کالمز

ٹرمپ مودی لڑائی…پہ تماشا نہ ہوا

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اورچینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لئے جو پہلے سے طے کر لئے گئے تھے۔شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندرمودی کے لئے شیریں بیانی شروع کر دی۔ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکہ کا دوست قراردیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لئے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایہئ تکمیل تک پہنچائیں گے۔جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکہ فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکہ شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندرمودی پر مختلف اوقات میں جو فردِجرم عائد کی تھی اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔بھارت اور امریکہ کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔اس طرح امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے
تھی خبر گرم کی غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ َ تماشا نہ ہوا
امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لئے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکہ کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکہ ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لئے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اُڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔امریکہ کے زیر اثر برادر وغیر برادرملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لئے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لئے قائم نظام کے لئے مستقبل بعید میں اُبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اُلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔بہرحال بھارت اور امریکہ کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکہ نے نائن الیون کے بعد اپنا سٹریٹجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ایک سٹریٹجک پارٹنر اسرائیل کے لئے امریکہ جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔اسی طرح چین کے ساتھ امریکہ کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکہ کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکہ کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔بھارت امریکہ کے لئے بروئے کار آنے کے لئے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لئے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔پاکستان کے لئے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پربھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button