نظام سیاست اور نظام تعلیم میں اصلاح کی ضرورت

تحریر:شریف اعوان
قارئین کرام! زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ جو مختلف نظاموں کے تحت گزاری جاتی ہے۔ آج مقدور بھر نظام سیاست اور نظام تعلیم سے متعلق حقائق کی روشنی میں اصلاح کی تجاویز سامنے رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ سیاست ان دنوں ویسے بھی سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ میری مراد آزاد کشمیر کی سیاست کی گہما گہمی ہے۔سیاست عام شعبہ نہیں ہے۔ اسی کی بنیاد پر حکومتیں بنتی ہیں۔ جو عوام اور خطہ کے برے بھلے اور تعمیر و ترقی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کے نمایاں خدوخال حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔ ان خاندانوں کا قصور نہیں ہے شاید ان کی خدمات کے بدلے میں لوگ کندھوں پر بٹھا کر اقتدار کی کرسی پر بٹھا آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے اس کے بعد عوام کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔اقتدار میں پہنچ کر بالعموم ہمارے نمائندے اصل ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔ جس کے لیے ہڑتالیں اور مظاہرے کرنے پڑتے ہیں۔ دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ اختیارات کو تو انوارالحق صاحب کی طرح استعمال کرتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ان کے ذمہ ہے۔ جس کی مثال ملازمین کے ساتھ حکومت کا رویہ ہے۔ حکومت جائز اور تسلیم شدہ مسائل کا حل بھی ہر وقت یا از خود مناسب نہیں سمجھتی۔ بلکہ تعصب اور جانبدارانہ طرز عمل نے ہماری سیاست کو مزید بدنام کر دیا ہے۔ سیاست میں کردار سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس وقت نعمت کی بجائے زحمت بن جاتے ہیں۔ جب انصاف اور میرٹ کے خلاف کام دھڑلے سے کرتے ہیں۔ سارے نہیں لیکن کچھ احباب عوام کے پیسہ کی غیر منصفانہ تقسیم عمل میں لاتے ہیں۔ اس وقت ہمارے نمائندے اپنی تقاریر،وعدے اور طفل تسلیوں کو بھول جاتے ہیں۔ حکومتی ٹولہ خود ایک دوسرے پر اربوں روپے کی خرد برد کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ہماری سیاست کا معیار نظریہ ضرورت کے تحت پارٹیاں بدلنے اور ہر حال میں اسمبلی میں پہنچنے کی سوچ نیگرا دیا ہے۔ووٹ کا تقدس ووٹ ڈالنے تک موضوع سخن ہوتا ہے۔ بعد میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جب سیاسی قیادت کا عمل ڈنگ ٹپاؤ کا ہو جائے، تو ہم اپنے نظام سیاست کو کیا سمجھیں گے۔ تجویز ہے کہ ہمارے سیاست دان خود کو مسلمان رہنما سمجھیں۔ قول و فعل میں تضاد کو ختم کریں۔ خدمت خلق کو عبادت سمجھ کر کریں۔ ہر طرح کے تعصب سے خود کو باز رکھیں۔بلا تفریق اجتماعی کام میرٹ پر انجام دیں۔ اپنے اندر ثابت قدمی پیدا کریں۔خود کو خدا اور عوام کے سامنے جوابداہ تصور کریں۔ جھوٹ اور بددیانتی سے خود کو دور رکھیں۔ جاری دور حکومت میں سیاست پر جو بدنما داغ لگے ہیں انہیں اپنے عمل سے دھونے کی کوشش کریں۔ فکر نہ کریں ہمارے چھوٹے سے خطہ میں آپ گنے چنے Ready Made نمائندگان ہیں۔ ہم آپ کو دوبارہ اقتدار کے ایوان تک پہنچائیں گے، مگر یاد رکھیں کہ اب عوام بھی بیدار ہو چکی ہے۔ سیاست کو اسمبلی کی حد تک محدود نہ رکھا جائے۔ بلدیاتی نظام کو چلنے دیا جائے۔ اسے مؤثر بنایا جائے۔ بنیادی سطح پر فنڈز ان کے ذریعے خرچ کیے جائیں۔ اس سے ہر علاقہ کی تعمیر و ترقی ممکن ہوگی۔ ایم ایلیز اپنا کام کریں، پروجیکٹ ڈائریکٹر نہ بنیں۔ یا بنیادی بلدیاتی نظام سے اگے سیاسی قیادت بھی سامنے آئے گی۔ چمک کا دور ختم ہونے والا ہے۔مگر سیاست کا کھیل مہنگا ہو گیا ہے۔ قارئین کرام! سیاست کی طرح تعلیم بھی انتہائی اہم شعبہ ہے۔ جس پر سارے نظام کے لیے زندگی کا انحصار ہے۔ تعلیم ترقی کا بنیادی زینہ ہے۔ افراد اور ہر قوم کی بہتری کا انحصار معیار تعلیم پر ہے۔ تعلیم کا نظام قوم اور ملک کی ترجیحات کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے۔ جس میں طے کیا جاتا ہے، کیوں پڑھانا ہے۔ کیا پڑھانا ہے؟ اور کیسے پڑھانا ہے؟ کیا پڑھانے سے مراد نصاب جو قومی ضروریات کے پیش نظر طے کیا جاتا ہے۔ جو آج تک ہمارے ملک میں یکساں نصاب کے اعلانات تک محدود ہے۔ یہاں ہی سے ہم نے سارے شہریوں کی تقسیم کی ہوئی۔ ملک میں کئی طرح کے نصاب رائج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی بنیاد پر ہی سیاسی میدان اور اعلی ملازمتوں پر مخصوص طبقہ قابض ہے۔ آزادی سے پہلے مسلمانوں کو اتنی تعلیم دینے کی ضرورت سمجھی جاتی تھی کہ وہ کلرک اور منشی بن سکیں۔ آج بھی ہمارا یہ رویہ بدلا نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ ہونے اور بہتر سہولیات ہونے کے باوجود عوام کا اعتماد نہیں ہے۔ معیاری تعلیم کا حصول مہنگا اور مشکل ہے، جو ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے۔ آزاد کشمیر کی حد تک دیگر چند اصلاح طلب امور کی نشاندہی مناسب سمجھتا ہوں۔ جس میں فرض شناسی بنیادی چیز ہے۔ جو استاد معائنہ کار آفیسران اور حکومتی ارکان سب کے لیے ضروری ہے۔کچھ خرابیوں کو معلوم ہونے کے باوجود دور نہیں کیا جا رہا۔ ہر دورِ حکومت میں کچھ اساتذہ ڈیوٹی سے غفلت برتتے ہیں۔ قوم کے بچوں کا ایک لمحہ بھی اگر فضول ضائع کیا اس سے بھی ہمارا رزق حرام ہو سکتا ہے۔ معائنہ کار افسران اپنی اصل ذمہ داری حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیابی کو سمجھتے ہیں۔حالانکہ ان کا کام خرابیوں کی نشاندی کر کے ان کا حل حکام بالا کو بتانا ہے۔ کسی استاد کے شایان شان نہیں کہ کسی بھی سطح کے نمائندے کے ساتھ ڈائری اٹھا کر پھرے۔ اور تنخواہ کسی ادارہ میں تدریس کی وصول کرے۔ نمائندگان کو بھی ٹیچر کو اپنا منشی رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ایک اور خرابی ابھی تک موجود ہے کہ کچھ بااثر حضرات اپنی بہو بیٹیوں کی جگہ چند ٹکوں پر متبادل ٹیچر رکھ کر خود ہزاروں روپے تنخواہ وصول کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ بلکہ چند ایک تو متبادل ٹیچر رکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ تمام انتظامی آفیسران سے رپورٹ نہیں بیان حلفی لیا جائے کہ ان کے ماتحت تعلیمی اداروں میں کوئی ٹیچر غیر حاضر رہ کر یا متبادل انتظام کے تحت تنخواہ وصول نہیں کرتا یا کرتی۔ یہ ایکشن زیادہ تر ایلیمنٹری/ پرائمری اور شعبہ نسواں میں کسی حد تک ابھی بھی موجود ہے۔ ایلیمنٹری اساتذہ کے سکیلوں میں بہتری موجودہ حکومت کا نمایاں کارنامہ ہے۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ لگن سے کام کیا جائے۔ اور تعلیم اس انداز سے دی جائے کہ عمل کا حصہ بن جائے۔ کرداری تبدیلی عمل کے بغیر نہیں آ سکتی۔ آزاد کشمیر میں جس طرح شرح خواندگی بہتر ہے اسی طرح اس کا معیار بھی بہتر بنانے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آخر میں حکمرانوں کی طرف سے کبھی کبھی آنے والے بیانات کے سلسلہ میں تجویز ہے کہ تصور دیا جا رہا ہے کہ تعلیم کو پرائیویٹ شعبہ کے حوالے کر دیا جائے۔ یقینًا پرائیویٹ شعبہ میں جذبہ مشابقت کے تحت معیار ساتھ بہتر ہو۔ مگر کتنے لوگ بچوں کو تعلیم دلا سکیں گے۔ یہ بات پیش نظر رکھی جائے، شرح تعلیم بہتر ہونے کے دعوے زمین بوس ہو جائیں گے۔ ایسا فیصلہ تعلیم کا قتل ہوگا۔ تعلیم کے نظام میں ایک عجیب فیصلہ پرائمری اور جونیئر اساتذہ کی درجہ بندی کو نامعلوم کس بہتری کے لیے ختم کیا گیا۔ یہ ناکام تجربہ کسی اعتبار سے مناسب نہیں۔ غور کریں تعلیم کے درجے پرائمری،مڈل اور ہائی موجود ہیں۔ اساتذہ کو پرائمری اور جونیئر کی بجائے صرف ایلمینٹری قرار دیتے وقت کسی نے غور کیا تھا۔ آج بھی پرائمری ٹیچرز میٹرک pTc کے حامل موجود ہیں۔جبکہ پی۔ایچ۔ ڈی اور ایم۔ فل تعلیم کی حاصل کافی تعداد موجود ہے۔ اور یہ سب برابر ہیں۔ اگر کبھی تبادلہ جات جن میں سیاسی مداخلت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کسی مڈل سکول میں سارے ایلیمنٹری ٹیچرز میٹرک پاس تعینات ہو جائیں تو ممکن بھی ہے، تو تعلیم و تدریس کا کیا بنے گا؟ یہ فیصلہ وقت کے ساتھ بدلنا پڑے گا۔ ویسے یہ لگتا مذاق ہے۔۔ (باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭




