کالمز

آزاد کشمیر کا کھوکھلا آئینی نظام

آزاد کشمیر کا نام محض ایک جغرافیائی شناخت نہیں بلکہ ایک تاریخی، فکری اور انقلابی پس منظر رکھتا ہے۔
اس تصور کی بنیاد 12 مئی 1946 کو ضلع اننت ناگ کے علاقے کابا مرگ میں رکھی گئی، جہاں پنڈت پریم ناتھ بزاز اور عبدالسلام ہاتو کی قیادت میں“کسان مزدور کانفرنس”منعقد ہوئی۔
یہ اجلاس ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے نظریے پر مبنی تھا۔
اس کانفرنس کے پنڈال کے مرکزی دروازے کو“آزاد کشمیر گیٹ”کا نام دیا گیا — ایک ایسا عنوان جو بعد ازاں پوری تحریکِ آزادی کا علامتی استعارہ بن گیا۔
1947 کا خواب اور اس کی حقیقت: تقسیمِ ہند کے بعد 24 اکتوبر 1947 کو ریاست کے آزاد حصوں میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس حکومت میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ مواصلات جیسے ریاستی خدوخال شامل تھے — مگر یہ آزادی محض علامتی تھی، حقیقی نہیں۔
جنگ بندی کے بعد، یکم جنوری 1949 کو، آزاد کشمیر کے صدر اور مسلم کانفرنس کے سربراہ نے 28 اپریل 1949 کو کراچی معاہدہ پر دستخط کیے۔
اس کے تحت ریاست کے دفاع، خارجہ، کرنسی، مواصلات اور مہاجرینِ کشمیر کے تمام اختیارات حکومتِ پاکستان کے سپرد کر دیے گئے۔
یہ معاہدہ نوعیت کے اعتبار سے تقریباً ویسا ہی تھا جیسا 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کے وقت کیا تھا۔
فرق صرف اتنا رہا کہ بھارت نے کشمیر کو آئینی طور پر ضم کر لیا، جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر کو آئینی حیثیت دینے سے گریز کیا۔
آزادی کا مفہوم اور دو عملی کی جڑیں: انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 کی دفعہ 7 کے مطابق، ریاست جموں و کشمیر 15 اگست 1947 کو قانونی طور پر آزاد ہو چکی تھی، کیونکہ معاہدہ امرتسر اس تاریخ کو کالعدم ہو گیا تھا۔
ریاست کے ایک حصے میں عوام نے 24 اکتوبر کو اپنی حکومت بنائی، جبکہ مہاراجہ نے 26 اکتوبر کو بھارت سے الحاق کیا۔
یوں یہ علاقے مہاراجے کے الحاق نامے کا حصہ نہیں کہلائے جا سکتے، البتہ تنازعہ ضرور پیدا ہوا۔
بھارت نے ان علاقوں کو اپنے آئین میں“ریاستِ جموں و کشمیر”کے طور پر شامل کر کے صوبائی حیثیت دی،
جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر کو صرف“آزاد علاقہ”قرار دیا — ایک ایسا علاقہ جس کی آئینی شناخت مبہم ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز آج تک آزاد کشمیر کو“آزاد”اور“غیر ملکی علاقہ (foreign territory)”کے بیانیے میں پیش کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی قیادت نے بھی اسی تاثر پر سیاست کو پروان چڑھایا — اسے“بیس کیمپ”اور“ریاست کی نمائندہ حکومت”قرار دیا، حالانکہ آئینی و قانونی طور پر یہ محض تعبیری فریب تھا۔ یہی دو عملی بعد ازاں خودمختار کشمیر کے نعرے کی بنیاد بنی، جس نے پاکستان کے لیے فکری اور سیاسی چیلنج پیدا کیا۔
قانونی گرفت، شہری محرومی: 1950 سے 1974 تک کے قانونی اقدامات کے نتیجے میں پاکستان نے آزاد کشمیر پر اپنی انتظامی گرفت مضبوط کر لی۔ آزاد کشمیر کو صوبہ بنائے بغیر صوبائی ذمہ داریوں کا پابند کیا گیا، مگر اسے پاکستان کے آئین میں واضح جگہ نہیں دی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے شہری پاکستانی آئین کے تحت پاکستانی شہری نہیں مانے جاتے، جبکہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے افراد کو پاکستان میں آباد کر کے شہریت دے کر اسمبلی اور حکومت میں جگہ دی گئی۔ یوں 1974 کے عبوری آئین کے تحت وہ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک چوتھائی نشستوں اور 25 فیصد سرکاری ملازمتوں پر قابض ہیں، حالانکہ ان کا تعلق آزاد کشمیر سے نہیں۔ یہ نوآبادیاتی بندوبست عوام میں بداعتمادی پیدا کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں یہ تاثر عام ہے کہ اسمبلی کی مخصوص نشستیں اور ملازمتوں میں کوٹہ مقامی آبادی کو کمزور کرنے کا آلہ بن چکا ہے۔
