں۔اُن سب نے تعلیمی میدان میں بھی نام کمایا، اپنے اپنے پیشہ میں مشاہدات اور تجربات کے لحاظ سے خوب جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن اپنی دیہاتی زِندگی کے ساتھ وابستگی کو بھی خوب نبھاتے ہیں۔ میں اکثر اُن کے ساتھ محافل میں شریک رہتا ہوں تو اس خوبصورت دیہی زِندگی کے مختلف پہلوؤں کو جانچنے کا خوب ملتا رہتا ہے۔ ہمارے زمیندار اور دیہاتی بھائی جب گھاس کٹائی کا عمل مکمل کر لیتے ہیں تو پھر وہ چھوٹی چھوٹی گٹھوں میں جو تقریباً 200سے 400گرام تک کی ہوتی ہیں کو دھوپ میں سکھانے کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں چند دِنوں میں اِن سب کوایک جگہ اکٹھا کردیا جاتا ہے جسے ”گھاڑہ“ کہا جاتا ہے۔ اور اِن کی تہوں کو اِس طرح سے استوار کیا جاتا ہے کہ وہ موسمی اثرات سے ہر لحاظ سے محفوظ رہتی ہیں۔ اِن میں بعض لوگ مکئی کے ”ٹانڈے“ بطور ”کڑب“ شامل کر لیتے ہیں اور یہ اُنہیں سارا سال اپنے مویشیوں کیلئے بطور چارہ زیراستعمال لاتے ہیں۔ اِس ماہ میں باالخصوص پنجاب میں چاول یا دھان اور مکئی کی فصل بھی کاٹی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں علاقائی زبان میں گھاس کو ”گاڑھا“ چاول کو ”پسا“ اور مکئی کو ”لڑی“ یاکُکرا کہا جاتا ہے۔ گھاس کٹائی کے ساتھ ساتھ اگر مکئی بھی کاٹی جائے تو اِس کے سٹے کو الگ کرکے ”کڑب“ کو گھاس میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مکئی کے دانے کے حصول کیلئے ایک گڑھا تیار کیا جاتا ہے جسے ”کوہلی“ کہتے ہیں اِسی طرح چاول کے دانے صاف کرنے کیلئے ایک مخصوص اوزار ”پھے“ یا”سانگی“ ہوتی ہے جسے ہندی زبان میں ”ترشول“ بھی کہتے ہیں۔اِس کے ذریعے سے چاول کے دانے کو پرالی سے الگ کیا جاتا ہے اور پرالی جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال میں لائیجاتی ہے۔
میرا چونکہ اپنا بھی اِس شعبے سے تعلق رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزگار کا سلسلہ اِسی میں بنائے رکھا اگرچہ اَب اذکارِ رفتہ ہو گیا ہوں لیکن میرے ناقص علم کے مطابق اِس گھاس کی Nutritive value بہت کم ہوتی ہے اِس سے جانوروں کی نشوونما یا دودھ کی پیداوار میں کوئی خاص اَثر نہیں پڑتا لیکن چونکہ شدید سردی کے موسم میں سبزچارہ کی فراوانی ہمارے علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لہٰذا ہمارے زمنیدار بھائی جانوروں کا پیٹ بھرنے کیلئے اِسی کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اَب جبکہ مارکیٹ میں جانوروں کے چارہ جات کی صورت میں جدید تحقیق شدہ ”ونڈا اور سائیلج“ وغیرہ بھی دستیاب ہو گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہر ایک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ اِس طرح ہمارے سفید پوش دیہاتی بھائیوں کا زیادہ تر انحصار اِسی گھاس پر ہوتا ہے۔ لہٰذا و ہ ا ِس گھاس کی کٹائی اور پھر اِس کو محفوظ بنانے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ جھاڑے کے سخت موسم میں وہ اپنے جانوروں کو یہی گھاس کھلا کر اُن کو زِندگی کا ساماں مہیا کرتے ہیں۔ آج کل دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ جہاں اِن دیہاتی بھائیوں کو گھاس کٹائی سے راحت محسوس ہوتی ہے وہ خوشی اور شادمانی سے اِس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مصروف ہو جاتے ہیں وہاں اُن کی زِندگی کو خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ وہ پہاڑوں کی کھڑی ڈھلوانوں پر اپنی جان کوخطرے میں ڈال کر گھاس کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ چھوٹی سی لرزش اُن کوکسی بڑے حادثے کا شکار کر سکتی ہے اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اِس موسم میں گھاس کٹائی کے دوران سانپ کے کاٹنے کے واقعات بھی عام ہو جاتے ہیں ہمارے ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق اِس موسم میں سانپ کے ڈسے ہوئے مریض کثیر تعداد میں آتے ہیں اِن کا بروقت علاج ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارے ہسپتالوں میں موجود انتظامات پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ہمارے متعلقہ اداروں کو اِس اَمر کو یقینی بنانا چاہیے کہ سانپ کے ڈسے کی ضروری ادویات یا Polyvalent anti snake venom کا ہسپتالوں میں ہمہ وقت موجود ہونا ضروری ہے۔ یہ دوائی تمام رولر ہیلتھ سنٹرز میں بھی میسر ہونی چاہیے تا کہ بروقت استعمال سے انسانی زِندگی کو بچایا جا سکے۔ ہمارے دیہاتی بھائی جن کی خوش حال زِندگی کا دارومدار اِن جانوروں مویشیوں کو پالنے سے وابستہ ہے اُنہیں چارہ مہیا کرنے کیلئے جو تگ و دو گھاس کاٹنے کی صورت میں کرنا پڑتی ہے اُس کیلئے ضروری ہے کہ اُنہیں گھاس کٹائی کے دوران کسی قسم کے حادثے یا نقصان کا احتمال نہ رہے۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button