کالمز

مسدس حالی۔۔۔اردو کا شاہکار

صاحبو! بعض تحاریر انسان کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیتی ہیں اور حالی نے مسدس لکھ کر اپنے آپ کو ان لکھاریوں میں شامل کر دیا جو دنیا کے عظیم ترین قلمکار ہیں۔اردو ادب میں جہاں مولانا الطاف حسین حالی کے کئی کارہائے نمایاں ہیں،جنہیں سنہری روشنائی سے نہ لکھنا زیادتی ہو گی لیکن مسدس حالی تخلیق کر کہ اپنا نام اردو ادب میں امر کر دیا۔یہ ان کی طویل نظم مد و جزر اسلام کے نام سے بھی مشہور ہے۔مسدس اردو ادب کا عہد آفریں کارنامہ ہے۔یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ قبول عام ہونے کہ اگلے پچھلے سارے ریکارتوڑڈ الے۔کہا جاتا ہے کہ برصغیر کے طول و عرض میں کئی سال تک قرآن پاک کے بعد جو کتاب سب سے زیادہ شائع ہوئی وہ مسدس حالی تھی۔بقول شخصے جس قدر سرسید نے تحریک علی گڑھ کے ذریعے قوم کی بیداری اور فلاح کا کام کیا،حالی نے اتنا ہی کام مسدس حالی لکھ کر کر ڈالا۔سرسید خود فرماتے ہیں،روز محشر جب اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تو دنیا سے کیا اعمال لایا تو میں کہہ دوں گا کہ میں حالی سے مسدس لکھوا کہ لایا ہوں۔اور کچھ بھی نہیں۔مولانا کی یہ تصنیف سب سے زیادہ مقبول و معروف ہے۔یہ ایک نیا ستارہ ہے جو اردو افق پر طلوع ہوا اور اپنی چمک سے آٹھ کروڑ عوام کی تقدیر بدل ڈالی۔
مسدس کی نقالی کرنے کی کوشش بڑے بڑے شعراء نے کی،لیکن جو شہرت اس کے کھاتے میں لکھی گئی وہ کسی اور نقال کو نصیب نہ ہو سکی۔اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر طبقہء عمر کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے۔اس کتاب کی خوبی ہے کہ یہ معاشرے کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ خاص طور پر بر عظیم کے مسلمانوں کے لئے اس کتاب میں ڈھیروں پند و نصائح ہیں۔ مولانا حالی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہوئے مسلمانان ہند کو وہی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں جو سر سید احمد خان نے تحریک علی گڑھ اور مفکر اسلام نے اپنی شاعری کے ذریعے دینے کی کوشش کی۔حالی مسلمانوں کی سیر و سیاحت کے پیرائے میں رقمطراز ہیں کہ مسلمان اپنے اپنے آبائی علاقہ جات سے نکل کر دور دراز ممالک جیسے سپین میں جبرالٹر اور ہندوستان میں کوہ ہمالیہ تک پہنچ گئے۔
یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مسدس حالی مسلمانوں کے عروج کا آئینہ اور ان کے زوال کا نوحہ ہے۔اس نظم کا مجموعی تأثر تعمیری ہے تخریبی نہیں۔نقادوں کے مطابق مسدس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک مکمل تحقیق اور کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ادباء کا فرمان ہے کہ حالی محض مسدس لکھ دیتے اور کچھ بھی نہ لکھتے تب بھی ان کا شمار قوم کے محسنوں کے حوالے سے سر سید احمد خان اور محسن الملک کے ساتھ ساتھ ہوتا۔سرسید خود مسدس حالی سے حد درجہ متأثر تھے اور فرماتے ہیں کہ اس کے بہت سے بند ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر پتھر سے پتھر دل انسان کا دل پسیج جاتا ہے۔ان کے بقول جو چیز دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے، اور مسدس حالی اصل میں شاعری نہیں بلکہ مولانا کے دل کی آواز ہے۔
حالی خود انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ لفظوں کی شعبدہ گری ان کے ہاں مفقود ہے۔ سیدھی بات سیدھے انداز سے کہنے کے قائل ہیں۔ وہ اپنی طبیعت کے عجز و انکساری کی بدولت مسدس پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں۔،،اس میں تاریخی واقعات ہیں، چند آیات اور احادیث ہیں۔اور میں نے کوشش کی ہے کہ قرآن سے راہنمائی لے کر اور احادیث کی روشنی میں جو قوم کی حالت ہے اس کا نقشہ کھینچوں۔نہ کہیں نازک خیالی ہے نہ کہیں رنگیں بیانی۔نہ مبالغہ کی چاٹ ہے نہ تکلف کی چاشنی۔اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور واہ واہ سننے کے لئے نہیں کی گئی۔اس کو میں نے عزیزوں اور دوستوں کو شرم دلانے کے لئے تحریر کیا ہے ،،۔
حالی کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے دنیا میں معاشی اصول مرتب کئے۔ لیکن آج کا مسلمان کشکول لئے کھڑا ہے۔حالی کے نزدیک برما،سیلون،عرب،ہند،مصر،اندلساور شام مسلمانوں کی ہی دریافت ہیں اور آج بھی یہ ان کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔غرناطہ،قرطبہ اور اشبیلیہ کے کھنڈرات آج بھی
مسلمانوں کے جاہ و جلال کے گواہ ہیں۔مسلمانوں نے دنیا والوں کو ریاضی،طب،کیمیاء،ہندسہ،ہئیت،سیاحت،تجارت،معماری،نقاشی اور جراحی جیسے علوم سے آگاہ کیا۔ لیکن آج کا مسلمان ان سب سے بے بہرہ ہے جس کا مولانا حالی کو دکھ ہے۔
حالی کے نزدیک مسلمانوں کی عظمت تعلیمات اسلامی پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے تھی، لیکن جب سے مسلمانوں نے اللہ کے احکامات اور نبی پاک ﷺ کی سنتیں چھوڑ دیں تو وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ان کے نزدیک آج دنیا میں محض نام کے مسلمان باقی بچے ہیں۔ ان کے اعمال کفار سے بھی بد تر ہیں۔انہوں نے قوم کی بد حالی، اخلاقی گراوٹ،پستی،جہالت اور بے عملی کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ غیرت مند لوگ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں۔
مسدس حالی کی روانی حیرت انگیز ہے۔یوں لگتا ہے کہ دریا امڈا چلا آرہا ہے۔اس کی بنیاد صداقت پر ہے۔مسدس کا معیار اتنا بلند تر اور ارفع ہے کہ علی گڑھ تحریک بھی اس کے مقابلے میں پست نظر آتی ہے۔مسدس کی زبان سادہ ہے اور عوام اور خواص سب کے لئے یکساں مفید۔کسی عالم فاضل یا ڈکشنری کی ضرورت نہیں پڑتی کہ مسدس کا مطالعہ کیا جائے۔ دھیمے دھیمے لہجے میں حالی مسلمانوں کو درس عبرت دے رہے ہیں یوں لگتا ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو لوری کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کا سبق بھی دے رہی ہو۔مسدس میں حالی نے شہد کے ساتھ سرکے کی آمیزش نہیں کی۔ میٹھی بات کو میٹھا کہا اور کڑوی بات کو خلوص دل کے ساتھ کڑوا۔حالی کے آنسو خالص آب حیات کے چھینٹے تھے،دل سے نکلے ہوئے اور درد سے لبریز۔کون ایسا سنگدل تھا جو انہیں ضائع ہونے دیتا اور انہیں پامال کرتا؟
اس نظم میں حالی خود بھی روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں۔اسلام کی عظمت کو وہ خود بھی محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرواتے ہیں۔یہ اصل میں صرف نظم نہیں بلکہ ایک مصلح کا پیغام اور ایک لیڈر کا نعرہ ہے جو کھوکھلا نہیں بلکہ ٹھوس اور معنی آفریں ہے۔حالی نے اس نظم میں اپنے دلی جذبات کو
شدت کے ساتھ اور دل کی عمیق گہرائیوں سے وا کیا ہے۔یہ نظم صرف حالی کی بہترین نظم نہیں بلکہ اردو ادب کی چند ایک گنی چنی نظموں میں سے ایک ہے۔المختصر اگر مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب میں ایک لفظ بھی نہ لکھتے تب بھی ان کی لکھی گئی مسدس جسے مد و جزر اسلام کہا جاتا ہے،رہتی دنیا تک حالی کا نام اردو لٹریچر میں امر کر جاتی۔مسدس حالی سو سال پرانی تحریر ہے لیکن یہ آج کل کے مسلمانوں کے لئے بھی بالکل ایسا لگتا ہے کہ کل ہی اسے حالی نے تحریر کیا ہو۔

Related Articles

Back to top button