
جیسے نیک اور فرمانبردار اولاد والدین کے لیے سرمایہ حیات ہوتی ہے تو ایسے ہی نافرمان، خود غرض اور بگڑی اولاد والدین اور معاشرے دونوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔ شادی کے بعد سب سے بڑی خواہش حصول اولاد کی ہوتی ہے،سجب والدین کو خوشی کا یہ لمحہ میسر آتا ہے تو ان کی زندگی کے رہن سہن، خواہشات اور ضروریات میں تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں پہلے وہ آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے اب تیسرے وجود کے بعد ان کے سر پر ایک نئی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے، بچے کے لیے حساس ہو جانا، اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنا، اس کے رونے پر پریشان ہو جانا، اس کی زندگی کی پہلی مسکراہٹ پر زندگی میں رنگ بھر جانا، پہلا قدم اٹھانے پر سر فخر سے بلند ہو جانا، پہلا لفظ نکالنے پر خوشی سے پھولے نہ سمانا اور اس جیسے سینکڑوں لمحات کو شمار کرنا اور انہیں یاد رکھنا کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے۔
پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے سکول کی ضروریات اور سکول کا انتخاب بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھے اور ہر جگہ پر کامیاب ہو، والدین اپنے وسائل کے حساب سے اپنے بچوں کو بہتر سے بہترتعلیمی ادارے میں داخل کرواتے ہیں اور اس کی دیگر ضروریات کو بھی ہر ممکن حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر ان کابچہ کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہوا پرائمری سے مڈل اور پھر ہائی سکول تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کی ضروریات، جیسے سکول کی فیسیں، سکول بیگ، کتابیں، کاپیاں وغیرہ بڑھ جاتی ہیں،لیکن والدین کبھی اس کو نہیں کہتے کہ بیٹا اب آپ کوئی کام کرو ہم مزید آپ کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، بلکہ وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر، اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود کر کے اپنی جوانی کا قیمتی اور خوبصورت وقت محنت مشقت میں صرف کر دیتے ہیں تا کہ ان کی اولاد زندگی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائے،ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر معاشرے کا ایک بہترین فرد بن جائے تو معاشرے میں ہمارا نام روشن کرے گا اور ہم فخر سے سر اٹھا کر چلیں گے۔
لیکن وقت پلٹا کھاتا ہے اولاد بڑی ہو گئی اس کے خیالات بھی بلند ہو گئے، خواہشات کی نوعیت بھی بدل گئی اور حلقہ احباب بھی بدل گیا، وہ بیٹا جو کچھ عرصہ پہلے تک ہر قدم پر والدین کی رہنمائی اور ان کے جیب خرچ کا محتاج تھا اب اس کو والدین جاہل، ان پڑھ، سست اور بے وقوف نظر آنے لگے جو اس کی زندگی بناتے بناتے خود زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے اور اس بیٹے کے نزدیک وہ اپنی ”بے وقوفی” کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے، والدین کے لیے ان کا بیٹا ان کی زندگی کا کل سرمایہ ہوتا ہے اور بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے لیکن ان کو کیا معلوم کہ وہ اپنے لیے سہارا تو دور کی بات نافرمان اولاد کی شکل میں زندگی بھر کا روگ پال رہے ہیں جو ان کو معاشرے میں بھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑتا اور خاندان میں بھی رسوائی کا سبب بنتا ہے۔
وہ چھوٹا بچہ جب بچپن میں ڈرتا تھا تو والدین سے چپک کر سو جایا کرتا تھا، بادل گرجتے تھے تو ان کی گود میں چھپ جایا کرتا،اور والدین کے دور ہونے سے خوف آتا تھا اب والدین اس کے کمرے میں جھانک لیں یا کچھ پوچھ لیں تو اس کی پرائیویسی میں مداخلت ہوتی ہے، جب وہ پوری پوری رات روتا تھا اور والدین رات بیٹھ کر گزار دیتے تھے اب والدین کو کھانسی بھی ہو تو وہ ان سے دور بھاگتا ہے کہ کہیں نیند خراب نہ ہو جائے، جب وہ بیمار ہوتا تھا تو والدین اس کو گود میں اٹھائے اور کبھی گاڑیوں میں بٹھائے دور دراز کے ہسپتالوں میں دن رات صرف کر دیتے تھے اب والدین کو تکلیف ہو تو اس کے ”کام“ میں حرج ہوتا ہے کیونکہ اس نے دوستوں کو ٹائم دیا ہوا ہے، کیونکہ اب وہ ”پڑھ لکھ” گیا ہے اوروہ کامیاب ہو گیا ہے، اس کے والدین اب اس سے بہت پیچھے ہیں جن کو وہ بار بار طعنے دیتا ہے کہ آپ کو کچھ نہیں پتا چلتا، اور آپ نے اپنی زندگی خراب کر دی ہے۔ (جاری ہے)
تحریر: شاہدمحمود۔ سیکرٹری اطلاعات پریس کلب بہارہ کہو رجسٹرڈ اسلام آباد




