کالمز

زلزلہ متاثرین کی بحالی اور پاک فوج کا ناقابل فراموش کردار!

یہ 8 اکتوبر 2005ء کی ایک روشن مگر پُرسکون صبح تھی۔ مظفرآباد کی وادی ہمیشہ کی طرح زندگی سے بھرپور تھی۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ والدین روزگار کیلئے معمول کے مطابق سرگرداں تھے‘کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اگلا لمحہ ان کی زندگی کا آخری منظر بننے والا ہے۔ وقت تھا 8 بج کر 52 منٹ۔اچانک زمین لرزنے لگی۔ پہاڑ دہاڑنے لگے، درخت جھومنے لگے، اور عمارتیں چند لمحوں میں زمین بوس ہو گئیں۔ فضا گرد و غبار سے بھر گئی۔ ہر طرف چیخیں، آہیں، اور ملبے تلے دبے انسانوں کی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ یہ محض زلزلہ نہ تھا، یہ ایک پوری قوم کے دل پر لگنے والا ایسا زخم تھا، جو دو دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہرا ہے۔ریکٹر اسکیل پر 7.6 شدت کے اس زلزلے نے نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ بالاکوٹ اور ملحقہ وسیع علاقوں کو لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
سیکریٹری سیرا ء خالد محمود مرزاکے مطابق یہ زلزلہ آزاد کشمیر کی 56 فیصد آبادی کو متاثر کر گیا۔اس میں 46 ہزار سے زائد شہادتیں ہوئیں، 33 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، اور تین لاکھ سے زائد نجی املاک تباہ ہو گئیں۔ ریاست کے 53 فیصد رقبے پر موجود بنیادی انفراسٹرکچر،جیسے تعلیم، صحت، آب رسانی، نکاسی، مواصلات مکمل تباہی کا شکار ہوا۔ ابتدائی تخمینہ کے مطابق نقصان کی کل مالیت 125 ارب روپے رہی، جس میں 61 ارب روپے نجی املاک اور 64 ارب روپے سرکاری ڈھانچے کا نقصان تھا۔اس قیامت خیز منظر میں، جب ہر سمت مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا گئے تھے، سب سے پہلے جو امید بن کر اُبھرے، وہ پاکستان کی مسلح افواج کے سپاہی تھے۔ وردی میں ملبوس وہ جوان، جنہوں نے نہ صرف اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملبہ ہٹایا بلکہ زخمیوں، بزرگوں اور بچوں کو اپنی بانہوں میں اُٹھا کر موت کے منہ سے نکالا۔ان کے ہونٹوں پر ایک ہی جملہ تھا”ماں جی، ہم آپ کے اپنے ہیں“۔یہ وہ لمحہ تھا جب جذبہ، فرض اور انسانیت ایک ساتھ زندہ ہو کر سامنے آئے۔
یہ وقت قیادت کے امتحان کا بھی تھا، اور اس وقت ملک کی باگ ڈور صدر جنرل پرویز مشرف (مرحوم) کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے صرف احکامات نہیں دیے، بلکہ خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، عالمی برادری کو متحرک کیا، اور ایک ”عالمی ڈونرز کانفرنس“ کے ذریعے 6.3 بلین ڈالر سے زائد کی امداد حاصل کی۔زلزلے کے بعد حکومت پاکستان نے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے ”آپریشن لائف لائن“ کے تحت کام کا آغاز کیا، اور ایک تاریخی اقدام کے طور پرایرا (ERRA) اورسیرا (SERRA) جیسے ادارے قائم کیے گئے۔ ان اداروں نے ”Build Back Better” کے ویژن کے تحت، زلزلہ مزاحم ڈیزائن، بلڈنگ کوڈز اور تربیت یافتہ لیبر کے ذریعے تعمیر نو کا آغاز کیا۔سیکریٹری سیرا کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق‘ کل منصوبے7608 تجویز کئے گئے تھے‘جن میں سے77% مکمل ہوئے‘12%پر کام جاری ہے‘اور11%منصوبوں پر کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔ تعمیر نو پروگرام کی مالیت 225 ارب روپے تھی اور 181 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ 44 ارب روپے کے فنڈزبقیہ منصوبوں کے لئے درکار ہیں۔ طالبات کے 476 سکولز کی تعمیر اب بھی فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث نامکمل ہے، جن میں 65 سکولز پر کام 80 فیصد سے زائد مکمل ہے، لیکن فنڈز کی عدم دستیابی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
لیکن سوال پھر وہی ہے…….. 6.3 بلین ڈالر کی عالمی امداد کہاں خرچ ہوئی؟آج بھی درجنوں سکول خیموں میں کیوں چل رہے ہیں؟‘دیہی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کیوں ناپید ہیں؟‘بیشتر منصوبے بیس سال بعد بھی مکمل کیوں نہیں ہو سکے؟مظفرآباد کا سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کیوں ادھورا رہ گیا؟کون اس تاریخ کی بدترین بدانتظامی اور کرپشن کا حساب لے گا؟کیا ہر قدرتی آفت کے بعد صرف پاک فوج ہی قوم کو سہارا دے گی؟کیا ریاستی ادارے صرف رپورٹس، تختیاں اور دعووں تک محدود رہیں گے؟
سیکریٹری سیرا نے خود اعتراف کیا کہ سب سے زیادہ جانی نقصان ناقص طرزِ تعمیر، غیر تربیت یافتہ لیبر، اور زلزلہ مزاحم تعمیرات کے فقدان کے باعث ہوا۔2005ء کے زلزلے نے ہمیں سکھایا کہ قدرتی آفات وقتی ہوتی ہیں، مگر انسانی غفلت مستقل تباہی بن جاتی ہے۔زمین کے زخم تو بھر جاتے ہیں، مگر ضمیر کے زخم صدیوں تک رلاتے ہیں۔اگر کسی نے انسانیت کو تھاما،تو وہ پاکستانی سپاہی تھا۔اگر کسی نے دنیا کو کشمیریوں کا درد دکھایا،تو وہ جنرل پرویز مشرف تھے۔اور اگر کسی نے امید دی،تو وہ ماں کی طرح سینے سے لگانے والی پاک فوج تھی۔
8 اکتوبر صرف ایک تاریخ نہیں،یہ یاد کا لمحہ،احتساب کا سوال، اورمستقبل کی تیاری کا آئینہ ہے۔ اگر کل زمین پھر ہلی… تو کیا ہم تیار ہوں گے؟ یا پھر وہی ملبہ، وہی آنسو، اور وہی بے بسی ہمیں دہرانا پڑے گی؟ یہ مضمون خراجِ عقیدت ہے‘ان سب کے نام….. جو اس دن ملبے تلے دفن ہو گئے…اور ان کے نام بھی، جنہوں نے انہیں نکالنے کیلئے اپنے ہاتھ خاک آلود کر لیے۔لیکن یہ خراجِ تحسین کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی ہے…جوتاریخ کے ماتھے پر لکھا جا چکا ہے‘کیا ہم نے کچھ سیکھا؟

Related Articles

Back to top button