
2017 کا سال پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس وقت ملک کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار تھی، شرحِ نمو 5.8 فیصد تک جا پہنچی تھی، توانائی بحران تقریباً ختم ہو چکا تھا، سی پیک کے منصوبے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، اور عالمی ادارے پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ مگر عین اسی دوران ایک غیر جمہوری مداخلت کے ذریعے وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے پاکستان کی معاشی رفتار سست ہوئی، پالیسیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور عوامی اعتماد کو شدید دھچکا لگا۔
نواز شریف کی برطرفی کے بعد سیاسی انجینئرنگ کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا، جس نے ریاستی نظام کے اندر ایک غیر متوازن اور غیر مستحکم ڈھانچہ پیدا کر دیا۔ انتقامی سیاست، ادارہ جاتی تصادم، سفارتی تنہائی اور معاشی ناسمجھی نے ملک کو بحرانوں کے گرداب میں دھکیل دیا۔ سی پیک کی رفتار رک گئی، برآمدات میں کمی ہوئی، غیر ملکی سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی، اور بین الاقوامی اداروں کا اعتماد ختم ہونے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان معاشی طور پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا اور تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران نے اپنی ہی مسلح افواج کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلائی۔ ریاست کی اساس کو ہلانے والے یہ رجحانات قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن گئے۔
ایسے میں ملک کی قومی جمہوری سیاسی جماعتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ ملک کو مزید عدم استحکام سے بچانے کے لیے باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ یوں 10 اپریل 2022 کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک وفاقی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ یہ محض ایک آئینی عمل نہیں بلکہ جمہوریت کے استحکام اور پارلیمانی خودمختاری کی علامت تھا۔ جب میاں شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ملک شدید مالی، سیاسی اور سفارتی بحران میں گھرا ہوا تھا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم، آئی ایم ایف پروگرام معطل، برآمدات جمود کا شکار، اور عوامی اعتماد تقریباً ختم ہو چکا تھا۔
انہی نامساعد حالات میں وزیرِاعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی و سفارتی ٹیم نے تدبر، بصیرت اور عزم کے ساتھ قدم بڑھایا۔ غیر ضروری اخراجات میں کمی، برآمدات کے فروغ، توانائی منصوبوں کی بحالی، اور دوست ممالک سے بروقت معاہدوں کے ذریعے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا۔ یہ درحقیقت ایک سیاسی معجزہ تھا کہ مالیاتی اداروں کا اعتماد بتدریج بحال ہوا اور ملک دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔
ملک کی سب سے بڑی آئینی آزمائش اس وقت آئی جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ آیا۔ عمران خان نے اپنی من پسند تقرری کے لیے غیر معمولی سیاسی تنازع پیدا کر رکھا تھا۔ ایسے میں میاں محمد نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور قومی ترجیحات کی گہرائی ایک بار پھر آشکار ہوئی۔ ان کی مشاورت سے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اُس وقت کے سینئر ترین افسر لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف نامزد کیا، حالانکہ ان کی ریٹائرمنٹ میں محض ایک دن باقی تھا۔ یہ فیصلہ تاریخ میں ایک جرات مندانہ اور دور اندیش اقدام کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وقت نے ثابت کیا کہ سید عاصم منیر کی تقرری نہ صرف بروقت بلکہ قومی سلامتی کے لیے ناگزیر تھی، اور آج وہ فیلڈ مارشل کے منصب پر فائز ہو کر پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کر چکے ہیں۔
