کالمز

پینشن نہیں کرپشن ختم کرنے کی ضرورت

دنیا کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے محنت کش ملازمین کی پینشن ختم کرکے ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔ ترقی کا راستہ کبھی عوام کے بنیادی حقوق چھیننے سے نہیں گزرتا بلکہ اس کا واحد دروازہ شفافیت، دیانت داری، اصول پسندی اور بدعنوانی کے مکمل خاتمے سے کھلتا ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے اپنے اداروں سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑا آج عالمی سطح پر کامیابی اور استحکام کی مثال سمجھی جاتی ہیں۔ جب کہ وہ معاشرے جو کرپشن کا بوجھ ڈھوتے رہے وہی پسماندگی، غربت، بے روزگاری، انتشار اور بدانتظامی کا شکار ہوئے۔ انہی حقائق کی روشنی میں کہنا بالکل درست ہے کہ ملک کی بقا اور ترقی کے لیے ملازمین کی پینشن نہیں بلکہ کرپشن ختم کرنا سب سے بڑی اور بنیادی قومی ضرورت ہے۔ پینشن کسی پر احسان نہیں بلکہ ایک محنت کش ملازم کی پوری زندگی کی مشقت کا وہ حق ہے جو ریاست اس کی خدمات کے بدلے ادا کرتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک آج اس لیے خوشحال نہیں کہ انہوں نے پینشن یا سوشل سکیورٹی جیسے نظام ختم کردیئے بلکہ اس لیے کہ وہاں ریاست اپنے شہریوں کو زیادہ سہولیات دیتی ہے، ان کی سوشل سکیورٹی کو بہتر بناتی ہے، بڑھاپے میں انہیں بے سہارا نہیں چھوڑتی اور ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت بنتی ہے۔ ان ممالک نے کبھی عوامی حقوق کا خاتمہ کرکے ترقی حاصل نہیں کی بلکہ ترقی کی حقیقی بنیادیں مضبوط اداروں، صاف شفاف حکومتی ڈھانچے، ایماندار قیادت اور غیر جانبدار احتساب کے سخت نظام پر رکھی گئیں۔ یہی وہ اصول ہیں جنہوں نے معاشروں کو ترقی، استحکام اور انصاف کی راہ پر گامزن کیا۔ پینشن ختم کرنے کا مطالبہ نہ معاشی حل ہے، نہ اصلاحات کی علامت بلکہ اس کا نتیجہ محض بے چینی، بے اعتمادی، ملازمین کی مایوسی اور ریاستی اداروں سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کی پریشانی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ معیشت کی مضبوطی کا راستہ کبھی عوام کی سہولتیں ختم کرنے سے نہیں بلکہ بدعنوانی کے ان تمام سوراخوں کو بند کرنے سے کھلتا ہے جن سے ملکی خزانہ روزانہ اربوں روپے ضائع ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اصل مسئلہ پینشن نہیں بلکہ کرپشن ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو اندر سے کھا لیا ہے اور اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہمارے ملک کے اندر کرپشن نے جس طرح اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گزشتہ سال میں نے اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ کی ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوا رہا تھا کاروائی کے دوران چمن کے ڈسٹرکٹ ھیڈ کوارٹر ھسپتال میں صرف ایک مہر لگانے گیا تو صرف مہر لگانے پر تین سو روپے مانگا گیا۔ ہمارے تمام اداروں میں یہی حالات ہیں اسی طرح ہمارے خزانہ آفس میں بھی جائز کام بغیر رشوت دینے نہیں ہوتا حالانکہ چپڑاسی لوگ بھی اپنا حصہ مانگتے ہیں اور آفیسرز حضرات بھی اپنے دفاتر چلانے کیلئے اس کام سے باز نہیں آتے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال، رشوت، سفارش، اقرباپروری، ٹینڈرز میں گھپلوں سے لے کر عوامی فنڈز کی خوردبرد تک، کرپشن کا دائرہ اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ اب عام آدمی کی زندگی کا کوئی شعبہ اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا۔ جب بدعنوانی عام ہوتی ہے تو منصوبے صحیح معنوں میں مکمل نہیں ہوتے، ترقیاتی بجٹ چند ہاتھوں میں سمٹ جاتا ہے، عوامی بہبود کے ادارے مفلوج ہوجاتے ہیں اور معاشرہ ناانصافی کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔ ملک میں ایسے منصوبے جن کی اصل لاگت چند ارب ہوتی ہے وہ کرپشن کی وجہ سے کئی گنا زیادہ مہنگے پڑتے ہیں۔ سڑکیں، اسپتال، اسکول، ڈیم، بجلی کے منصوبے۔ سبھی بدعنوانی کی نظر ہوجاتے ہیں۔ یوں عوام کا پیسہ چند قوتوں کے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہتا ہے جبکہ عام آدمی کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں آتیں۔ کرپشن کی وجہ سے بجلی، صحت، تعلیم، پانی، صفائی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی شعبے زبوں حالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عوام کی مشکلات بڑھتی ہیں اور ریاست پر اعتماد کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب کسی ملک میں قانون کمزور ہوجائے اور کرپشن طاقتور تو پھر انصاف ناپید ہوجاتا ہے۔ بڑے مجرم آزاد گھومتے رہتے ہیں جبکہ چھوٹے جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایسا دوہرا معیار معاشرے میں بے چینی، غصہ اور محرومی پیدا کرتا ہے۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ قانون اور احتساب صرف کمزوروں کے لیے ہے تو وہ ریاست اور اداروں سے امید کھو بیٹھتے ہیں۔ یہی بے اعتمادی کسی قوم کے لیے سب سے خطرناک ہوتی ہے۔ ملک کی معیشت میں بدعنوانی سے سب سے بڑا دھچکا سرمایہ کاری کو لگتا ہے۔ جب سرمایہ کار جانتے ہیں کہ ان کے منصوبے رشوت، سفارش، سیاسی مداخلت یا بیوروکریسی کی بدعنوانی کی وجہ سے رکے رہیں گے تو وہ سرمایہ لگانے سے گھبراتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار خصوصاً ایسے ملکوں میں سرمایہ نہیں لگاتے جہاں کرپشن کا تناسب زیادہ ہو اور قوانین غیر یقینی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں نوجوان روزگار سے محروم رہتے ہیں، معاشی سرگرمی سست ہوجاتی ہے، ٹیکس کم ملتا ہے اور ملک مسلسل قرضوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں بدعنوانی کے خلاف بے رحم، غیر جانبدار اور موثر کارروائی کرنا ہوگی۔ احتساب ایسا ہو جو کسی سفارش، دباؤ، سیاسی تعلقات یا طاقتور شخصیت کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔ قانون سب کے لیے برابر ہو چاہے وہ وزیر ہو، مشیر ہو، افسر ہو یا عام شہری۔ اداروں کے اندر ایسی اصلاحات کرنا ہوں گی جن سے میرٹ کی بالادستی قائم ہو، سفارش ختم ہو اور تقرریاں صرف قابلیت کی بنیاد پر ہوں۔ ایک ایسا نظام لانا ہوگا جس میں کارکردگی ہی کامیابی اور ترقی کا معیار ہو۔ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال کرپشن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ آن لائن ٹیکس سسٹم، ای گورننس، ڈیجیٹل ادائیگیاں، شفاف ریکارڈ، بائیومیٹرک تصدیق اور ایسے تمام طریقے جو انسانی مداخلت کم کریں وہ کرپشن کے مواقع بھی کم کر دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا نے یہی راستہ اپنایا اور آج وہ کامیابی کی مثال ہے۔ پاکستان میں بھی اگر تمام سرکاری عمل کو ڈیجیٹل کردیا جائے تو کرپشن میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب تک لوگوں کے اندر ایمانداری، خوفِ خدا اور امانت داری کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا صرف قوانین بنا دینے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ نئی نسل کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کرپشن صرف قانونی جرم نہیں بلکہ ایک بڑی اخلاقی خیانت اور قومی امانت میں بددیانتی کے مترادف ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں، گھروں اور معاشرتی نظام میں ایسی تربیت کو فروغ دینا ہوگا جو دیانت داری اور ذمہ داری کا درس دیتی ہو۔ حقیقی ترقی کبھی عوامی سہولتیں ختم کرکے نہیں آتی۔ قومیں تب ترقی کرتی ہیں جب ان کے ادارے مضبوط ہوں، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، شہری محفوظ ہوں اور ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ پینشن ختم کرنا ترقی کا راستہ نہیں بلکہ اس سے ملک کے لاکھوں خاندان متاثر ہوتے ہیں اور بے یقینی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم بدعنوانی کے دروازے بند کر دیں تو وہی رقم جو کرپشن کی نذر ہوتی ہے، ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود پر خرچ ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت پینشن ختم کرنے کی نہیں بلکہ کرپشن کے مکمل خاتمے کی ہے۔ جب ہم یہ سمجھ جائیں گے کہ حقیقی دشمن کرپشن ہے نہ کہ ملازمین کے حقوق تب پاکستان ترقی بھی کرے گا اور خوشحال بھی ہوگا۔ ہمارا مستقبل اس وقت روشن ہوگا جب قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی، احتساب بلا امتیاز ہوگا، میرٹ کا نظام بحال ہوگا اور بدعنوانی کی ہر شکل کو جڑ سے ختم کر دیا جائے گا۔ یہی راستہ ہے جو پاکستان کو پائیدار ترقی، خوشحالی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button