1988 سے 2025 تک مہاجرینِ جموں و کشمیر کی 37 سالہ جدوجہد

زندگی کے 37 برس جیسے لمحوں کے بہاؤ میں وقت کا دریا گزر ہی جاتا ہے۔ انسان کی زندگی کا یہ دور بچپن سے نوجوانی اور پھر جوانی کی بہاروں سے گزرتے ہوئے بچوں کی پرورش اور ذمہ داریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ کبھی خوشی کے جھونکے، کبھی غم کی آندھیاں یہ سب زندگی کے سفر میں ہمسفر رہتے ہیں۔
جنہیں والدین کی شفقت اور تعلیم کا زیور میسر آئے، وہ خواب دیکھتے ہیں کہ ایک دن ڈاکٹر، انجینئر یا کسی معزز پیشے کے ذریعے اپنے والدین کا فخر بنیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر خواب تعبیر نہیں پاتا۔ ہزاروں میں چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو منزل تک پہنچ پاتے ہیں، باقی اکثر حالات کے ہاتھوں یا وسائل کی کمی کے باعث اپنی امنگوں کو مصلوب کر دیتے ہیں۔
یہ تمہید اس لیے ہے کہ ہم اُن زندگیوں کی طرف دیکھ سکیں جو 1988 سے لے کر آج 2025 تک آزادی کی آرزو میں ہجرت کے دکھ سہہ رہی ہیں۔ وہ دور جب تحریکِ آزادیِ کشمیر ایک چنگاری سے بھڑکتے شعلے میں بدلنے لگی۔ بھارت کا ظلم و جبر عروج پر تھا۔ نہتے کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے، ناکہ بندیاں، کرفیو اور انسانی حقوق کی پامالیاں روزمرہ کا معمول بن چکی تھیں۔ ایسے میں سیکڑوں نوجوان اپنے خاندانوں سے دور اور ہزاروں خاندان آزادی کا پرچم تھامے اپنے گھروں، وادیوں اور قبروں کو چھوڑ کر آزادکشمیر اور پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔
یہ ہجرت کوئی آسان سفر نہ تھا جس نے اس راہِ آزادی میں زندگی کی 37 بہاریں دیکھی ہیں، وہ جانتا ہے کہ مظفرآباد اور دیگر کیمپوں سمیت کرایوں میں رہائش اختیار کرتے ہوئے زندگی کا ایک ایک دن کس طرح آزمائشوں سے بھرپور گزر رہا ہے۔
2003 میں پاک بھارت جنگ بندی معاہدہ کے بعد جب لائن آف کنٹرول پر بھارت کو باڑ لگانے کا موقع ملا، تو اُس نے کشمیریوں کی اُمیدوں پر ایک اور ضرب لگائی۔ اس کے بعد افضل گورو، شیخ عبدالعزیز، برہان وانی، محمد اشرف صحرائی اور سید علی گیلانی جیسے حریت کے سپاہی اپنی جانیں نثار کرتے چلے گئے۔ لیکن ظلم کے سائے میں بھی حریت کا چراغ بجھ نہ سکا۔37 برسوں میں 96 ہزار سے زائد کشمیری لقمہ اجل بنے، دو لاکھ بچے شفقت پدری سے محروم ہوئے۔ 22 ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں،11 ہزار سے زائد خواتین کو بھارت کی درندہ صفت فورسز نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا باوجود اس کے کشمیری آج بھی جدوجہد آزادی کو اپنے خون سے روشن رکھے ہوئے ہیں۔
آزادکشمیر میں بسنے والے مہاجرین خواہ وہ سیاسی جدوجہد کے نمائندے تھے یا عسکری، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت اپنے پیدائشی حقِ خودارادیت کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماضی میں ان کے احتجاجوں کو کسی نہ کسی سطح پر حکومتِ آزادکشمیر یا مقامی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل رہتی تھی، مگر اب یہ حمایت محض علامتی رہ گئی ہے۔
مہاجرینِ جموں و کشمیر آج بھی حکومتِ پاکستان اور حکومتِ آزادکشمیر کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر مہاجرین کی امیدوں کا محور و مرکز پاکستان ہی ہے اور آج بھی امید بھری نظروں سے انتہائی تکلیف میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
مہاجرین جو آزادکشمیر میں مقیم ہیں آزادکشمیر حکومت کی ذمہ داری میں ہیں بدقسمتی سے ان پر توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے ان کے بنیادی مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ ان کے لیے ملازمتوں میں مخصوص 6 فیصد کوٹہ عدالتی فیصلے کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ گزارہ الاؤنس میں اضافے کی تحریک برسوں سے زیرِ بحث ہے مگر تاحال عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کئی کیمپوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت ناپید ہے، تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے سرکاری سکول نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں میں فیس بھی دینا مشکل ہو رہا ہے، صحت کی سہولتیں مفقود۔ مانک پیاں، امبورسمیت دیگر کیمپوں میں کئی کئی خاندان ایک ہی چھت کے نیچی بمشکل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آبادکاری کا عمل سست روی کا شکار ہے اور حکومتِ آزادکشمیر کی بے حسی اس دکھ کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
یہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ہر دور میں پاکستان کے جھنڈے کو سینے سے لگائے رکھا۔ ان کے دلوں میں آج بھی بھارت کے لیے نفرت اور پاکستان کے لیے محبت موجزن ہے۔ یہی وہ سپاہی ہیں جو بغیر وردی اور بغیر تنخواہ کے پاکستان کے نظریاتی محاذ کے محافظ ہیں۔ مہاجرین جموں وکشمیر ہمیشہ پاکستان کی طرف سے دست شفقت پر شکر گزار رہے ہیں اور آئندہ بھی وہ اسے کبھی فراموش نہیں
کریں گے چونکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستان کی میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر یونیورسٹیوں میں ان کیلئے نشستیں مختص ہیں وہ بچے جو کسی طرح سے ایف ایس سی نمایاں نمبرات سے حاصل کر لیتے ہیں محدود نشستوں پر انہیں آگے بڑھنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ اسے فراموش کسی صورت بھی نہیں کیا جاسکتا جو کھلی حقیقت ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن پر یہاں آزادکشمیر کی حکومت کو توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دے رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان اور اس کے وفاقی ادارے ان مہاجرین کی زندگیوں پر چھائے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ ان کے مسائل پر متعدد رپورٹس حکومت کے سامنے موجود ہیں اب عملدرآمد ناگزیر ہے۔ 750 گھروں کی تعمیر کے لیے ملنے والے فنڈز پر سست روی کیوں جاری ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ وعدوں کی جگہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ محرومی کی جگہ اُمید جنم لے یہ مہاجرین محض پناہ گزین نہیں، بلکہ تحریکِ آزادیِ کشمیرکا ہر اول دستہ ہیں۔شہدائے کشمیر کے حقیقی وارث ہیں، تحریک آزادی کشمیر کا روشن چراغ ہیں اور پاکستان سے محبت کا عملی اظہار ہیں۔ ان کی محرومیوں کا ازالہ پاکستان اور آزادکشمیر دونوں حکومتوں کا اخلاقی و قومی فرض ہے۔