8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت وجود میں آئی۔ اگرچہ اسے بھی شدید مالی دباؤ اور عوامی توقعات کا سامنا تھا، مگر نظم و ضبط اور تسلسل کے ساتھ پالیسیوں نے ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کیا۔ عالمی اداروں نے ایک بار پھر پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا اور تسلیم کیا کہ پاکستان اپنی معیشت کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسی دوران 25 مئی 2025 کو بھارت نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایک نئی جارحیت کی کوشش کی۔ بھارتی فضائیہ کی اشتعال انگیزی کا پاکستان نے نہایت پیشہ ورانہ اور فوری جواب دیا۔ پاکستان ایئر فورس نے دشمن کے منصوبے کو ناکام بنایا اور دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی دفاعی تیاری، انٹیلی جنس ردِعمل اور عسکری ہم آہنگی مثالی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس کامیابی کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر غیر معمولی پذیرائی ملی۔ امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک نے پاکستان کے تحمل اور پیشہ ورانہ دفاعی ردِعمل کو سراہا۔ بین الاقوامی میڈیا نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے ایک ممکنہ خطے کی جنگ کو عقل و تدبر سے ٹال دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا نظریہ — ”دفاع میں حکمت، ردِعمل میں نظم” — عملی صورت میں دنیا کے سامنے آیا۔
معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بھی دوبارہ قائم کی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کے چین، خلیجی ممالک اور امریکہ کے دورے پاکستان کی سفارتی بحالی کے سنگ میل ثابت ہوئے۔ ان کے ہمراہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے کامیاب سفارتی و عسکری روابط نے دنیا کو ایک نئے، متوازن اور باوقار پاکستان سے متعارف کرایا۔ عالمی طاقتوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان اب صرف خطے کا تزویراتی ملک نہیں بلکہ امن اور استحکام کا ذمہ دار شراکت دار ہے۔
جب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے عسکری قیادت سنبھالی تو ملک اندرونی انتشار، معاشی دباؤ اور بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ دھشت گردی اور فکری و نظریاتی خلفشار کے نرغے میں تھا۔ ان کا اور وزیراعظم شہباز شریف کا بنیادی پیغام واضح تھا کہ ”ریاست مقدم ہے، سیاست بعد میں۔” یہی نکتہ ان کے وژن کی بنیاد ہے — ایک ایسا پاکستان جو ادارہ جاتی نظم، قانون کی حکمرانی اور قومی وحدت پر قائم ہو۔ انہوں نے TTP، BLA اور داعش سے منسلک تخریبی نیٹ ورکس کے خلاف“بنیان المرصوص”جیسے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز شروع کیے جن کے نتائج امن کی بحالی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔
اگرچہ پاکستان کو بہت جانی و مالی نقصانات برداشت کرنا پڑے لیکن دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔
اس دوران داخلی محاذ پر تحریکِ لبیک کی سرگرمیوں نے ایک نیا چیلنج پیدا کیا۔ جب پوری دنیا فلسطین—اسرائیل تنازع کے حل کے لیے پرامید تھی، اسی وقت پاکستان میں مذہب کے نام پر احتجاج اور تصادم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کرنے اور داخلی نظم کو بگاڑنے کی دانستہ کوشش تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے جرات مندانہ فیصلہ کیا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے واضح کیا کہ مذہب کے نام پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ریاست نے مذاکرات، قانون اور نظم کے امتزاج سے اس فتنے کو قابو میں لایا، اور دنیا نے دیکھا کہ پاکستان اپنے داخلی امن کو عقل و برداشت کے ساتھ سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار عسکری اور سیاسی قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے مابین مشاورت، قومی سلامتی کمیٹی کے متفقہ فیصلے، اور مشترکہ حکمتِ عملی اس سوچ کے مظہر ہیں کہ ریاست کا مفاد سب سے مقدم ہے۔ یہی ہم آہنگی ماضی کے تصادمات سے حاصل شدہ سبق کی تعبیر ہے، اور اسی کے نتیجے میں پاکستان سیاسی انتشار سے نکل کر نظم و استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔
آج پاکستان ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ معاشی اشاریے بہتری کی خبر دے رہے ہیں، ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کر رہے ہیں، اور قوم میں اعتماد کی فضا بحال ہو رہی ہے۔ یہ سب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اس نظریہ? قیادت کا ثبوت ہیں جو طاقت کو نظم، اور نظم کو امید سے جوڑتا ہے۔ ان کا وژن محض عسکری منصوبہ نہیں بلکہ قومی فلسفہ ہے — ایک ایسا فلسفہ جو سیاست اور ریاست دونوں کو آئینی توازن میں رکھتا ہے۔ پاکستان کی بقاء، خودمختاری اور استحکام — یہی اس قیادت کا مقصد، نصب العین اور قومی عزم ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں قوم کو مایوسی نہیں بلکہ امید نظر آتی ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر استحکام، عزت اور ترقی کی نئی صبح کی طرف لے جا رہا ہے۔




