(امیرالمؤمنین خلیفۃ المسلمین جانشین پیغمبر رفیق غارو مزارسیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ)
تحریر؛۔ مولانا سید نظام حسین شاہ (مظفرآباد)

قو لہ تعالیٰ (ثَانِیَ اثنَینِ اِذہُمَا فِی الغَار) القرآن
فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
صحابہ کرام ؓ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنکی قربانیوں کی بدولت آج ہم تک دین پہنچا۔ قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب، اور حضور نبی کریم ﷺ ا للہ کے آخری نبی و رسول ہیں۔اور نبوت کا ؎دروازہ بند ہونے کی وجہ سے جیسے کوئی بندہ نبی نہیں بن سکتا ایسے ہی کوئی بندہ صحابی بھی نہیں بن سکتا۔صحابہ کرام ؓ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنکو اللہ نے گناہوں سے محفوظ رکھا ہے اور دنیامیں ہی جنت کی خوشخبری سنائی اور سب سے بڑھ کر رضوان کا سرٹیفکیٹ عطا کیا، جسکی تمنا جنتی لوگ جنت میں جانے کے بعد کریں گے۔اسی لیے ہر مسلمان اپنے لیے ہر صحابی کی اتباع کو راہ نجات اور ہدایت کا ذریعہ سمجھتا ہے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ(میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں) انہیں ستاروں میں سے ایک ستارہ سیدنا صدیق اکبر ؓ ہیں۔جس طرح سرکاردوعالم ﷺ تمام انبیاء و مرسلین کے سردار اور سرتاج ہیں ایسے ہی سیدنا صدیق اکبر ؓ حضرات انبیاء کرام کے بعد تمام مومنوں کے سردار اورسب سے افضل ہیں۔دین مصطفی کے پشتبان اور سرمایہ ناز ہیں،آپؓ کا ہر قدم نبوت کے ساتھ اٹھتا اور ہر عمل نبوت کے ساتھ ملتا ہے۔نبوت کی زبان سے جو بات نکلی آپؓ نے فوراً تکمیل و تصدیق کی، اور نبوت کے ہر فیصلے اور عمل کو اپنانے کے لیے جان پر کھیلنے کو تیار ہو جاتے۔اسی لیے خود سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا (سارے صحابہ کے احسانوں کا بدلہ میں نے دنیامیں ہی لوٹا دیا لیکن ابو بکر صدیق ؓ وہ واحد شخص ہے جسکے احسانوں کا بدلہ کل قیامت کے دن خداوند کریم خود لوٹائیں گے)۔
(سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات)
آپ ؓ کانام عبداللہ،کنیت ابوبکر،والد کا نام عثمان،کنیت ابو قحافہ،والدہ ماجدہ کا نام سلمہ،کنیت ام الخیر تھی، عتیق کا لقب حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور صدیق کا لقب اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا، ساتویں پشت پر جا کر آپؓ کا شجرہ نسب حضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپؓ کے تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں، اولاد میں سب سے زیادہ مرتبہ سیدہ اماں عائشہ صدیقہؓ نے پایا،کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا نکاح سرکار دوعالم ﷺ سے ہوا،اس وجہ سے صدیق اکبر ؓ آپ ﷺ کے سسر بنے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ قریش کے قبیلہ بنو تیم کے چشم و چراغ تھے۔، آپ ؓ کا خاندان عرب میں اعلیٰ وجاہت کا حامل تھا، آپ ؓ کا شمار اشراف قریش میں ہوتا تھا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ مردوں میں سب سے پہلے مشرف باسلام ہوئے،آپ ؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپؓ کی چار نسلیں اسلام سے مشرف ہویں،والدین،خود، اولاد،پوتے، نواسے،سب نے سرکار دوعالم ﷺ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔آپؓ سن ۴۷۵ء عام الفیل سے تقریباً تین سال بعد پیدا ہوئے،اٹھارہ سال کی عمر میں سرکار دوعالم ﷺ کے دوست بنے اور اٹھارہ سال سے لے کراکسٹھ سال کی عمر تک تینتالیس سال کا طویل عرصہ آنحضرت ﷺ کے جمال نبوت کا مشاہدہ کیا۔آپ ؓ حضور ﷺ سے صرف دو سال چھوٹے تھے حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں جسکو میں نے اسلام کی دعوت دی ہو اور وہ بغیر غورو فکر کے مسلمان ہوا ہو۔سیدنا صدیق اکبرؓ ہر کام میں سب پر بازی لے جاتے، غزوہ تبوک کے موقعہ پرجب امام الانبیاء ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی تو سب صحابہ ؓ نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مال خرچ کیا، حضرت عمر ؓ اپنے کثیر مال میں سے آدھا مال اللہ کے راستے میں دیکر یہ سوچنے لگے کہ آج میں صدیق اکبرؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا،لیکن جب صدیق اکبرؓ نے گھر کی سوئی تک لا کر اللہ کے راستے میں پیش کر دی تو حضرت عمر ؓ یہ کہنے پر مجبور ہو گے کہ صدیق اکبرؓ سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔سیدنا صدیق اکبرؓ کی شان میں قرآن مجید اور احادیث نبویہ بھی خاموش نہیں ہیں۔سیدنا صدیق اکبر ؓ اہل میں حضو ر ﷺ کے وزیر تھے۔ آپؓ اہلبیت سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اہلبیت کا خیال گھر والوں سے زیادہ رکھتے تھے۔
(امام الانبیاء ﷺ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عشق و محبت کا ایک عجیب واقعہ)
ویسے تو سیدنا صدیق اکبر ؓ نے دین کی خاطر جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، ان میں سے ایک دن یہ المناک واقعہ پیش آیا کہ، حضور ﷺ دار ارقم میں تشریف فرما تھے، اس وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ بار بار حضور ﷺ سے اصرار کرنے لگے کہ یا رسول اللہ ﷺ کافر اپنے باطل معبودوں کی عبادت کھلم کھلا کرتے ہیں، اوران کی باتیں بر سر عام پھیلاتے ہیں،اور ہم حق پر ہونے کے باوجود کیوں خاموش رہیں، ہمیں بھی چایئے کہ اسلام کا اعلان بر سر عام کریں۔ ان کے اصرار پر حضور ﷺ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا ابھی اسلام کے برسر عام اعلان کا وقت نہیں آیا، یہ فرما کر امام الانبیاء ﷺ اپنے اصحاب سمیت تشریف لے گے۔ ادھر ابو بکر صدیق ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جا کر لوگوں کو دعوت اسلام دیتے رہے، اور لوگوں کو حضور ﷺ کی طرف بلاتے رہے۔ اسلام کا سب سے پہلااعلان اور خطبہ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دیا۔ اعلان سنتے ہی مشرکین مکہ نے ابوبکر صدیق ؓ اور سب مسلمانوں پر حملہ شروع کو دیا، آپؓ کو بہت سخت مارا، آپؓ کو پاوں سے روندا، اس موقعہ پو آپؓ کو بہت تکلیفیں پہنچائیں گئی، اور عتبہ بن ربیعہ سیدنا صدیق اکبر ؓ کو اپنی منقش جوتیوں سے مارنے لگا حتیٰ کہ آپؓ کا چہرہ بگاڑ دیا۔سیدنا صدیق اکبر ؓ کے قبیلہ والے آپؓ کو اٹھا کر گھر لے ا ٓئے آپؓ بے ہوش تھے، ان کا یہ حال دیکھ کر قبیلہ والوں نے اعلان کیا کہ اگر ابو بکر صدیق ؓ کو کچھ ہو گیا تو بدلے میں ہم ضرور بالضرور آپ کے سردار عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے۔ دن کا اکثر حصہ بے ہوش رہے ہوش آتے ہی جو بات زبان سے نکلی وہ یہ تھی کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہے۔ یہ بات سن کر لوگ آپ کو ملامت کرنے لگے، اور صدیق اکبر ؓ مسلسل یہی بات دہراتے رہے؛ کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہے: پتہ کرنے پر بتایا گیا کہ حضور ﷺ دار ارقم میں صحیح سالم موجود ہیں، اس وقت سیدنا صدیق اکبر ؓ نے قسم اٹھا لی کہ اس وقت تک کچھ کھاوں،پیوں گا نہیں جب تک حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو جاوں۔ اس کے بعد آپ ؓ کی والدہ حضور ﷺ کی خدمت میں لے گیئں۔ حضور ﷺ نے جب سیدنا صدیق اکبر ؓ کی حالت دیکھی تو ان پر رقت طاری ہو گئی۔ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی والدہ کے قبول اسلام کے لیے دعا کروائی جس پر وہ اسی وقت مسلمان ہو گئی۔۔
(منصب خلافت اور فتوحات)
سیدنا صدیق اکبرؓ سرکار دوعالم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوئے اور تقریباً دو سال دو ماہ اس منصب پر فائز رہے۔منصب خلافت پر فائز ہو نے کے بعد(پہلا یادگار خطبہ ارشا د فرمایا کہ): لوگو میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں،حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر انسان نہیں ہوں، اب اگر میں ٹھیک راہ پر چلوں تو میری اطاعت کرنا، اور اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دینا۔: سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔: تمہارا ضعیف آدمی بھی میرے نزدیک اس وقت تک قوی ہے جب تک اس کا حق نہ دلوا دوں۔ اور تمہارا قوی آدمی بھی میرے نزدیک اس وقت تک ضعیف ہے جب تک دوسرے کا حق اس سے واپس نہ دلوا دوں۔: یاد رکھو کہ: جو قوم جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دیتی ہے خدا اسے رسوا کر دیتا ہے،۔اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے، خدا اسے مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سنو: اگر میں خدا اور رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا۔ اگر میں کہیں خدا اور رسول کی نافرمانی کروں،تو تم پر بھی میری اطاعت لازم نہیں)۔ آپؓ کے اس مختصر دور خلافت میں مسلمانوں کو بہت فتوحات حاصل ہوئیں،جن میں عراق و شام کی فتح سب سے عظیم فتح تھیں۔آپؓ نے اپنے دور میں منکرین زکوٰۃ،مدعیان نبوت اور مرتدین سے جنگ کرنے کے ساتھ ساتھ باقی فتنوں کی سرکوبی بھی کی۔
(مرض الموت اور وفات)
اتوار کا دن تھا ۱۲ جمادی الثانی کو شدید سردی تھی آپؓ نے غسل فرمایا جس سے آپؓ کو بخار ہو گیا جو وفات تک ٹھیک نہ ہوا۔ہر چند علاج و معالجہ کیا مگر کوئی فرق نا پڑا کمزوری اتنی شدید ہو گئی کہ آپؓ نماز کیلیے بھی نہ آ سکے، بعض روایات کے مطابق آپؓ کو یہودیوں نے کھانے میں زہر ملا کے دیا تھا۔ درحقیقت آپ ؓکو سرکار دوعالم ﷺ کے جانے کا غم اتنا تھا کہ اندر ہی اندر گھلتے رہے اور اس غم کو برداشت نہ کر سکے۔بہر حال بیماری کوئی بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے شدید بیماری کے باوجود امور خلافت اورمسلمانوں کے اہم معاملات میں کسی قسم کی غفلت نہیں برتی،اپنی زندگی میں ہی صحابہ کرام ؓ کے مشورہ سے سیدنا فاروق اعظم ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا،۔۔۲۲ جمادی الثانی سن ۳۱ ھ بروز پیر مغرب و عشاء کے درمیان آپؓ دارالفناء کو چھوڑ کر دارالبقاء کی طرف منتقل ہو گئے۔آپ ؓ کی وصیت کے مطابق غسل اور کفن دیا گیا اور روضہ رسول میں سرکار دوعالم ﷺ کے پہلو میں دفن ہو گے۔دنیا کی طرح قبر میں بھی آپ ﷺ کے ساتھی بنے۔ اورکل قیامت کے دن بھی اکٹھے اٹھائے جائیں گے۔اورسیدنا صدیق اکبر ؓ کی وجہ سے ہی قیامت کے دن ہمارا حساب و کتاب شروع ہو گا۔ اللہ ہم سب کو سیدنا صدیق اکبر ؓ سے سچی عقیدت نصیب فرمائے(آمین)