عوامی بیداری اور ریاستی کمزوری:عوامی ایکشن کمیٹی کی حالیہ تحریک نے یہ واضح کر دیا کہ
آزاد کشمیر کے حقیقی سیکیورٹی اثاثے یہاں کے عوام ہیں — وہ عوام جن کے جان و مال کے مفادات اسی خطے سے وابستہ ہیں، نہ کہ وہ جو آزاد کشمیر سے محض نسلی نسبت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آئی جب عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر وفاقی حکومت نے براہ راست مذاکرات کیے اور 99 فیصد نکات تسلیم کیے — یہ اس امر کی گواہی ہے کہ عوام کی آواز کو اب مزید دبایا نہیں جا سکتا۔
مہاجرینِ کشمیر کا تصور: ایک ادھورا استدلال
“مہاجرینِ کشمیر مقیم پاکستان”کا تصور کراچی معاہدے کی اختراع ہے۔ سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں اس اصطلاح کا وجود نہیں۔ قرارداد نمبر 47 (1948) میں صرف یہ کہا گیا کہ جو شہری فسادات کی وجہ سے بے گھر ہوئے، انہیں اپنے گھروں میں واپس جا کر اپنے حقوق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ“واپسی کا حق”تھا، نہ کہ“سیاسی نمائندگی”کا۔ سر اوون ڈکسن کی 1950 کی رپورٹ میں بھی“displaced persons on both sides of the ceasefire line”کہا گیا، جو محض انسانی ہمدردی کے زمرے میں آتا ہے، نہ کہ کسی آئینی اختیار کے-
آئینی خلا اور سیاسی بے ربطی: آزاد کشمیر کا آئین صرف ان علاقوں پر لاگو ہوتا ہے جو آزاد حکومت کی عملداری میں ہیں۔ پاکستان میں آباد کشمیری النسل شہری جو وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں، ان کا آزاد کشمیر کے معاملات میں براہِ راست کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آزاد کشمیر کو واقعی ریاستِ جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جائے تو صورتِ حال بدل سکتی ہے — مگر یہ تصور پاکستان کے لیے سیاسی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
سلامتی کونسل کا خاکہ اور زمینی حقیقت: سلامتی کونسل نے آزاد علاقوں کو“لوکل اتھارٹی”کی صورت میں تشکیل دینے کی تجویز دی تھی۔ جوزف کاربل کے مطابق یہ علاقے پاکستان کی ہائی کمان کے تحت مگر سلامتی کو نسل کی نگرانی میں خودمختار ہونے چاہیے تھے۔ مگر پاکستان نے انہیں صوبائی نوعیت کے علاقے بنا کر کابینہ ڈویژن کے 1970 اور 1986 کے نوٹیفکیشنز سے آئینِ پاکستان کی دفعہ 19 کے تحت تحفظ دے رکھا ہے۔
عصرِ حاضر کا تقاضا: نیا عمرانی معاہدہ: آج پاکستان کے پالیسی ساز خود بھی آئینی ابہام کے جال میں الجھے ہوئے ہیں، حالانکہ آئینِ پاکستان کی دفعات 1(2)(d) اور 1(3) انہیں ایسے علاقوں کو وفاق کا حصہ بنانے کا اختیار دیتی ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے آزاد کشمیر کے حقوق کو ایک بین الاقوامی اور قومی بحث بنا دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ان کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کیے ہیں، جبکہ باقی کے لیے ایک وسیع البنیاد کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، عصرِ حاضر کے تقاضوں اور زمینی حقائق کے مطابق ایک دور رس اور دیرپا عمرانی معاہدہ وضع کیا جائے — ایسا معاہدہ جو دونوں کے آئینوں میں ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر کو اس کے حقیقی آئینی، سیاسی اور عوامی وقار کے مطابق مقام دے سکے، اور کھو کھلے آئین کو با معنی بنایا جائے –
٭٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button