
دو قومی نظرئیے پر حصول آزادی پاکستان کے ثمرات چند خاندانوں تک محدود تھے پسے ہوئے طبقات بنیادی حقوق سے نا آشنا تھے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم فرسودہ طبقاتی نظام کے خونی پنجوں میں جکڑی انسانیت تعلیم صحت روزگار سے محروم کر دی گئی تھی ایسے میں رب العزت کو اپنی مخلوقات پر ترس آیا اس نے ایک سیاسی مسیحا قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انکی رہبری کی سوچ وفکر عطا کی جنکی انقلابی اصلاحات پر بات سے قبل تحفظ ناموسِ رسالت کیلئے کام لینا ان پر پروردگار کے خصوصی انعام سے تعبیر کیا جانا علمی دلیل ہے، عوام الناس کیلئے بانی پاکستان پیپلز پارٹی قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اور موت کو قدم قدم پر تاریخ انکی رہنمائی اور خودار کردار کو سلام پیش کرتی ہے جس کیلئے کسی نے کیا خوب کہا،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر،
لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا،
یہ عوام دوست فلسفہ سیاست پیپلز پارٹی کے قیام اس عزم کا اعادہ ہے،
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے،
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے،
کے مصداق پر سر شاہنواز بھٹو کے ہاں پانچ جنوری انیس سو اٹھائیس کو لاڑکانہ جنم والے ذوالفقار علی بھٹو (زلفی) برکلے یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویشن اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں بار ایٹ لاء کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی مختصر مدت تک مسلم لا کالج کراچی میں لیکچرار رہنے بعد انھوں نے درس و تدریس چھوڑ کر عدالت العالیہ سندھ میں وکالت شروع کر دی ایوب خان کی کابینہ میں دو سالوں تک سب سے کم عمر وزیر کامرس کے منصب پر فائز رہے اپنے اندر چھپی اہلیت و صلاحیت کی بناء پر انیس سو تریسٹھ سے پیسٹھ تک وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اور کامیاب خود مختار قومی خواہشات کے مطابق خارجہ پالیسی کی خشت اول رکھی جس پر آج تک فلک بوس عمارت قائم و دائم ہے قائد عوام کی خداداد صلاحتیں انگڑائیاں لیتی رہی اور وہ ملک کو خوشحال مستحکم جمہوری باوقار بنانے کی جستجو میں مگن رہے اور چین سے مثالی خارجہ پالیسی کے ذریعے باہمی احترام سے دوستی کے رشتے جوڑے انیس سو پیسٹھ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد دس جنوری انیس سو چھیاسٹھ کو بھارت سے معاہدہ تاشقند کرنے پر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قومی مفادات پر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور یوں وزارت خارجہ سے مستعفیٰ ہو گئے معاہدہ تاشقند کے ذریعے کشمیری عوام کے پیدائشی حق حق خودارادیت کو پچہتر ہزار سکہ نانک شاہی کی طرز پر سودے بازی کی عالمی سامراجی سازش تھی جس کو عوامی قوت سے ناکام بنانے کیلئے تیس نومبر انیس سو ستساٹھ کو پاکستان پیپلز پارٹی اسلام ہمارا دین سوشل ازم ہماری معشیت جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سر چشمہ عوام کے چار رہنما اصولوں پر رکھی گئی روٹی کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان اب راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں کے نعروں نے قوم پر ایسا سحر طاری کیا کہ رہے نام سائیں کا, قارئین کرام
پاکستان پیپلز پارٹی کی 58 سالہ تاریخ اس ملک کی سیاست میں نہ صرف سب سے لمبی بلکہ سب سے زیادہ بھاری قربانیوں والی تاریخ ہے۔ جس وقت 1967 میں بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی، اُس وقت نہ نون لیگ تھی نہ تحریک انصاف، نہ کوئی خلائی مخلوق کی پسندیدہ جماعت۔ بھٹو نے جب روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو سرمایہ جاگیر داروں اور انکے حاشیہ برداروں کی رات کو نیندیں اور دن کا سکون اچاٹ ہو گیا،1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں لے کر وہ کام کیا جو آج تک انجیئرڈ تکنیکی مہارت یا ریکارڈ توڑ کارکردگی اس کی گرد کو نہیں چھو سکی مقبولیت کے دعویداروں کی کئی نسلیں مل کر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی پیروکاروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ 1973 کا آئین بنا، ایٹمی پروگرام شروع ہوا اسٹیل مل بنی مزدوروں کے حقوق تحریری شکل میں آئے وہ سب کچھ جو آج دو بڑی پارٹیاں اقتدار میں آنے کے بعد اپنی تشہیر کے ھتھیار سے اپنی کارکردگی میں شامل کرنے کی جعل سازی کرتی ہیں
پیپلز پارٹی کی قربانیاں دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ جماعت پاکستان نہیں بلکہ پورے برصغیر کی قیمت ادا کر رہی تھی۔ بھٹو کو عدالتی قتل کر کے راستے سے ہٹا دیا گیا ہزاروں کارکن جیلوں میں ڈالے گئے سینکڑوں کوڑے مارے گئے۔ ضیا الحق نے پوری ریاست مشینری جھونک دی مگر پیپلز پارٹی پھر بھی نہ ٹوٹی۔ مقابلے میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر سیاسی میدان میں اتارا گیا جو حکومت پر قابض ہوئے مگر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے دلوں پر حکمرانی اور عقیدت عوام سے نہ چھین سکیسیاست کی آڑ میں مفاداتی گروہ جو ضیاء کے دور میں اُس کی گود میں پلے اور آج بھی جب حالات سخت ہوں تو اصول پسندی فوراً سیاسی مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔
دختر مشرق محترمہ بینظیر ل بھٹو نے دو حکومتیں چلائیں مگر دونوں بار عوام دشمن قوتوں نے محلاتی سازشوں کے ذریعے بیلٹ کی حکمرانی کو بلٹ چلا کر حکومت ختم کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی ہمت بی بی نے دکھائی، اتنی ہمت سیاسی مخالفین کبھی نہیں دکھا سکے بس مجھے کیوں نکالا والا دکھ اور پھر این آر او کی ڈیل۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا حال یہ ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی اپنے سیاسی والد کا نام بدل چکے تھے اور آنے کے بعد ہر اُس ادارے کے سائے میں بیٹھے رہے جس کے آشیرباد کے بغیر اُن کی سیاست کا ایک جلسہ بھی نہ ہوتا۔ وہ جماعت جس نے 2018 میں پورے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر حکومت لی، آج خود کو قربانی کا بکرا بنا کر مظلومیت کا ڈھول پیٹتی ہے۔
2008 میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اس وقت نون لیگ صرف بیانات دے رہی تھی، اور تحریک انصاف صرف کنٹینر تلاش کر رہی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو طاقت دی این ایف سی ایوارڈ ٹھیک کیا صدارتی اختیارات واپس کیے، اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا یہ سب وہ کام ہیں جن پر آج نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں سیاست چمکاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب پیپلز پارٹی کے کارنامے ہیں۔ یہی وہ حکومت تھی جس نے مشرف کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ پیپلز پارٹی نے آمر کو رخصت کیا جبکہ نون لیگ اُس کے ساتھ تین بار بیٹھ چکی تھی، اور پی ٹی آئی بعد میں اُسی کے وارثوں کی آغوش میں پروان چڑھی۔
سندھ پچھلے پندرہ برس سے پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور اس دوران سندھ نے وہ منصوبے کھڑے کیے جس پر نون لیگ اور پی ٹی آئی صرف پریس کانفرنسیں کر سکتی ہیں۔ تھر کول پورے ملک کے لیے بجلی بنا رہا ہے سندھ کا ہیلتھ سسٹم ملک میں سب سے منظم ہے اور 2022 میں جب پورا ملک سیلاب سے ٹوٹ رہا تھا تو عالمی امداد بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کی ٹیم کی سفارتکاری سے آئی۔ نون لیگ اس وقت اپنے مقدمے سنبھال رہی تھی جبکہ تحریک انصاف جلسوں میں ناچ گانوں پر مصروف تھی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن کر دنیا میں پاکستان کا مقدمہ اس طرح لڑا کہ بڑے بڑے تجربہ کار سفارتکار حیران رہ گئے۔ 97 ملکوں میں پاکستان کا نرم امیج بحال ہوا 9 ارب ڈالر کی عالمی امداد آئی اور مخالفین اس دوران صرف بیانیہ بیچتے رہے۔ جن جماعتوں نے سیاست کو یا تو خاندانی جائیداد سمجھا ہوا ہے یا ایجنسیوں کی خیرات پر کھیلا وہ بھلا پیپلز پارٹی کی 58 سالہ نظریاتی سیاست کے سامنے کیا رکھ سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں اگر کوئی سیاسی جمہوری نظریاتی وفاقی عوامی قوت ہے تو اس کا نام پاکستان پپلز پارٹی ہے یہ نظریاتی عوامی اور قربانیوں والا عالمگیر پولٹیکل انسٹیٹوٹ ہے باقی سب یا تو اقتدار کے موسمی پرندے ہیں یا سیاسی کنٹینر پر چڑھ کر بد تہذیبی معاشرتی بے راہ روی کا ہجوم بے کراں ہے قارئین محترم پاک بھارت جھڑپوں میں افواج پاکستان کو فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کی قیادت میں ملنے والی عظیم الشان فتح مبین نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کا دست و بازو بن کر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے فرزند نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے پاکستانی کشمیری قوم تو معترف ہے ہی ہے دنیا اسے خراج تحسین پیش کرتی ہے جسکی وجہ سے بھارتی سیاسی عسکری قیادت اور بنیاد پرست میڈیا کی نکلتی چیخیں ہیں اور ان سارے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مسلمہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کے فرائض منصبی کما حقہ جانفشانی سے ادا کرنے کی بناء پر وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کم عمر وزیر اعظم منتخب ہوں گے اور پاکستان ہمیشہ زندہ آباد اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے محکوم عوام بھارت کے جبری قبضے سے آزادی کی نعمت حاصل کر کے صبح آزادی کی خوشبو سے معطر ہو کر رہے گی اور شھدا کا خون ناحق اپنی ابدی منزل پاکستان حاصل کرنے میں قوم کو سرخرو کر کے رہے گ، انشاء اللہ سو قارئین جس طرح بانی پاکستان نے پاکستان کا قیام عمل میں لا کر قوم پر احسان عظیم کیا اسی طرح قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر قوم کو ایک لازوال تحفہ دیا دونوں کا رشتہ روح اور جسم کی مانند ہے، پاکستان زندہ آباد پاکستان پیپلز پارٹی زندہ آباد کشمیر پائندہ آباد قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو زندہ آباد دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید زندہ آباد مستقبل کا نگہبان بلاول بھٹو وزیر اعظم پاکستان۔ جب قومی صدا اس انداز میں بلند ہوتی سنائی دے،
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا،
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آئے، تو بھارت اسرائیل افغانستان کی ایسی کی تیسی،



