کالمزمظفرآباد

موروثیت اور سیاسی جماعتیں

تحریر راجہ عمر فاروق

دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں درحقیقت موروثی سیاست کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ یہ جماعتیں عوام کے سامنے جمہوریت کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں، عوامی حقوق کی بات کرتی ہیں اور شفاف انتخابات کا نعرہ بلند کرتی ہیں، مگر ان کے اندرونی ڈھانچے اور قیادت کی منتقلی کا عمل دیکھا جائے تو یہ سب کچھ محض نمائشی اور سطحی ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی ملکیت کی طرح چل رہی ہیں، جہاں قیادت کی باگ ڈور نسل در نسل ایک ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ موروثی سوچ نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی ترقی اور عوامی نمائندگی کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایک عام کارکن یا لیڈر، چاہے وہ کتنا ہی تجربہ کار اور قابل کیوں نہ ہو، پارٹی کی سربراہی یا اعلیٰ عہدوں تک رسائی نہیں حاصل کر سکتا کیونکہ یہ عہدے خاندانی ورثے کی طرح محفوظ ہیں۔یہ صورتحال پاکستان کی سب سے پرانی اور بڑی جماعتوں میں بھی یکساں نظر آتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، جو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مانتی اور خود کو عوامی جماعت کہتی ہے، اس کی قیادت کا سلسلہ بھٹو خاندان سے شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو شہید نے پارٹی کی کمان سنبھالی، اور ان کی شہادت کے بعد یہ ذمہ داری ان کے شوہر آصف علی زرداری اور پھر ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری تک پہنچی۔ آج بھی پارٹی کی مرکزی قیادت زرداری خاندان کے گرد گھومتی ہے، اور دیگر رہنماوں کی اولادیں بھی نسل در نسل سیاست میں فعال ہیں۔ یہ خاندان پارٹی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتا ہیں ، جہاں فیصلے خاندانی مفادات کے تابع ہوتے ہیں نہ کہ پارٹی کے آئین یا جمہوری اصولوں کے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کی مثال لی جائے تو یہاں بھی شریف خاندان کا غلبہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے پارٹی کو اپنے خاندان کی ملکیت بنا رکھا ہے، آپ اس بات سے اندازہ کر لیں جب میاں صاحب کو اقامہ میں نااہل کیا گیا تو انہوں نے اپنی جماعت کی صدارت اپنے بھائی کو دی اور جب عمران خان اور عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس وقت وزیراعظم پاکستان اپنے بھائی شہباز شریف کو نامزد کیا، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے شہباز شریف نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ نامزد کیا، یہ وہ جماعت ہے جس نے مسلم لیگ ن کو حقیقی معنوں میں میں گھر کی سیاسی جماعت بنا دیا ہے، 2024ء کے الیکشن میں اسی ریت و رواج کو قائم رکھتے ہوئے بھائی وزیراعظم اور، ان کی بیٹی مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں، اور اب بھی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ نواز شریف کی یہ خواہش ہے کہ پارٹی کی وراثت بیٹی کو منتقل کیبجائے جبکہ شہباز شریف کے بیٹے اور دیگر رشتہ دار بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔ یہ خاندان پارٹی کے ٹکٹوں سے لے کر پالیسیوں تک سب کچھ کنٹرول کرتا ہے، اور پارٹی کے اندر کوئی بھی غیر خاندانی رہنما سربراہ بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔یہ موروثی کلچر صرف ان دو بڑی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتوں میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، جو شروع میں موروثیت کے خلاف نعرے لگاتی تھی اور نئی سیاست کا وعدہ کرتی تھی، وہ بھی اب خاندانی اثرات سے محفوظ نہیں رہی۔ عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور دیگر رشتہ دار اب پارٹی کی سرگرمیوں میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، اور پارٹی کے اندر خاندانی وفاداریاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ چھوٹی جماعتوں جیسے جمیعت علمائے اسلام، مسلم لیگ ق، یا علاقائی جماعتیں بھی خاندانی سیاست کا شکار ہیں، جہاں چوہدری خاندان، گیلانی خاندان، یا دیگر قبائلی اور جاگیردارانہ خاندان نسل در نسل اقتدار پر قابض رہتے ہیں۔ یہ تمام جماعتیں باہر سے جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں مگر اندر سے شاہی خاندانوں یا لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح چل رہی ہیں، جہاں شیئر ہولڈرز صرف خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔یہ سوچنے والی بات ہے کہ ان جماعتوں میں دہائیوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے سینئر رہنما، جو پارٹی کی بنیادوں سے جڑے ہوئے ہیں، کبھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتے؟ کیوں ہمیشہ خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ موروثی سیاست نے پارٹیوں کے اندر جمہوریت کو ختم کر دیا ہے۔ پارٹی انتخابات، اگر ہوتے بھی ہیں تو محض رسمی اور طے شدہ ہوتے ہیں، جہاں نتائج پہلے سے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف نئے لیڈروں کی نشوونما کو روکتا ہے بلکہ پارٹیوں کو عوامی مسائل سے الگ بھیکرتا ہے۔ خاندانی قیادت والے لیڈر عوام کی بجائے اپنے خاندانی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی عام ہو جاتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موروثی سیاست والے علاقوں میں ترقیاتی کام کم ہوتے ہیں، عوامی سہولیات ناکافی ہوتی ہیں، اور سیاسی مقابلہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ ووٹرز کو انتخاب کا حقیقی موقع ہی نہیں ملتا۔ اگر اس نقطے کا باریکی سے جائزہ لیا جائے توطایک باے آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں برطانوی دور سے ملتی ہیں، جہاں جاگیرداروں اور زمینداروں کو اقتدار دیا گیا، اور آزادی کے بعد یہ نظام برقرار رہا۔ آج بھی دیہی علاقوں میں قبائلی اور جاگیردارانہ اثرات غالب ہیں، جو شہری علاقوں تک پھیل گئے ہیں۔ یہ نظام جمہوریت کو کمزور کرتا ہے کیونکہ یہ میرٹ کی بجائے خاندانی ورثے پر مبنی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کو ایسے لیڈر نہیں ملتے جو حقیقی معنوں میں عوامی مسائل حل کر سکیں۔ اس موروثی کلچر نے پاکستان کی سیاست کو ایک محدود دائرے میں مقید کر دیا ہے، جہاں چند خاندان ہی اقتدار کے کھیل کے مرکزی کردار ہیں۔ عوام کو ہر بار یہی پرانے چہرے ملتے ہیں، نئی سوچیں اور نئے آئیڈیاز نہیں آتے۔ یہ صورتحال ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر پاکستان کو حقیقی جمہوریت کی طرف لے جانا ہے تو سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر سے اصلاحات شروع کرنی ہوں گی۔ پارٹیوں کو انٹرا پارٹی انتخابات کو شفاف بنانا ہوگا، قیادت کی منتقلی کو میرٹ پر مبنی کرنا ہوگا، اور خاندانی اثر و رسوخ کو کم کرنا ہوگا۔ ایک عام کارکن کو بھی یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ پارٹی کا سربراہ بن سکے یا اعلیٰ عہدے پر پہنچ سکے۔ جب تک جماعتیں خود جمہوری نہیں ہوں گی، ملک میں جمہوریت کا دعویٰ محض دھوکہ ہوگا۔ عوام کو بھی اس موروثی سیاست کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، اور ایسے لیڈروں کو ووٹ دینا ہوگا جو خاندانی ورثے کی بجائے اپنی صلاحیتوں پر کھڑے ہوں۔ صرف اسی طرح پاکستان کی سیاست سے موروثیت کا خاتمہ ممکن ہے، اور ایک ایسی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے جہاں ہر شہری کو برابر کا موقع ملے۔ یہ تبدیلی آسان نہیں، مگر ضروری ہے، ورنہ ملک کا سیاسی نظام مزید کمزور ہوتا جائے گا اور عوامی امنگیں دبتی رہیں گی۔

Related Articles

Back to top button