کالمزمظفرآباد

صحافی محفوظ نہیں، تو سچ بھی محفوظ نہیں

تحریر؛امتیازعلی شاکر(مرکزی نائب صدرکالمسٹ کونسل آف پاکستان)

دنیا بھر میں 2 نومبر کو،صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن،اس عزم کی تجدید کے طور پر منایا جاتا ہے کہ سچ بولنے والوں کی آواز کو دبانے والے عناصر کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہونا لازم ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے، بدقسمتی سے صحافت آج بھی خطرناک ترین پیشوں میں شمار ہوتی ہے۔پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک میں درجنوں صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی بازی ہار چکے ہیں پرافسوس کہ انصاف کا حصول آج بھی ناممکن کے قریب ہے۔اس عالمی دن کی اہمیت اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب ہم اُن علاقائی اور اعزازی صحافیوں کے حالات پر نظر ڈالیں جو کسی بڑے ادارے سے وابستہ نہیں، نہ تنخواہ پاتے ہیں، نہ کسی قانونی تحفظ کے حامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں ایسے بے شمار رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو اپنے ذاتی وسائل سے خبریں اکٹھی کرتے ہیں، عوامی مسائل اجاگر کرتے ہیں، انہیں نہ صرف مالی بدحالی کا سامنا ہے بلکہ خطرات بھی ان کے سائے کی طرح ہم سفر ہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی انشورنس پالیسی ہے، نہ قانونی معاونت اور نہ ہی پیشہ ورانہ تربیت یا تحفظ کا کوئی نظام نافذالعمل ہے۔دوسری طرف ملکی سطح پر صحافتی ادارے بھی شدید مالی بحران سے دوچار ہیں۔ اشتہارات کی کمی، سرکاری سبسڈیوں میں کٹوتی اور ڈیجیٹل میڈیا کے پھیلاؤ نے روایتی میڈیا ہاؤسز کو کمزور کر دیا ہے۔ نتیجتاً تنخواہوں میں تاخیر،برطرفیاں اور وسائل کی کمی عام ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں آزادیِ صحافت کیلئے محض نعرے کی نہیں بلکہ مسلسل جدوجہدکی اشدضرورت ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب معاشرے کے ستون سمجھے جانے والے صحافی خود غیر محفوظ، غیر مستحکم اور غیر مطمئن زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، تو سچائی اور شفافیت کا تسلسل کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر لازم ہے کہ حکومت، میڈیا مالکان اور سول سوسائٹی مشترکہ طور پر ایسا نظام تشکیل دینے پرغور،وفکرکریں جو نہ صرف صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے بلکہ اُن کے مالی و پیشہ ورانہ استحکام کو بھی ترجیح دے۔ کیونکہ صحافی محفوظ نہیں، تو سچ بھی محفوظ نہیں
دنیا بھر میں 2 نومبر،صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن،اُن صحافیوں کی یادمیں منایا جاتا ہے جو سچ بولنے اور حقائق سامنے لانے کی پاداش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا تشدد، قید و بند اور دھمکیوں کا نشانہ بنے۔ اقوام متحدہ کا مقصد اس دن کے ذریعے یہ اجاگر کرنا ہے کہ آزادیِ اظہار کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے اور جو لوگ سچائی کے محافظ ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنا ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ وہ عوام کے ساتھ ہونے والی،ناانصافی،افراد،اوراداروں میں ہونے والی کرپشن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہی طبقہ سب سے زیادہ خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ صحافت کا پیشہ پاکستان میں اب خطرناک ترین پیشوں میں شمار ہوتا ہے۔ رپورٹرز اور فوٹو گرافر،صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے نہ صرف طاقتور طبقوں کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ کئی بار اپنی جانیں بھی قربان کر دیتے ہیں۔میدانِ جنگ، دہشت گردی کے مراکز،سیاسی ریلیاں،احتجاجی مظاہرے اور عدالتوں کے باہر رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کو گولیوں،لاٹھیوں،آنسو گیس اور ہجوم کے تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ تحقیقاتی صحافت کرنے والے رپورٹرز کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ انہیں دھمکیاں ملتی ہیں،ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔خواتین صحافیوں کے لیے صورتحال مزید تکلیف دہ ہے، انہیں ہراسانی، سوشل میڈیا پر کردار کشی اور نفرت انگیز مہمات کا سامنا رہتا ہے۔فریڈم نیٹ ورک کی تازہ،امپیونٹی رپورٹ 2025، کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں کے خلاف جرائم میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 142 کیس رپورٹ ہوئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ عام انتخابات 2024 ء کے بعد میڈیا کارکنوں کے خلاف نفرت انگیزی اور حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور پاکستان کے تقریباً تمام علاقے صحافت کے لیے غیر محفوظ قرار پائے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف ایک سال کے دوران پیکا (PECA) کے تحت 36 مقدمات صحافیوں پر قائم کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر پنجاب میں درج ہوئے۔ بعض صحافیوں کے خلاف ایک سے زائد مقدمات بنائے گئے۔ حالانکہ رواں سال پارلیمان نے پیکا میں ترمیم کر کے ان شقوں کو مزید سخت کر دیا ہے، جن کا غلط استعمال آزادیِ اظہار کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون تو موجود ہے پر اس پر عملدرآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث اکثر عناصر کو سزا نہیں ملتی، اور متاثرہ خاندان انصاف کے انتظار میں رہ جاتے ہیں۔ اس سے مجرموں کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور آزادیِ صحافت کمزور ہوتی جاتی ہے۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافیوں کے لیے ماحول انتہائی خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا شمار اُن ریاستوں میں کیا جاتا ہے جہاں آزادیِ اظہار پر دباؤ، سنسرشپ، اور صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ہر حکومت آزادیِ صحافت کے نعرے تو لگاتی ہے پر اہل اقتدار تنقید برداشت نہیں کرتے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ میڈیا ان کے حق میں بولے، تعریف کرے اور سوال نہ اٹھائے۔ یہی رویہ آزادیِ رائے کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ صحافت کا کام حکومت کے مثبت منصوبوں تعریف کے ساتھ کارکردگی کا احتساب کرنا ہے۔ایسے حالات میں سب سے اہم ضرورت خود،صحافتی برادری کے اتحاد کی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، خطرناک حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ صحافی خود تقسیم رہیں گے تو ان کے حقوق اور تحفظ کی جدوجہد کمزور پڑ جائے گی۔ اتحاد، باہمی احترام، اور پیشہ ورانہ یکجہتی ہی وہ بنیادیں ہیں جن سے صحافی اپنے وجود کا دفاع کر سکتے ہیں۔ضروری ہے کہ۔حکومت اور ریاستی ادارے صحافیوں کے تحفظ کے لیے موثر نظام بنائیں۔مجرموں کو سزا دی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔میڈیا ادارے اپنے کارکنوں کے قانونی اور ذاتی تحفظ کے ضامن بنیں۔پیکا اور دیگر قوانین میں وہ شقیں ختم کی جائیں جنہیں آزادیِ اظہار کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ آزاد میڈیا دراصل اُن کی اپنی آواز ہے۔2 نومبر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچ بولنے کی قیمت ہمیشہ بھاری رہی ہے،پر سچ کے بغیر کوئی معاشرہ باقی نہیں رہ سکتا۔ آزادیِ اظہار صرف صحافیوں کا حق نہیں، یہ ہر شہری کی آزادی کا ضامن ہے۔پاکستان میں صحافت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ایک طرف خوف، دباؤ اور دھمکیاں، دوسری طرف امید، عزم اور سچائی۔ ہم نے سچ بولنے والوں کا ساتھ نہ دیا تو اندھیرا گہرا ہوتا جائے گا۔ آزادیِ صحافت کی حفاظت صرف قانون سے نہیں، بلکہ اتحاد، جرات اور سچائی سے ممکن ہے۔

Related Articles

Back to top button