کالمزمظفرآباد

ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

ستر اسی سالوں سے فلسطینیوں کی جاری نسل کشی جب غزہ میں اپنی انتہا کو پہنچی تو اللہ نے مغرب کے من موجی عوام کو فلسطین کے مظلوموں کے حق میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد ساری دنیا غزہ کے مظلوموں کے حق میں ہو گئی۔جس نے نیتن کو دنیا میں تنہا کر دیا۔سچ ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے، کہ جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔اسرائیل اپنے نا قابل تسخیر ہونے کے جھوٹے مصنوعی دعوے کے باوجود حماس سے لڑ کر اپنے یرغمالی نہ چھڑا سکے۔ پہلے بھی معاہدے کے تحت یرغمالی رہا ہوئے تھے۔ اب بھی ۹ سمتبر کے معاہدے کے تحت ہیں رہاہوں گے۔دنیا میں کوئی بھی مسلمانوں سے لڑکر اسے شکست نہیں دے سکتا کیوں کہ ان کو اللہ نے جہاد کا فلسفہ دیاہواہے۔ جو دنیا کی کسی قوم کے پاس نہیں۔
یہ جو یہودی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ فلسطین ہمیں اللہ کی طرف سے دی گئی ہے غلط ہے۔ وہ اس طرح کہ فلسطین بنی اسرائیل کو اُس وقت دی گئی تھی جب وہ مسلمان تھے۔ حضرت موسیٰ ؑکے دور میں فرعون کو جب سمندر میں غرق کیا گیا تھا تو موسیٰ ؑ کی قوم بنی اسرائیل مسلمان تھے۔ مگر بنی اسرائیل والے اسلام کے دائرے نکل کر کافر بن کر یہود و نصاریٰ بن گئے۔ لہٰذا فلسطین مسلمانوں کی تھی، ہے، اور رہے گی۔ نہ یہود کی اور نہ نصاریٰ کی۔ فلسطینی مسلمان ہیں اس لیے فلسطین اُن کی ہے۔
اس کے علاوہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ فلسطین میں فلسطینی تقریباً دو ہزار سال سے زیادہ سے رہے تھے۔ یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کر کے ان کو فلسطین سے نکال دیا تھا۔ پھر اشوریوں اور سلطنت روم کے عیسائیوں نے یہودی سازشیوں کی وجہ سے ان کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ اس طرح یہود فلسطین میں صرف آٹھ سول سال تک رہے۔اللہ سے بد عہدیوں کی وجہ سے، سزا پانے کے بعد، یہودی فلسطین سے نکال دیے گئے تھے۔پھر دنیا میں اڑھائی ہزار سالوں سے بے وطن تھے۔ عیسائی مملکتوں میں ان پر مظالم ہوتے رہتے تھے۔جب دنیا میں مسلمانوں کو اقتدار ملا تو یہودیوں کو امن نصیب ہوا۔ ان کے دانشور لکھتے ہیں کہ مسلمان مملکتوں میں ہمیں چین و سکون ملا۔ یہودی اسپین اورخلافت عثمانیہ کا خاص کر ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مشہور”اہلڈرز پروٹول“کاگہری سے مطالبہ کریں تو اس میں مسلمانوں کے خلاف کوئی چیز نہیں ملتی۔ صرف عیسایوں کے خلاف مواد موجود ہے۔ ابھی صدی پہلے جنگ عظیم میں یورپ کے ملکوں میں سے، ان کی سازشیوں کی وجہ سے انہیں نکالا گیا۔سودی کاروبار کی وجہ سے ان کے پاس دولت اکٹھی ہوئی۔ انہوں نے جنگ عظیم میں عیسائی ملکوں کے حکمرانوں کو قرضے دیے، یعنی پیسے دے کر مدد حاصل کی۔جس وجہ سے عیسائی حکمرانوں میں ان کو پذیرائی ملی۔ یہ دولت لے کر خلافت عثمانیہ کے باشاہ سلطان عبدالحمید کے پاس بھی گئے تھے کہ ہمیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دی جائے۔ ہم ترکی کے سارے قرضے چکا دیں گے۔ مگر سلطان نے دینی حمیت کی وجہ سے ان کے پیسے ٹھکرا دے۔کہا کہ میں تمھیں فلسطین نہیں دوں گا۔ اس کے بعد جب فلسطین پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا۔ تو یہی پیسے انگریزوں
کو پیش کئے گئے۔اسی پیسے کی وجہ سے انگریزوں نے ۷۱۹۱ء بلفورمعاہدے کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں آبادکرنا شروع کیا۔ ۸۴۹۱ء میں اقوام متحدہ سے ان کی ریاست اسرائیل کو تسلیم بھی کرایا گیا۔
جب ساری دنیا سے یہودی فلسطین میں آباد ہونا شروع ہوئے تو فلسطین میں پہلے سے جو یہودی جو آباد تھے ان کا تناسبب رائے نام تھا۔ جب ۸۴۹۱ء میں اسرائیل کے اقوام متحدہ تسلیم کرایا گیا توان کو ساٹھ فی صد فلسطین کی زمین دے دی گی۔ ۷۶۹۱ء کی عرب اسرائیل جنگ میں یہودیوں کو عیسائیوں کی مدد سے موجودہ پوزشن حاصل کی۔اُوسلو معاہدے کے تحت ایک طرف ویسٹ بنک کی محمو عباس کی میونسپل پلیٹی جتنی اختیار کی حکومت اور غزہ کی چالیس میل لمبی اور بارا میل چوڑی چھوٹی سے پٹی ملی۔ یاسرعرفات نے فلسطینی قومیت کی بنیاد پر یہودیوں کے خلاف جد و جہد کی۔ اور غزہ کی پٹی میں شہید شیخ محمد یاسین اوردیگر نے فلسطینیوں کی دین اسلام کی بنیاد یعنی اسلامی ملت پر تربیت کی۔ فلسطینی قومیت والے یاسر عرفات تو جلد ہمت ہار گئے۔ مگر جن کی دین اسلام، یعنی ملت اسلامیہ کی بنیاد پر تربیت ہوئی وہ فلسطینی یہودیوں
سے لڑتے رہے۔ آج تک حماس کی شکل میں لڑ رہے ہیں۔ دو دفعہ یہودیوں نے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے۔ ان مظالم کو فلسطینی نکبہ اوّل نکبہ دوم کے طور پر مناتے آئے ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں زمنیوں پر دہشت گرد آباد کاروں نے اسرائیل کی فوج اورپولیس کی مدد سے قبضے کیے۔ نئی نئی یہودی بستیاں بسائیں۔ فلسطینیوں کومہاجر کیمپوں میں ڈال دیا۔ صابرہ و شتیلا مہاجر کیمپوں پر بھی بمباری کر کے وہاں سے بھی نکل جانے پرمجبور کیا۔ نسل کشی کی وجہ سے فلسطینی اِرد گرد کے عرب ملکوں او ر دنیا کے آزاد ملکوں میں

