
السلامُ علیکم!
وزیراعظم کے طور پر حلف لینے کے بعد پہلے خطاب میں ملازمین سرکار کی ”پروموشن پالیسی“ کے حوالہ سے کہا گیا کہ ”آئندہ کے لئے ملازمین کا ٹائم سکیل پروموشن بلا تخصیص گریڈ 19 تک ہوا کرے گا“ اور ایک نکتہ سرکاری گاڑیوں کے استعمال / ٹرانسپورٹ پالیسی پر نظر ثانی سے متعلق تھا۔ ہماری رائے میں ملازمین کی ترقیابی ابتدائی تقرری اور ترقیابی و مستقل تبادلہ بذریعہ سلیکشن اتھارٹی کی سفارشات سے مشروط ہے جو آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974ء کے تحت Fundamental Right کی ذیل میں آتا ہے۔ تقرر و شرائط ملازمت 1977ء کے قاعدہ 9 کی غلط طور پر یہ تعبیر و تشریح کی جاتی رہی ہے کہ ”ترقیابی کا حق کلیم نہیں کیا جا سکتا جو صرف ایسی صورت میں ہوتا ہے جہاں سلیکشن اتھارٹی Judious Manner کے تحت کسی ملازم کو ترقیابی کے لئے ناموزوں قرار دے دے۔ تجربہ و طوالت سروس برائے ترقیابی پوری کرنے سے پہلے ہی ترقیاب ہونے والا امتیازی مراعات یافتہ اقلیتی طبقہ قوانین و قواعد سازی کی تشریح اور سلیکشن اتھارٹیز پر حاوی ہوتا ہے اور بداعمالیوں کے دفاع کے لئے انہیں سرکاری فیس پر کونسل بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ قانون کے تحت کسی بھی ملازم کا کیڈر ایک ہی ہوتا ہے مگر عملاً ایک سے زائد ایکس کیڈر غیر قانونی ترقیابیاں ہوتی ہیں۔
حکومت سول سرونٹس ایکٹ 1976ء جو عبوری آئین 1974ء کے آرٹیکل 58 اور آئین، اسلام اور بنیادی انسانی حقوق کے تابع ہے کے تحت ہی ملازمین کے لئے قواعد سازی / پالیسی سازی کا اختیار رکھتی ہے اور آئین کے آرٹیکل (17,15)4 میں واضح درج ہے کہ ریاستی باشندگان کے حقوق مساوی ہوں گے اور اہل اشخاص کے لئے سروسز میں کوئی امتیاز نہیں ہو گا مگر من مانی تشریح کے تحت عملاً اس حق کو بری طرح پامال (Discriminate) کیا جا رہا ہے۔ عدالت العالیہ نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلہ میں سروسز میں کوٹہ سسٹم کی بجائے ”اوپن میرٹ“ پر براہ راست تقرریوں کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ خوش آئند ہے مگر جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم اور Opportunities مساویانہ نہیں ہوں گی نا انصافیاں جاری رہیں گی۔ ہم نے اس کا تفصیلی جائزہ بھی لیا تھاجو بشکل کالم شائع ہو چکا ہے تاہم موجودہ حالات میں باٹم لائن یہی ہے کہ تقرری کے مجاز آفیسر / اتھارٹی (Appointing Authority) کے دائرہ اختیار میں جو علاقہ آتا ہے اوپن میرٹ اسی علاقہ / لوکل کے امیدواران کا مرتب ہونا چاہیے۔ اس طرح عملاً غیر جریدہ آسامیوں گریڈ 1 تا 15 کا میرٹ اپنی اپنی علاقائی حدود اور جریدہ گریڈ 16 تا بالا آسامیوں کا میرٹ ریاستی سطح پر مرتب ہو سکتا ہے مگر ساتھ ساتھ وسائل کی منصفانہ تقسیم / Opportunities کو برابری پر لانے کا عمل بھی تیز تر کیا جانا ہو گا۔ ہم قبل ازیں اس رائے کا بھی اظہار کرتے رہے کہ چونکہ حکومت سازی حلقہ انتخاب کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لئے اوپن میرٹ بھی حلقہ انتخابات پر ہی مرتب ہونا مناسب ہے۔ عوامی مفاد میں پالیسی ساز ان دونوں طریقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ جہاں ترقیابی کے ذریعے تقرری کا تعلق ہے حکومت نے اس مقصد کے لئے مختلف قواعد / پالیسیاں مرتب رکھی ہیں جن میں سے بذیل قابل ذکر ہیں اور اوپن میرٹ (بدوں کوٹہ) کا اطلاق ترقیابیوں کی آسامیوں پر بھی ہونا چاہیے۔
٭ ترقیابیوں کے طوالت سروس (Length of Service) نوٹیفکیشن 1984ء کے تحت گریڈ 17 سے 18 کے لئے 5 سال، 19 کے لئے 17 و بالا 12 سال، 20 کے لئے 17 و بالا 17 سال اور 22/21 کے لئے مزید دو دو سال مقرر ہیں۔ اسی طرح گریڈ 16 و 1 تا 15 کے لئے طوالت سروس و محکمانہ رولز کے تحت مقرر ہے جو تجربہ کا دوسرا نام ہے مگر ان رولز میں بھی کم تر تجربہ کے ہوتے ہوئے ایکٹنگ، کرنٹ اور آفیشیٹنگ ترقیابیوں کے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں جن کے تحت مختلف ٹیکنیکل طور طریقوں سے بالا ذکر ملازمین کا طبقہ مستفید ہوتا ہے۔
