کفر،ملک دشمنی کے فتوے اورریاستی طاقت

یہ دنیا بھی کسی پل صراط کی مانند ہے۔ایک ایسا تنگ اور نازک راستہ جس پر ذرا سا لغزش کھانا انسان کوجہنم جیسی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔پاکستان میں ایسے منظر ہر روز دکھائی دیتے ہیں۔ کسی مولوی، پیر یا مذہبی رہنما کے متعلق ناپسندیدہ بات کہہ دی جائے تو فوراً،توہین مذہب، کفر کے فتوے لگاکر جہنم کا پروانہ جاری کردیاجاتا ہے۔دوسری طرف جب کسی صاحب اقتدار کے بارے میں تنقید کی جائے تو وہ عوامی نمائندے نہیں رہتے بلکہ اُن کے اندرموجودظالم قسم کے بادشاہ سلامت جاگ اٹھتے ہیں۔ تنقید یامطالبہ کرنے والوں پر،دہشتگرد،انتشار پسند،غدار،ریاست دشمن قراردے دیا جاتا ہے۔اس کے خلاف مقدمے قائم کیے جاتے ہیں۔یہ رویہ دراصل اس پل صراط پر توازن کھونے کے مترادف ہے جس پر ہم سب کھڑے ہیں۔ مذہب کے نام پر کفر کے فتوے اور اقتدار کے نام پر حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں نے معاشرے میں خوف، نفرت اور انتقام کی فضا پیدا کر دی ہے،ایسے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں جہاں سچ بولنا،حق کامطالبہ جرم بن جائے اور چاپلوسوں کو انعام دیاجائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عقل، عدل اور برداشت کی روشنی سے اس پل صراط کو پار کریں۔ اختلافِ رائے کو کفر یا غداری کے بجائے اصلاح کا ذریعہ سمجھیں۔ ورنہ ایک دن یہ معاشرہ اسی کھائی میں گر جائے گا، جسے ہم خود اپنے فتووں، الزامات اور طاقت کے نشے سے کھود رہے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے حالیہ خطاب نے ایک بار پھر سیاست، مذہب، انتہا پسندی اور ریاستی طاقت کے باہمی تعلق پر بحث کو زندہ کردیا ہے۔انہوں نے بجا طور پر یہ بات کہی کہ سیاست یا مذہب کی آڑ میں انتہا پسندی، تشدد اور املاک کی تباہی کسی طور قابلِ قبول نہیں، کیونکہ یہ طرزِ عمل معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کس حدتک درست ہے؟ جب حکمران جماعتیں اپنے مخالفین کے خلاف اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں تو جمہوریت کی روح مسخ ہو جاتی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریاستی طاقت کے استعمال کی داستان کوئی نئی نہیں۔ ہر دور میں اقتدار میں آنے والی حکومت نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے طاقت کا سہارا لیا۔ ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر ضیاء الحق کے اسلامائزیشن کے دور تک، اور پھر مشرف کے احتسابی نعروں سے لے کر موجودہ سیاسی ماحول تک، یہ روایت قائم رہی کہ اختلافِ رائے کو دشمنی کے برابر سمجھا جاتاہے۔ یہی رویہ آج بھی جاری ہے۔ حکومتیں بدلتی ہیں پر انتقامی سیاست کی روش نہیں بدلتی۔وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر میں جماعت لبیک پر تنقید کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے طرزِ عمل پر بھی سخت ردِعمل سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جب تک سیاسی جنگ لڑتی رہی، کوئی اعتراض نہیں تھاپرجب ریاستی املاک جلائی گئیں تو ان کا زوال شروع ہوا۔اس میں شک نہیں کہ 9 مئی کے واقعات نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا، سوال یہ ہے کہ کیا ان چند پرتشدد واقعات کی آڑ میں پورے سیاسی طبقے کو دیوار سے لگانا درست ہے؟ جمہوری اقدار اس وقت پروان چڑھتی ہیں جب اختلاف کو برداشت کیا جائے، نہ کہ کچلا جائے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینا اور عوامی جذبات کو بھڑکانا خطرناک رجحان ہے۔ماضی میں مذہبی نعروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت نے ملک میں برداشت، رواداری اور فکری آزادی کو شدید نقصان پہنچایا، لبیک،جیسے مقدس لفظ کو تشدد، اشتعال اور نفرت کے ساتھ جوڑ دینا اس لفظ کے تقدس کی توہین ہے۔ مذہب کو سیاست کے میدان میں ہتھیار بنانا دراصل مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مذہب کی آڑ میں تشدد غلط ہے تو اقتدار کی آڑ میں ظلم بھی اتنا ہی سنگین جرم ہے۔ریاستی اداروں کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، انتقام نہیں۔ کسی سیاسی جماعت یا فرد نے قانون شکنی کی ہے تو اس کے خلاف شفاف اور غیرجانبدار کارروائی ہونی چاہیے، جب کارروائیاں،چن چن کر صرف مخالفین کے خلاف ہوں، تو انصاف کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون نہیں،بلکہ تعلقات اور طاقت کا راج ہے۔آج پاکستان کو انتہا پسندی سے نہیں بلکہ انتقامی سیاست سے بڑا خطرہ لاحق ہے۔جب ادارے حکومت کے ماتحت ہو جائیں اور انصاف کی تلوار صرف ایک سمت میں چلے، تو قوم تقسیم در تقسیم ہوتی جاتی ہے۔ یہی تقسیم دشمنوں کے لیے سب سے بڑی آسانی بن جاتی ہے۔ حکمران طبقے کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی مخالف سوچ طاقت کے زور سے ختم نہیں کی جا سکتی۔ اسے صرف مکالمے، برداشت، انصاف اور بہتر طرزِ حکمرانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔یہ دور سوشل میڈیا اور تیز تر معلومات کا ہے۔ عوام اب وہ خاموش تماشائی نہیں رہے جو سرکاری بیانات کو آخری سچ سمجھتے تھے۔ وہ ہر خبر کا دوسرا رخ جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے پرانے ہتھکنڈے، جیسے میڈیا بلیک آؤٹ، گرفتاریاں، یا خوف کے ذریعے دباؤ ڈالنا، اب موثر نہیں رہے۔ آج کے عوام کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں،بیانیے سے نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالفین کو دشمن سمجھنے کے بجائے انہیں جمہوری عمل کا حصہ مانے۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اختلاف کی گنجائش موجود ہو۔ ہر اختلاف کو غداری، بغاوت یا تشدد سے تعبیر کیا جائے تو پھر سیاست، آمریت کا چہرہ پہن لیتی ہے۔سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی صفوں میں انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ یہ ملک پہلے ہی دہشتگردی، مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بحران سے دوچار ہے، اسے مزید نفرت اور ٹکراؤ کی سیاست کی ضرورت نہیں۔ حکومت واقعی عوامی حمایت چاہتی ہے تو اسے کارکردگی دکھانی ہوگی۔ روزگار، صحت، تعلیم، انصاف،یہی وہ میدان ہیں جن میں کامیابی سے حقیقی عوامی مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے، نہ کہ مخالفین کی گرفتاریاں اور میڈیا ٹرائلز۔سیاسی انتقام سے نہ کسی حکومت نے استحکام پایا ہے نہ کسی قوم نے ترقی کی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کے زور پر دبائے گئے مخالفین بالآخر زیادہ مضبوط ہو کر ابھرتے ہیں۔ لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ سیاسی مخالفین کے لیے جگہ تنگ کرنے کے بجائے مکالمے کی فضا پیدا کریں۔پاکستان کو اس وقت ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے جس میں مذہب اورسیاست کوہم آہنگ کرتے ہوئے، جمہوری روایات کو مضبوط کیا جائے۔ انتہا پسندی اور انتقام، دونوں سے نجات حاصل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔وزیراعلیٰ پنجاب کی بات درست ہے کہ ”لبیک” کا لفظ مقدس ہے، اسے تشدد سے جوڑنا غلط ہے پر اسی طرح اقتدار بھی مقدس امانت ہے، اسے ذاتی یا جماعتی انتقام کے لیے استعمال کرنا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ ریاست ایک ماں کی طرح ہے تو اسے اپنے تمام شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہوگا،چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ذاتی،سیاسی یامذہبی اختلافات کی بنیادپرتوہین مذہب،غداری،دہشتگردی،بغاوت،انتہاء پسندی یاملک دشمنی کے فتوے جاری کرناکسی صورت قابل قبول نہیں۔




