کالمز

یومِ تاسیس اور یومِ سیاہ — قربانیوں اور عہدِ وفا کی داستان

ریاستِ جموں و کشمیر کی تاریخ کوئی عام تاریخ نہیں،یہ قربانیوں، آنسوؤں، لہو اور وفاؤں سے لکھی گئی ایک حقیقی داستانِ عشق ہے۔یہ داستان اُس قوم کی ہے جس نے غلامی کے سائے تلے جینے سے انکار کیا۔جس کے گھروں سے اذانوں کی صدا بلند ہوئی، جس کے بچوں نے کلمہ پڑھ کر جانیں نچھاور کیں اور جس کے جوانوں نے اپنے سینوں کو گولیوں کے سامنے ڈھال بنایا تاکہ دنیا جان لے کہ کشمیر کے لوگ بھارت کی غلامی کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ 1947 کی خزاں ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ دو ریاستیں وجود میں آئیں۔اصول صاف تھا: مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں، ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں۔مگر بھارت کی فریب کاری اور ڈوگرہ مہاراجہ کی مکاری نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ریاست جموں و کشمیر، جس کی ہوا میں ”لا إلہ إلا اللہ” کی گونج تھی،اُسے زبردستی بھارت کی گود میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ 19 جولائی 1947 کو جب پوری ریاست نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیاتو یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں ایک ایمان کا اعلان تھا۔مگر بھارتی سازشوں نے اس ایمان کو خون میں نہلا دیا۔ اکتوبر 1947 میں جب مہاراجہ نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پرانی دشمنی کی بنیاد پرفوج اور پولیس کے مسلمان سپاہیوں کو غیر مسلح کر دیاتو ریاست کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا۔ہندو انتہا
پسندوں نے ڈوگرہ حکومت کی سرپرستی میں پونچھ، راجوری اور جموں کے باسیوں پر قیامت ڈھا دی۔یہ ظلم دیکھ کر سرحد پار کے مسلمان قبائل اپنے بھائیوں کی مدد کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ کوئی حملہ نہیں تھا، ایمان کی پکار پر لبیک کہنا تھا۔اکتوبر کی وہ سرد راتیں جب ڈوگرہ فوج نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کی۔زمین لرز اٹھی، آسمان رو پڑا۔“پاکستان زندہ باد”کہنے والوں کے گلے کاٹ دیے گئے،ماؤں کے سامنے بیٹے ذبح کیے گئے اور مسجدوں کے مینار خون سے رنگ گئے۔ 6 نومبر 1947 تک جموں کے کوچے شہداء کے لہو سے سرخ سمندر بن چکے تھے۔ڈھائی لاکھ مسلمان صرف اس جرم میں قتل کیے گئے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے مگر ظلم کی اس تاریکی میں ایک روشنی پھوٹی۔مظفرآباد کی وادیوں میں آزادی کی شمع جل اٹھی۔24 اکتوبر 1947 کو غیور کشمیریوں اور مہاجرین مقبوضہ جموں وکشمیر نے مل کرآزاد جموں و کشمیر میں انقلابی حکومت کی بنیاد رکھی۔یہ محض حکومت نہیں تھی، یہ غلامی کے خلاف بغاوت کا اعلان اوروفا کے عہد کی تجدید تھی۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری آزادی کسی عنایت نہیں بلکہ یہ شہداء کے خون سے لکھی گئی امانت ہے۔ لیکن تاریخ کے صفحات میں ایک اور دن بھی رقم ہے۔27 اکتوبر، ظلم و
سیاہی کا دن۔یہ وہ دن تھا جب بھارت نے فوجی جوتوں سے وادی کے چہرے کو روند ڈالا۔ایک قوم کی آزادی سلب ہوئی، انسانیت کا گلا گھونٹا گیا۔تب سے آج تک چھ لاکھ سے زائد کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں بے نام قبروں میں دفن ہیں، لاکھوں اپنے گھروں سے بے دخل ہیں۔ہر گلی میں ایک ماں بیٹے کی راہ تکتی ہے،ہر وادی میں بہن کی آنکھ پتھر بنی ہوئی ہے اور ہر قبر کے نیچے پاکستان کی محبت کی داستان سو رہی ہے۔اسی لیے کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ دنیا جان لے کہ بھارت کا قبضہ آج بھی غیر قانونی ہے اور آزادی کی تڑپ آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ آزاد کشمیر میں بسنے والے مہاجرینِ مقبوضہ جموں و کشمیروہ زندہ ثبوت ہیں جو ظلم کی آگ سے گزر کر ایمان کی روشنی لائے۔ان کے جسم وقت کے ہاتھوں تھک چکے ہیں، مگر ان کے دلوں میں وطن کی خوشبو آج بھی زندہ ہے۔37 برس بیت گئے، نسلیں بدل گئیں،مگر ان کی آنکھوں میں وہی امید جھلکتی ہے کہ خونی لکیر مٹے گی،اذان پھر سری نگر کی فضاؤں میں گونجے گی اور پاکستان کا پرچم لال چوک میں لہرائے گا۔ان کے خیموں میں مایوسی نہیں، یقین کی روشنی ہے۔یہی روشنی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ24 اکتوبرجشن نہیں، عہدِ وفا کی تجدید ہے اور 27 اکتوبر سوگ نہیں، ظلم کے خلاف بغاوت کا استعارہ۔ لیکن افسوس!آج وہی مہاجرین جنہوں نے بیس کیمپ کو زندگی بخشی،خود مسائل کے اندھیروں میں گم ہیں۔ان کے خیمے خستہ حال، ان کی زمین بنجر، ان کے خواب ادھورے۔حکومت پاکستان نے جون 2022 میں پہلے مرحلہ میں 750 گھروں کی تعمیر کیلئے فنڈز دیے،مگر افسوس! آزادکشمیر حکومت کی سست روی نے ابھی تک 100 گھر بھی مکمل نہیں کیے۔مہاجرین جموں وکشمیر کی فلاح و بہود کیلئے کام کرنیوالے ادارے کی نگرانی میں سٹیلائیٹ ٹاون ٹھوٹھہ این جی او نے تیس گھر، ایک ہسپتال بنا کر دیا جس سے وہاں مقیم مہاجرین کو کافی ریلیف ملا ہے۔ اسی طرح وہاں ہنرمندی کے اسکول بنا کر اپنی ذمہ داری نبھائی۔ مگر حکومتِ آزادکشمیر کہاں ہے؟مہاجرین کیمپوں میں رہائشی مسائل دیگر بنیادی ضرورتوں کو کم از کم انسانی بنیادوں پر پورا کیا جائے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے۔ آج بھی سیکڑوں خاندان کرایے پر رہائش پذیر ہیں، بعض کیمپوں میں ایک ایک گھر میں تین تین فیملیاں رہائش پر مجبور ہیں، بچے جوان ہو چکے ہیں وسائل اور گھر نہ ہونے کی وجہ سے شادی تک نہیں ہو رہی ہے۔ معاشرے میں نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے مثبت اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ مانک پیاں مہاجر کیمپ کے مکین آج بھی بغیر پل کے ایک آہنی رسیوں پر نصب ڈولی کے ذریعے دریا پار کرتے ہیں،دومیل سیداں کی سڑک تعمیر آج بھی خواب ہے۔ٹھوٹھہ کے علاوہ بہت سارے مہاجرین کے کیمپوں میں نہ صحت کی سہولت ہے، نہ تعلیم کی روشنی۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانا مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ غفلت نہیں یہ قوم کے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ان کے مسائل کا حل صرف انتظامی ضرورت نہیں،بلکہ قومی فریضہ، ایمانی قرض، اور وفا کی آزمائش ہے۔اگر ان کے زخموں پر مرہم نہ رکھا گیا،تو ہمارا بیس کیمپ صرف ایک نقشہ رہ جائے گا، تحریک نہیں۔ آئیے۔اس یومِ تاسیس پر ہم عہد کریں ہم اس مشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے:ریاستِ جموں و کشمیر کی مکمل آزادی اور پاکستان سے الحاق تک۔ہم ہر شہید کے خون، ہر ماں کے آنسواور ہر مہاجر کے دکھ کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو تحریکِ آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور یہی وہ ایمان ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے چراغِ راہ بنے گا۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button