کالمز

تنظیمِ نو اور امیدِ بہار

آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں عام انتخابات 2021ء کے بعد سے اب تک غیر معمولی سیاسی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے۔ محض چار برس کے اندر چار وزرائے اعظم کا بدل جانا نہ صرف نظام کی کمزوری کا اظہار ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کی اندرونی کشمکش کی گہری داستان بھی سناتا ہے۔ سردار عبدالقیوم نیازی کی حکومت ابھی ابتدائی مرحلے میں تھی کہ تحریک انصاف نے اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔ نیازی صاحب نے استعفیٰ دیا اور یوں 18 اپریل 2022ء کو سردار تنویر الیاس منصبِ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے۔
تنویر الیاس چونکہ روایتی سیاستدان نہیں تھے، اس لیے ان کا اندازِ حکمرانی بھی روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھا۔ پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا، پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوئے اور وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے۔ عام لوگوں، بالخصوص مہاجرینِ جموں و کشمیر کے مسائل سے ان کی دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ انہوں نے مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافہ کیا، مانک پیاں کے مکینوں کے لیے دریائے جہلم پر پُل کی منظوری دی اور اس کا کام بھی شروع کروایا۔ مگر عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جب وہ وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوئے تو یہ منصوبہ بھی وہیں رک گیا۔ بعد ازاں وزیراعظم انوارالحق کے دور میں اس تعمیراتی منصوبے پر پیش رفت نہ ہوسکی، متعدد بار سوالات اٹھے مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔
53 رکنی ایوان میں انوارالحق 48 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی اقتدار میں شمولیت اختیار کرلی، اگرچہ دونوں کی قیادت اسے ”ایم ایل ایز کی حکومت“ کے نام سے یاد کرتی رہی۔ تاہم سورج زیادہ دیر تک انگلی کے پیچھے نہیں چھپایا جا سکتا۔ بالآخر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو ساتھ ملا کر انوار سرکار کے خاتمے کی راہ ہموار کی اور انہیں ایوان سے باہر جانا پڑا۔
انوارالحق کے دور میں متعدد عوامی احتجاج سامنے آئے۔ لوگ اجتماعی طور پر اپنے مسائل کے حل کے لیے باہر نکلے۔ حکومتِ پاکستان کی مداخلت سے یہ احتجاج وقتی طور پر تھم گئے اور مسائل کے حل میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی، مگر اس تمام عرصے میں مہاجرینِ جموں و کشمیر کے دیرینہ مسائل بدستور نظر انداز رہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا عام لوگ، اکثر انوارالحق حکومت سے ناخوش دکھائی دیتے تھے۔ یوں عوام اور حکومت کے درمیان ایک واضح خلیج پیدا ہوگئی جو جمہوری ماحول کے لیے کسی طور نیک شگون نہیں تھی۔
اسی خلیج کو پُر کرنے کے لیے پیپلزپارٹی نے پہل کی، اور آج فیصل ممتاز راٹھور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ نوجوان قیادت ہونے کے باعث عوام انہیں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ رہے ہیں۔ یہ توقع بھی بجا ہے کہ وہ اپنے والد کی عوام دوست سیاست کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہتر طرزِ حکمرانی متعارف کروائیں گے۔
مہاجرینِ جموں و کشمیر، خصوصاً 1989ء کے بعد آنے والوں کے مسائل بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔ مستقل پالیسی کا فقدان، رہائش کے شدید مسائل، گزارہ الاؤنس میں اضافہ نہ ہونا، کیمپوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی، گلیوں اور سیوریج کی خستہ حالی، صحت و تعلیم کی کمزور سہولیات اور روزگار کی کمی—یہ سب وہ مسائل ہیں جن پر فوری توجہ درکار ہے۔ انوارالحق کے دور میں یہ آوازیں دب کر رہ گئیں، مگر نئی حکومت سے امید ہے کہ وہ انہیں ریاستی ترجیحات میں شامل کرے گی۔
آزادکشمیر میں نئی کابینہ تشکیل پا چکی ہے اور اس حکومت کے پاس سات ماہ کا محدود مگر نہایت قیمتی عرصہ موجود ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے، ان کے مسائل پر سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں اور ریاستی اداروں پر ان کا اعتماد بحال کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بار مہاجرین کے مسائل کو پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔
اگر فیصل ممتاز راٹھور کی قیادت اس مختصر مدت میں عوامی توقعات کے مطابق فیصلے کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ممکن ہے کہ یہی سیاسی تنظیمِ نو آزادکشمیر میں ایک نئی امیدِ بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

Related Articles

Back to top button