۲
ہجرت کرگئے۔
اپنے ملک کو یہودیوں کے قبضہ سے چھڑانے کی پاداش ہزاروں فلسطینیوں کو اسرائیل کی صہیونی قوم پرست عدلیہ سے موت کی سزائیں سنا کرپھانسیوں پر چھڑا دیا۔ ہزاروں کو عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ جو اب بھی بیس، تیس، چالیس سالوں سے اسرائیل کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ حماس کے پاس اپنے قیدیوں کو چھڑانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ ان بے گناہوں کو جیلوں سے کیسے رہاکرایا جائے۔ چناں چہ ایک دفعہ حماس نے اسرائیل کے ایک بڑے لیڈر کو اغوا کیا اور بیس سال قید کاٹنے والے یحیٰی السنوار کوقیدی تبادلہ میں رہا کرایا۔یحییٰ السنوار نے۷/اکتوبر ۳۲۰۲ء میں اسرائیل پر قہر بن کر ٹوٹنے کی پلائنگ کی۔ پھر زمین، فضاء اوربحری راستوں سے دنیا کی جنگوں کا ایک انوکھا فوجی حملہ کیا۔ جس میں اسرائیل ناقابل تسخیر ہونے کا تکبر توڑا، اس کے ڈوم سیکورٹی کے بھرم کو غرق کیا۔ اس کے اندر گھس کر بار سو فوجی سولین کوجنم واصل کیا۔ دو سو پچاس کو یرغمالی بنا لیا۔
دو سالوں سے یہودی اور نصاریٰ مل کر اپنے یرغمالی رہا نہ کر سکے۔کون سااسلحہ ہے جو استعمال نہیں کیا۔ کون سے جاسوسی اور خفیہ کاروائی ہے جو نہ کی گئی ہو۔ کون سی جدید مشنری ہے جو استعمال نہ کی گئی ہو۔ ڈیزی کٹر بمبوں، حیاتاتی اسلحہ،آرٹیفشل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ کثیر منزلہ عمارتوں کو ٹنوں زیریلے بارود سے بھر کر ریموٹ کنٹرول سے چلا کر گرا دیا گیا۔غزہ کی نوے فی صد عمارتوں کو حماس کی سرنگیں تلاش کرنے کے لیے ملیا میٹ کر دیا۔غزہ کے لاکھوں بے گناہ کو شہید کیا، ڈھائی لاکھ کو زخمی کیا۔ ہزاروں مسنگ پرسن ہیں۔ ہزاروں ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان میں محصوم بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہزاروں کو قیدی بنا یا۔ سالوں سے غزہ کامحاصرہ کیا۔ خوراک پانی ادویات اندر نہیں آنے دیں۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امداد کے مرکز بنائے۔ وہاں خوراک پانی لینے کے لیے آنے والوں پر بمباری کی۔ سیکڑوں کی لاشیں بغیر نام بتائے غزہ میں شہریوں کے سامنے ٹرکوں سے پھینک دیا۔ ایک فوج کیمپ میں قائم جیل میں یہودع فوجیوں نے پچاس قیدیوں کی بڑی آنت میں ڈنڈھے ڈال کر اذہیت سے شہید کیا۔ نام نہاد فوجیوں پر مقدمہ قائم کیا پھر چھوڑ دیا۔ غرض کوئی ایسا ظلم نہیں جو روا نہ رکھا گیا ہو۔ دو دفعہ جنگ بندی معاہدہ کیا۔اپنی یرغمالی چھوڑائے پھر بدعہدی کرتے ہوئے معاہدہ توڑ دیا۔ اب تیسرا جنگ بندی معاہدہ ٹرمپ نے کرایا ہے۔ اس پر بھی بد عہدی کریگا تو اللہ اسے جو دنیا میں تنہا گیا ہے۔مذید ذلیل کر دے گا۔ فتح حق کی ہو گی۔ حماس حق پر ہے۔ اللہ نے اسے فتح دی۔ غزہ اور اسرائیل کے شہری خوشی منا رہے ہیں۔ دنیا کے امن پسند عوام بھی خوشیاں منا رہے ہیں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

Related Articles

Back to top button