یکم نومبر گلگت بلتستان کایوم آزادی ا وردرپیش چیلنجز

راجہ ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں،یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوا م نے نہتے ہونے کے باوجود ڈوگرہ فوج سے 28ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا،گلگت بلتستان کے بچوں بوڑھوں مرد اورخواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاص کی،تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھااور ہندواکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیربھی شامل ہے،کشمیرپر مسلط ڈوگرہ نے کشمیری عوام کی مرضی اور منشا کے خلاف ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے،دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں،اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے،دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں،سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیے ہیں جو نظروں کو خیر ہ کردیتے ہیں۔کسی سیاح کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی نظر میں آسمان،برف جنگلات آبادی،ریگستان اور دریا دیکھے تو یہ سارے مناظر گلگت بلتستان میں پائے جائے ہیں جو سیاحوں کے لیے دلچسپی کا سبب ہیں۔
آزاد کشمیراور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں،بیس کیمپ کی یہ حکومت قائم اعظم کے ویثرن کانتیجہ ہے۔لیکن آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی،پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا،اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کانظام حکومت الگ کیاگیا۔نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متازع خطہ ہے،یہاں کے عوام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق رائے شماری کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کافیصلہ کرنا ہے،اگرچے یہاں کے عوام پاکستان کو ہی اپنی منزل قراردیتے ہیں مگر رائے شماری ابھی تک نہیں ہوئی اس لیے جب تک رائے شماری ہوتی کشمیرمتازع علاقہ ہے۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں،اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے،گورنر اور ویرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیرآزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کاقی حدتک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔
اس حساس خطہ ہے دشمن کی نظریں ہمیشہ اس خطے پر رہی ہیں۔فرقہ واریت کا شکار ہاہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرماہے اس لیے یہاں کے عوام نے فیصلہ کیاکہ اب ہم نے مل کررہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کاراستہ بھی یہی ہے۔اس سوچ اورفکر کو پذیرائی ملی ہے۔جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔اس خطے میں سنی،اہل تشیع،نوربخشی،اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی،لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجو د ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی سے بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے،انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتا ق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیاہے،یہ پاکستان کاقدرتی حصار ہے،گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں کے لیے بھی دعاؤں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہوقت ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔



