کالمز

سرکاری ریٹ لسٹ

پاکستان میں سرکاری ریٹ لسٹ ایک ایسی مقدس دستاویز ہے جسے دیکھنے کے بعد انسان صرف آہ بھرسکتاہے، مسکرا کر سر ہلاسکتا ہے اور پھر مارکیٹ سے مہنگی چیزیں خرید کر گھر لوٹ جاتے ہوئے خود کو دلاسہ دے سکتاہے کہ شاید غلطی میری ہی ہے۔ حکومت اور نرخوں کے درمیان وہی تعلق ہے جو دور دور کھڑے دو اجنبیوں کا ہوتا ہے،دریاکے دوکناروں کاہوتاہے جوایک دوسرے کودور سے دیکھ کر سلام تو کر سکتے ہیں پر قریب آنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ہمارے ہاں سرکاری ریٹ لسٹ میں دودھ 170 روپے فی کلو درج ہوتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس نرخ کا وجود آپ کو صرف کاغذوں میں ملے گا۔ مارکیٹ میں 170 روپے کاکلو دودھ مانگ لیں تو دکاندار پہلے آپ کو غور سے دیکھتا ہے کہ کہیں آپ کسی دور دراز سیارے سے تو نہیں آئے، پھر مسکرا کر کہتا ہے،بھائی، یہاں 240 روپے لیٹر وہی دودھ ملے گا جس میں پانی، کیمیکل اور شائد کوئی پرانا ٹائر پگھلا کر بھی ڈالا گیا ہو، خالص دودھ وہ بھی 170روپے کلولیناہے توسرکارسے رابطہ کریں یاپھرسیدھے اسمبلی ہال پہنچ جائیں۔اسی طرح بڑے گوشت کے سرکاری نرخ 800 روپے فی کلو درج ہیں پر قصاب آپ کو پوری سنجیدگی سے یقین دلاتے ہیں کہ 1200 سے 1300 روپے کا پانی ملا گوشت ہی صحت کیلئے سوفیصد فٹ ہے،800روپے کلوصحت مندگوشت مانگاتوممکن ہے آپ کی صحت یہیں درست کردی جائے۔آپ کو 1200روپے کلو مہنگا لگتا ہے تو پھر قصاب فخریہ انداز میں فرما دیتے ہی بھائی آپ کا بجٹ پتھروں والی دال کے لیے موزوں ہے، وہ بھی سرکار کی مہربانی سے اب 350 روپے کلو مل جاتی ہے۔اور رہی بات بکرے کے گوشت کی۔سرکاری فہرست میں 1600 روپے فی کلودرج ہے پرمارکیٹ میں 2400 سے 2600 روپے میں بزرگ، بیمار بھیڑ، بکریوں کاگوشت دستیاب ہے۔ گوشت پانی میں ڈوبا ہوا نہ ہو تو قصائی کے نزدیک وہ صحت کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے جانور پہلے کسی جم میں کام کرتے تھے، پھر اچانک بیمار ہو کر ہمارے قصائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔سبزیوں کا تو پوچھیں ہی مت۔ سرکاری ریٹ لسٹ میں ہر سبزی کی قیمت دیکھ کر انسان خوش ہوجاتا ہے، جیسے ہی مارکیٹ پہنچے تو پتا چلتا ہے کہ بیچاری سبزیاں سرکاری ریٹ لسٹ سے اتنی شرمندہ ہیں کہ مارکیٹ میں آنے سے پہلے قیمت کو ڈبل کرکے چہرے پر،پردہ ڈال دیاجاتاہے۔ دکاندار آپ کو گھورتے ہوئے کہتے ہیں،صاحب، سرکاری لسٹ گھر لے جائیں اور سالن بھی اسی کا پکائیں۔دالوں، گھی، چاول اور چینی کی حالت بھی مختلف نہیں۔ سرکاری لسٹ ان کی صرف تعریف کرتی ہے، حقیقت میں آپ کو یہی چیزیں خریدنابھی آسان نہیں۔ انڈے سرکار کے مطابق سستے ہیں پر مرغیاں شاید خود کو کسی خاص شاہی خاندان سے سمجھتی ہیں اور نرخ وہی بتاتی ہیں جیسے کسی شاہین کے انڈے ہوں۔اب آتے ہیں ناپ تول کی طرف۔سرکاری پیمانوں کے مطابق کلو،پورا کلو ہوتا ہے۔پرمارکیٹ میں کلو سے 100-150 گرام کا،محبت بھرا،حصہ دکاندار خود رکھ لیتے ہیں۔رہی بات کوالٹی کی؟ تو جناب ساری بحث میں سب سے بے کار سوال یہی بنتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کوالٹی کا وجود اب صرف ٹک ٹاک ویڈیوز میں دیکھا جاتا ہے۔اب ذرا سرکارکی وصولی والی سرکاری ریٹ لسٹ کی حسن کارکردگی بھی ملاحظہ ہو۔ بجلی اور گیس پہنچے نہ پہنچے ان کے بل بروقت عوام کے دروازوں پر باقاعدگی سے پہنچ جاتے ہیں۔ ان بلوں میں وہ ٹیکس بھی شامل ہوتے ہیں جن کے نام سن کر بندہ فوراً گوگل کھولے کہ آخر یہ کس جرم کی پاداش ہے؟اورپھرگوگل کاسربھی چکراجائے۔ ستم یہ کہ بل نہ بھرے جائیں تو پہلے کنکشن اُڑ جاتا ہے، پھر ایف آئی آر ہوتی ہے اور معاملہ کہیں کہیں گرفتاری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ واہ سرکار۔ یہی مستقل مزاجی انتظامی نرخوں میں بھی ہوتی تو ملک جنت نظیر ہوتا۔حکومت اپنی طرف سے نرخ مقرر کرتی ہے پر مارکیٹ میں ان نرخوں کا احترام اتناہی کیاجاتاہے جتنی ووٹ کوعزت دی جاتی ہے۔حکومتی لاپرواہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لسٹوں کو چسپاں کرنے والے اہلکار خود بھی جانتے ہیں کہ عوام کواس کاغذ ی ریٹ لسٹ سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا پھربھی وہ خاموشی سے بازار کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دکاندار اور قصاب سیاست دانوں کی طرح اپنی مرضی کے نرخوں پر چلتے ہیں۔ حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو ضروری ہے کہ صرف نرخ طے نہ کرے بلکہ ان نرخوں کے مطابق چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنائے، معیار چیک کرے، ناپ تول میں دیانت داری کی نگرانی کرے، اور سب سے بڑھ کر ملاوٹ مافیا کے خلاف وہی جذبہ دکھائے جو سی سی ڈی کی جانب سے نیفے میں گولی چلتے وقت دکھایا جاتا ہے۔عوام اب اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ مارکیٹ کی مہنگائی دیکھ کر چہرے پر غصے کی جگہ ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ“چلو بھئی! آج تو 2600 میں گوشت مل گیا، لگتا ہے مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ ہم حکومت سے انتہائی ادب سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا سرکاری ریٹ لسٹ کو حقیقت کے قریب لائیں، کیونکہ اب عوام کے پاس دو ہی راستے رہ گئے ہیں۔یا تو مہنگی چیزیں خرید کر خاموش رہیں یا پھر روزانہ کے حساب سے بھوکے سونے کی مشق کریں۔ملاوٹ، مہنگے ریٹ اور ناقص کوالٹی نے قوم کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تھکا دیا ہے۔

Related Articles

Back to top button