دھوپ چھاؤں، اپنا گاؤں

میں جو بات آج کرنے لگا ہوں یہ جیون کی،زندگی کی بات ہے اس میں عمر کے کم یا زیادہ ہونے کا کوئی زیادہ دخل نہیں ہے، انسان یا حیوان ہونے کی بھی کوئی تفریق نہیں ہے،انسان چونکہ حیوان ناطق ہے، اس لئے بنیادی بات ہر ذی روح پر صادق ہے، اس دنیا میں ہر کسی کا ایک اپنا مکان،گھونسلہ،احاطہ یا کوئی غار،کچھار یا کوئی بِل ہوتا ہے، یا وہ خودبناتا ہے پھر اس میں رہتا ہے،اپنے بچوں کو رکھتا ہے اور اسے گھر کہتا اور سمجھتا ہے، اس سے پیار کرتا ہے،اس کی حفاظت کرتا ہے،اور اُس میں آکر سکون محسوس کرتا ہے، قارئین،اپناگھر محلہ اورگاؤں ہر ایک کو بھلا لگتا ہے،اور ہر جھلّا کلاّبھی اپنے گھر کا راستہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے،دور سے ہی اپنے گھر کی منڈیر کو تکتا ہے تو بھاگ کر اپنی چار دیواری،اپنی جنت میں چلا جاتا ہے،اور رات سے پہلے جو میسر ہو،روکھی سوکھی کھاتا ہے اور لمبی تان کے سو جاتا ہے، انسانوں کے علاوہ یہی چلن،یہی دستور سب انسانوں،حیوانوں،چرند،پرند، درندسبھی کا ہوتا ہے، لیکن جب کبھی کسی بھی مخلوق کا توازن بگڑ جائے، روش بدل جائے تو وہ فطرت کے حفاظتی دائرے سے نکل کر سب سے پہلے اپنے گھر کا تقدس بھولتا ہے،پھر دوسروں کے گھروں کا احترام،پھر زندگی کے صبح شام، پھر اپنا نام، نصب،اپنا کسب،اپنا کام،پیار ومحبت کے جام سب بھول جاتا ہے اور حالات کا، مادیت کا،سامراجیت کابن جاتا ہے غلام،اور کھو دیتا ہے اپنا مرتبہ ومقام،اور ہوجاتا ہے بے نام،،، اپنی عقل،اپنی شکل،اپنی صورت کھو کر رہ جاتا ہے بس ایک مورت،پھر کیا انسان،کیا حیوان،کیا چرند،کیا پرند، اور باقی رہ جاتا ہے صرف ایک درند، جس کا کام صرف چیر پھاڑ،چھین چھپٹ ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وقت گذرنے کے بعد پھر وہ زندگی بھر صرف کھوتا ہے، روتا ہے، ہاتھ ملتا ہے مگر پھر اس سے کچھ بھی نہیں سنبھلتا،اور یوں پرواز کرنے والا ایک شاہین بھی ایک رینگنے والا کیڑا بن کر رہ جاتا ہے، اگر بہکنے والا کوئی نادان انسان ہوتو،،، قارئین انسانوں سمیت ہر مخلوق کے اپنے اپنے دائرے ہوتے ہیں، اور ان دائروں کی نظر نہ آنے والی بیرونی دیواریں ایک دوسرے سے جُڑی ہوتی ہیں ان دائروں سے باہر اکثر کوئی بھی مخلوق نہیں نکلتی ہے، ورنہ مخلوقات میں تصادم کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے،اور یہ بھی یاد رہے کہ انسانوں کے اجتماعی بڑے دائرے کے اندر دوسری مخلوقات و حشرات کی طرح ذات کے گرد بھی دائرے ہوتے ہیں، اب اگر انسان اس دائرے سے نکل جائے تو پھر اس کے گھر،گلی اورمحلے کے ساتھ ساتھ اس کے گاؤں،اس کے شہراور اس کی ریاست و ملک تک پر اس کے عمل اسکے تجاوز کے اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں،اور پھر دوسرے انسانوں کے نام،کام، مقام، آرام اور امن کیلئے انسانوں کی قائم کردہ ریاستیں اس انسان کے دائرے کو محدود کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، اسے باغی، دہشت گرد اور جانے کیا کیا نام دینے لگتی ہیں، اسے پابند سلاسل کر دیتی ہیں،گاؤں،شہر،علاقہ اور ریاست بدر کر دیتی ہیں، یہی دستور باقی سب مخلوقات کا بھی ہے جو شاید انسانوں سے کچھ مختلف بھی ہو سکتا ہے مگر قانون ضابطہ،جزا، سزا، کا عمل فطری ہے،اور ہر ذی روح کو فطرت کے تابع ہی ہو کر رہنا پڑتا ہے اور ہر ایک کو رہنا بھی چاہئے، کہ فطرت کے خلاف کوئی بھی نہیں چل سکتا نہ ہی باقی رہ سکتا ہے،، مگر انسان چونکہ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے،اور اپنی عقل،سمجھ،دانش،حکمت اور شعور کی بنا پر اشرف بھی ہے،مگر اس دنیا کی فلاح، تعمیر،ترقی،امن،مساوات دی گئی عقل کو فطرت کے انہی قواعد کے خلاف استمال کرنا بھی کوئی اسی حضرت انسان سے سیکھے، یہ ینسان ہی ہے جو سب سے پہلے اپنے فطری، قدرتی دائرے کو توڑتا ہے، دوسرے سارے جانداروں کی زندگیوں کو ڈسٹرب کرتا ہے، ماحول کو برباد کرتا ہے، نیچر کا احترام بھول کر اپنی وقتی آسائشوں،دوستیوں اور خاص کر دشمنیوں کو پروان چڑھانے کے لئے قانون فطرت کی مخالف سمت دوڑتا ہے، درمیان میں یہ انسان مہذب بھی ہو گیا تھا، جمہوریت، انسانیت،احترام آدم، وغیرہ کے نام پر اچھی خاصی آدمیت دکھانے لگا تھا، خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد یو لگتا تھا کہ حضرت کو عقل آگئی ہے انسان کی عقل داڑھ نکل آئی ہے،مگر چند ہی دہائیوں بعد اس نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھانا شروع کر دیا، پھر ویت نام کی داستانوں سے بڑھتے بڑھتے ہم نے کویت،عراق،افغانستان، مصر، شام، ایران،فلسطین غزہ میں ان انسانوں کی وہ وحشت دیکھی کہ وحشی بھی شرما جائیں،ہلاکواور چنگیز بھی گھبرا جائیں، مگر اس سے بڑا المیہ،ملکوں اور ریاستوں کے اندر اپنے ہی لوگوں کا،کیمیونٹیز کا،مذاہب کا استحصال انسان کو انسانیت کے مقام سے بہت نیچے پاتال میں گراتا چلا جا رہا ہے، یورپ تو پھر بھی دنیا بھر سے دولت سمیٹ کر اپنے لوگوں کو ریلیف دے رہا ہے لیکن ایشیا اور افریقہ کی پرانی کالونیاں آج بھی سامراج کے بنائے ہوئے قوانین کے زیر اثر اپنے ہی لوگوں کو غلامی،جبر اور استحصال کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، اور ان تمام غلام اور کالونی رہنے والے مملک میں اتنا لاوا پک رہا ہے کہ جو کسی بھی وقت اپنی ہی مملکتوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے، اس اکیسویں صدی میں مملکتوں کی طرف سے اپنی ہی عوام کا استحصال پھر ورلڈ بنک اور خصوصاََ آئی ایم ایف کی چالبازیاں لوگوں کو غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیلے جا رہے ہیں، اگر دنیا نے،افریقہ و ایشیا نے اپنی روش نہ بدلی تو کسی بھی بہانے سے وہ خود اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں جلا بیٹھیں گے، اب آخر میں پاکستان و آزاد کشمیر کو اس صورت حال سے جوڑتے ہیں، ہم سب نے بہت دھوپ چھاؤں دیکھی ہے،یہ ملک ہمارا گھر ہے، یہ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے، ویلج کے سارے باسی بھائی بھائی ہوا کرتے ہیں ایک ہی خاندان کی طرح رہا کرتے ہیں ایک دوسرے کے سکھ دکھ،غمی خوشی میں شریک ہوا کرتے ہیں، لیکن یہ دنیا اب ایک گاؤں کے بجائے کئی ایک سیاروں کی طرح ہو گئی ہے، ایک سیارے کی مخلوق دوسرے کو اپنا بیری خیال کرتی ہے،پھر بڑی طاقتیں ان سارے زمینی سیاروں کو اپنی اپنی کالونیاں بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، جن کو عملی غلامی سے آزادی ملی تھی انہیں معاشی اور اقتصادی طور پر اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، اس کیلئے اسلحہ بارود،ایٹم بم اور جانے کون کون سے لیزر بم تک استمال کر رہے ہیں اپنی چار دیواری میں مصنوعی امن بنا کر باقی کی ساری دنیا کو پراکسی کے ذریعے جلا کر رکھ دینا چاہتے ہیں،ہمارا ملک بھی اس کا شکار ہے، لیکن کیا 200برس کی عملی،علمی، ثقافتی غلامی کے بعد کیا ہم اب معاشی غلامی قبول کر لیں گے، ہمیں کرلینی چاہئے، نہیں یقیناََ نہیں کوئی بھی پاکستانی، ان میں کشمیری،پنجابی،سندھی، بلوچی، پختون یا جی بی والا ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سب خطرات کے باوجود بھی ہم نے اندرونی انصاف بھی قائم نہیں کر سکا، یہاں آج بھی نہ صرف انسانی حقوق بلکہ عدل و انصاف کی صورت بہت بھیانک ہے، ہو چکی ہے،خاص طور پر معاشی و اقتصادی استحصال نے ملت کو برباد کر ڈالا ہے، مختلف کیمیو نٹیز اور علاقوں،سرکاری اداروں میں احتجاج اور ھڑتالوں کے سلسلے جاری ہیں،جو خصوصاََ ملت کے اتحاد اتفاق،اور بھائی چارے کو دھیمک کی طرح چاٹ چکا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں ادارے اور کیمیونٹیتز اپنے فطری دائروں میں واپس آئیں،ورنہ خدشہ ہے کہ ہمارا چلن ہماری ملت کی عز ت ووقار اور حرمت کو لے ڈوبے گا، میرا رب وہ وقت آنے سے پہلے تمام چھوٹے بڑے حکمرانوں کوعقل و فہم عطا کرے، تاکہ ہم بھی دنیا میں سر بلند کر کے چل سکیں۔