٭ ترقیابیوں کا ایک طریقہ سکولز ٹیچرز کے دباؤ پر سال 2008ء میں ”ٹائم سکیل پیکج“ کے تحت سامنے آیا جن کے تحت پرائمری ٹیچر گریڈ 7 کو چار مرحلوں میں گریڈ 15، جونیئر ٹیچر کو گریڈ 9 کو چار مرحلوں میں گریڈ 16 اور سینئر ٹیچرز گریڈ 16 کو تین مرحلوں میں گریڈ 19 دیا جاتا ہے۔ (بعد میں کچھ آسامیاں اپ گریڈ بھی ہوئیں)۔
٭ گریڈ 17 و بالا کے لئے محکمہ تعلیم سکولز / کالجز، امور حیوانات و صحت کے لئے اولذکر نارمل پروسیجر کے علاوہ چار درجاتی فارمولہ (50:34:15:1) نافذ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر گرید 17 کے 100آفیسرز ہوں تو ان میں پرسنٹیج کے اعتبار سے ایک کو گریڈ 20، 15 کو 19، 34 کو 50 اور 50 کو 17 میں رکھا جاتا ہے مگر درج رہے کہ ٹائم سکیل پرسنٹیج کے تحت دیئے جانے والے گریڈز صرف مالی مفاد کے لئے دیئے جاتے ہیں اور آسامی کا ریگولر (Substantive) گریڈ بنیادی ہی رہتا ہے یعنی ٹائم سکیل 20 گریڈ لینے والے کی آسامی 17 گریڈ کی ہی ہوتی ہے۔ یہ طریقہ کار کیڈر میں بالا آسامیوں و کسی قسم کے کورسز کے بغیر ہی ہوتا ہے۔
٭ صوبہ بلوچستان کی طرز پر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی و دیگر محکموں کے ان ملازمین جنہیں پوری سروس میں ایک ہی گریڈ میں سروس کر کے ریٹائر ہونا پڑتا تھا کو بھی ہماری جدوجہد کے نتیجے میں 10، 10 سال بعد دو مرتبہ ٹائم سکیل کی سہولت ملی اور بعد ازاں دیگر ملازمین کو بھی یہی سہولت مل گئی۔
٭ بطور صدر گزیٹڈ آفیسرز ایسوسی ایشن / صدر جائنٹ سپریم کونسل تنظیم ہاء ملازمین جریدہ / غیر جریدہ کے علاوہ ہم اپنے کالموں کے ذریعے ان نا انصافیوں اور Discrimination کی بار بار نشاندہی اور اصلاح احوال کی کوشش کرتے رہے جس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔
٭ وزیراعظم موصوف کی حالیہ تقریر اور بالاذکر امتیازی سلوک کو آئینی تقاضوں کے تحت ختم کرنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ حکومت اپنے درج بالا تمام طریقے یکسر ختم کر کے باقاعدہ ترقیابی (Regular Promotion) کا صرف تین درجاتی فارمولہ (10:9:8) نوٹیفائی کرے جو موجودہ وسائل کے اندر ہی ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ملازم جس گریڈ میں بھرتی (Appoint) ہو اپنے کیڈر / چینل میں 8سال بعد بالا گریڈ، 9 سال بعد دوسری مرتبہ بالا گریڈ اور 10 سال بعد تیسری بار اگلے گریڈ میں آسامی یا بدوں آسامی ترقیاب ہو سکتا ہے۔ (کل 27 سالوں میں پوری سروس میں تین مرتبہ ترقیابی کی دیگر شرائط کے تابع ترقیابی حاصل کرے اور دیگر مراعات بھی مساویانہ ہوں جو موجودہ مالی وسائل کے اندر ہی ممکن ہیں)۔
٭ جاب ڈسکرپشن کے مطابق موزونیت کی بنیاد پر 3 سال بعد اور سیکرٹری کی آسامی کا Tenure 5 سال (کمی و بیشی جوازیت کے ساتھ) ہوں۔
٭ کم از کم اجرت کے قانون کی طرح زیادہ سے زیادہ اجرت کا قانون بھی نافذ ہو۔
٭ اسی طرح ٹرانسپورٹ پالیسی کے تحت صدر / وزیراعظم سے لے کر ماسوائے سکیورٹی اداروں کے نچلے آفیسران تک سرکاری گاڑی کی بجائے تحت استحقاق تنخواہوں کے ساتھ ٹریولنگ الاؤنس دیا جائے اور ذاتی گاڑی کے سرکاری استعمال کی حد تک فول پروف سسٹم کے تحت Reimbursement دے دی جائے۔ اس طریقہ کار کا میں نے فارن ٹریننگ (1987ء) کے دوران ملائیشیا میں مشاہدہ کیا تھا (اس پالیسی پر مرحلہ وار عمل بھی کیا جا سکتا ہے) نیز جس آفیسر / اتھارٹی کا کوئی فیصلہ غیر قانونی قرار پائے اس کے ہر طرح کے مضمرات کی ذمہ داری بھی اسی کی ہو۔
والسلام
(سردار محمد سلیم چغتائی)
مرکزی صدر
ایکس ایمپلائز کونسل آزادکشمیر
رابطہ نمبر: 0333-5682663/432025




